فاضل جج نے اس بات کو بڑی اہمیت دی ہے کہ ہزار در ہزار حدیثیں گھڑی گئیں اور اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ تحقیق کرنے والے اس پر خصوصیت کے ساتھ غور کریں لیکن ہم عرض کرتے ہیں کہ تحقیق کرنے والوں کو ساتھ ساتھ اس سوال پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ ہزار در ہزار حدیثیں اس زمانے میں آخر گھڑی کیوں گئیں؟ اس کے گھڑے جانے کی وجہ یہی تو تھی کہ حضورﷺ کا قول وفعل حجت تھا اور آپ کی طرف ایک غلط بات منسوب کرکے جھوٹے لوگ کوئی نہ کوئی فائدہ اُٹھانا چاہتے تھے۔ اگر وہ حجت نہ ہوتا اور کسی شخص کے لیے اپنے کسی دعوے کے حق میں حدیث لانا اور نہ لانا یکساں بے فائدہ ہوتا تو کسی کو کیا پڑی تھی کہ ایک غلط بات تصنیف کرنے کی تکلیف اُٹھاتا۔ دُنیا میں ایک جعل ساز وہی نوٹ تو بناتا ہے جو بازار میں قدر وقیمت رکھتا ہو۔ جس نوٹ کی کوئی قیمت نہ ہو اسے آخر کون احمق جعلی بنائے گا؟ اب اگر فرض کیجیے کہ کسی وقت جعل سازوں کا کوئی گروہ پاکستان کے ہزاروں جعلی نوٹ بنا ڈالے تو کیا اس پر کسی کا یہ استدلال کرنا صحیح ہو گا کہ پاکستان کے سارے نوٹوں کو اُٹھا کر پھینک دینا چاہیے کیوں کہ جعلی نوٹوں کی موجودگی میں سرے سے اس کرنسی کا ہی کوئی اعتبار نہیں ہے؟ ملک کا ہر خیر اندیش آدمی فورًا اس فکر میں لگ جائے گا کہ ایسے جعل سازوں کو پکڑا جائے اور ملک کی کرنسی کو اس خطرے سے بچا لیا جائے۔ ٹھیک یہی تاثر آغاز اِسلام میں جھوٹی احادیث کا فتنہ رونما ہونے سے اِسلام کے خیر اندیش لوگوں نے لیا تھا۔ وہ فورًا اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے ایک ایک واضعِ حدیث کا پتہ چلا کر اس کا نام رجال کی کتابوں میں ثبت کر دیا، ایک ایک جھوٹی حدیث کی تحقیق کرکے احادیث موضوعہ کے مجموعے مرتب کر دیے، احادیث کی صحت وسقم جانچنے کے لیے بڑے سخت اصول قائم کرکے لوگوں کو اس قابل بنا دیاکہ صحیح اور جعلی حدیثوں میں امتیاز کر سکیں اور کسی وقت بھی کوئی جھوٹی حدیث اِسلامی قانون کے مآخذ میں راہ نہ پا سکے، البتہ منکرینِ سُنّت کا طرز ِفکر اس زمانے میں بھی یہی تھا کہ غلط احادیث کے پھیل جانے سے سارا ذخیرۂ حدیث مشتبہ ہو گیا، لہٰذا تمام احادیث کو اُٹھا کر پھینک دینا چاہیے۔ انھیں اس کی پرواہ نہ تھی کہ سُنّت رسولﷺ کو ساقط کر دینے سے اِسلامی قانون پر کس قدر تباہ کن اثر پڑے گا اور خود اِسلام کی صورت کس بری طرح مسخ ہو کر رہ جائے گی۔