محترمی ومکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ!
عنایت نامہ مورخہ ۵؍نومبر ۱۹۶۰ء کو ملا۔ کچھ خرابیٔ صحت اور کچھ مصروفیت کے باعث جواب ذرا تاخیر سے دے رہا ہوں اور اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
آپ نے حسبِ سابق پھر وہی طریقہ اختیار کیا ہے کہ ایک بحث کو صاف کرنے سے پہلو بچا کر آگے کچھ نئے سوالات چھیڑ دیے۔ حالانکہ آپ کو نئے مسائل سامنے لانے سے پہلے یہ بتانا چاہیے تھا کہ پچھلے خط میں آپ کے دس نکات پر جو بحث میں نے کی تھی اس میں سے کیا چیز آپ مانتے ہیں اور کیا نہیں مانتے، اور جس چیز کو نہیں مانتے اسے رد کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا دلیل ہے۔ اسی طرح آپ کو میرے ان واضح اور متعین سوالات کا بھی کوئی جواب دینا چاہیے تھا کہ جو میں نے اس خط میں آپ سے کیے تھے لیکن سوالات کا سامنا کرنے سے گریز کرکے اب آپ کچھ اور سوالات لے آئے ہیں اور مجھ سے چاہتے ہیں کہ میں ان کا جواب دوں، یہ آخر کیاطرزِ بحث ہے؟
میرے پچھلے خط پر آپ کا تبصرہ کچھ عجیب ہی سا ہے۔ تمام اہم نکات جو اس میں زیر بحث آئے تھے، اور بنیادی سوالات جن پر اس میں روشنی ڈالی گئی تھی، ان سب کو چھوڑ کر سب سے پہلے آپ کی نظر میرے آخری فقرے پر پڑتی ہے اور اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’میں حق کے آگے تو جھکنے پر تیار ہوں لیکن بت کے آگے میں نہیں جھک سکتا اور شخصیت پرستی میرا مسلک نہیں ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سا ’’بت‘‘ ہے جس کے آگے جھکنے کے لیے آپ سے کہا گیا تھا؟ اور کس ’’شخصیت پرستی‘‘ کی آپ کو دعوت دی گئی تھی؟ میں نے تو صریح آیات قرآنی سے یہ ثابت کیا تھا کہ رسول اللّٰہ ﷺ اللّٰہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حاکم، شارع، قاضی اورمعلم وراہ نُما ہیں اور اللّٰہ ہی کے حکم کی بِنا پر آپ کی اطاعت اور آپ کا اتباع ایک مومن پر واجب ہے۔ اسی حق کے مقابلے میں جھکنے کے لیے میں نے آپ سے عرض کیا تھا۔ اس پر آپ کا مذکورۂ بالا ارشاد یہ شبہ پیدا کرتا ہے کہ شاید محمدﷺکی اطاعت اور پیروی ہی وہ ’’بت‘‘ ہے جس کے آگے جھکنے سے آپ کو انکار ہے، اور یہ وہ ’’شخصیت پرستی‘‘ ہے جس سے آپ گریزاں ہیں۔ اگر میرا یہ شبہ صحیح ہے تو میں عرض کروں گا کہ دراصل آپ شخصیت پرستی نہیں خدا پرستی سے انکار کر رہے ہیں، اور ایک بہت بڑا بت آپ کے اپنے نفس میں چھپا ہوا ہے جس کے آگے آپ سجدہ ریز ہیں، جہاں سراطاعت خم کرنے کا خدا نے حکم دیا ہو، وہاں جھک جانا بت کے آگے جھکنا نہیں، خدا کے آگے جھکنا ہے، اور یہ شخصیت پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہے، البتہ اس سے جو شخص انکار کرتا ہے وہ دراصل حکم خدا کے آگے جھکنے کے بجائے اپنے بت نفس کے آگے جھکتا ہے۔
پھر آپ میرے سارے دلائل کو اس طرح چٹکیوں میں اڑانے کی کوشش فرماتے ہیں کہ تم نے ’’لفاظی اور جذبات کا مرکب پیش کرنے میں سارا زور قلم صرف کیا ہے۔‘‘ یہ رائے آپ چاہیں تو بخوشی رکھ سکتے ہیں، لیکن اس کا فیصلہ اب وہ ہزاروں ناظرین کریں گے جن کی نظر سے یہ مراسلت گزر رہی ہے۔ میں نے دلائل پیش کیے ہیں یا محض لفاظی کی ہے اور آپ ہٹ دھرمی کا اظہار فرما رہے ہیں یا حق پرستی کا۔
پھر آپ اپنی اس بدنصیبی پر افسوس کرتے ہیں کہ میرے جوابات سے آپ کی الجھنیں اور بڑھ گئی ہیں۔ مجھے بھی اس کا افسوس ہے مگر ان الجھنوں کا منبع کہیں باہر نہیں، آپ کے اندر ہی موجود ہے۔ آپ نے یہ مراسلت واقعی ’’بات سمجھنے کے لیے‘‘ کی ہوتی تو سیدھی بات سیدھی طرح آپ کی سمجھ میں آ جاتی، لیکن آپ کی تو اسکیم ہی کچھ اور تھی۔ آپ نے اپنے ابتدائی سوالات میرے پاس بھیجنے کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے علما کے پاس بھی اس امید پر بھیجے تھے({ FR 6818 }) کہ ان سے مختلف جوابات حاصل ہوں گے اور پھر ان کا ایک مجموعہ شائع کرکے یہ پروپیگنڈا کیا جا سکے گا کہ علما سُنّت سُنّت تو کرتے ہیں مگر دو عالم بھی سُنّت کے بارے میں ایک متفقہ رائے نہیں رکھتے۔ وہی ٹیکنیک جس کا ایک شاہ کار ہمیں منیر رپورٹ میں ملتا ہے۔ اب میرے جوابات سے آپ کی یہ اسکیم آپ ہی کے اوپر الٹ پڑی ہے اس لیے آپ کو سمجھانے کی جتنی کوشش بھی میں کرتا ہوں آپ کی الجھن بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس نوعیت کی الجھن کا آخر میں کیا علاج کر سکتا ہوں۔ اس کا علاج تو آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ حق بات سمجھنے اور ماننے کی مخلصانہ خواہش اپنے اندر پیدا کیجیے اور ایک مسلکِ خاص کے حق میں پروپیگنڈا کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے کی فکر چھوڑ دیجیے۔ اس کے بعد ان شاء اللّٰہ ہر معقول بات بآسانی آپ کی سمجھ میں آنے لگے گی۔
پھر آپ میری طرف یہ غلط دعوٰی منسوب کرتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی عمر قرآن کے ایک ایک لفظ پر غور کرنے اور اس کے مضمرات کو سمجھنے میں صرف کی ہے۔‘‘ حالانکہ میں نے اپنے متعلق یہ دعوٰی کبھی نہیں کیا۔ میں نے تو اپنے پچھلے خط میں جو کچھ کہا تھا وہ یہ تھا کہ اِسلامی تاریخ میں بے شمار ایسے لوگ گزرے ہیں اور آج بھی پائے جاتے ہیں جنھوں نے اپنی عمریں اس کام میں صَرف کر دی ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ آپ نے کیسے نکال لیا ہے کہ میں اپنے حق میں یہ دعوٰی کر رہا ہوں۔
اتنی غیر متعلق باتیں کر چکنے کے بعد، آپ میرے خط کے اصل مبحث کے متعلق صرف اتنی مختصر سی بات ارشاد فرمانے پر اکتفا کرتے ہیں کہ : ’’آپ کے خط میں بہت سے ابہامات ہیں۔ کئی باتیں قرآن کے خلاف ہیں۔ کئی باتیں ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ قرآن کا مطلب صحیح طور پر نہیں سمجھتے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اس سے زیادہ مبہم بات بھی کوئی ہو سکتی ہے؟ آخر آپ نے کچھ تو بتایا ہوتا کہ میرے اس خط میں کیا ابہامات تھے، کیا چیزیں قرآن کے خلاف تھیں اور قرآن کی کن آیات کا مطلب میں ٹھیک نہیں سمجھا۔ ان ساری باتوں کو تو آیندہ کسی فرصت کے لیے آپ نے اُٹھا کر رکھ دیا اور اپنا آج کا وقت کچھ نئے سوالات تصنیف کرنے میں صَرف فرما دیا۔ حالانکہ یہ وقت پچھلے سوالات پر گفتگو کرنے میں استعمال ہونا چاہیے تھا۔
اگر اس مراسلت سے میرے پیشِ نظر صرف آپ کو ’’بات سمجھانا‘‘ ہوتا تو آپ کی طرف سے ’’بات سمجھنے‘‘ کی کوشش کا یہ نمونہ دیکھ کر میں آیندہ کے لیے معذرت ہی کر دیتا۔ لیکن دراصل میں آپ کے ذریعے سے دوسرے بہت سے ’’مریضوں‘‘ کے علاج کی فکر کر رہا ہوں جن کے ذہن اسی طرح کے سوالات چھیڑ چھیڑ کر پراگندہ کیے جا رہے ہیں۔ اس لیے میں ان شاء اللّٰہ آپ کے ان تازہ سوالات کا جواب بھی دوں گا، اور ایسے ہی سوالات آپ اور چھیڑیں گے تو ان کا جواب بھی دوں گا، تاکہ جن لوگوں کے اندر اس گم راہی کے لیے ابھی تک ضد پیدا نہیں ہوئی ہے، وہ سُنّت کے مسئلے کا ہر پہلو اچھی طرح سمجھ لیں اور ان کو گم راہ کرنا آسان نہ رہے۔