(۱۳)مئی ۱۹۵۲ء میں احرارنے پہلی مرتبہ قادیانیوں کے خلاف عام ایجی ٹیشن شروع کیا۔ حکومت نے اس وقت جگہ جگہ دفعہ ۱۴۴لگاکرلاٹھی چارج کرکے ائمہ مساجد پر دبائو ڈال کراسے دبانے کی کوشش کی۔حتیٰ کہ ملتان میںفائرنگ کی نوبت بھی آئی۔اس وقت سے لے کرمارچ ۱۹۵۳ء تک کے آغازتک میںنے اورجماعت اسلامی نے حکومت کوبارباریہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ قادیانی مصنوعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ حقیقی مسئلہ ہے جس کے نہایت گہرے مذہبی‘معاشی‘سیاسی اورمعاشرتی اسباب ہیںاوریہ اسباب پچاس سال سے کام کررہے ہیں۔پنجاب کے لاکھوںمسلمانوںکی زندگی ان سے متاثرہے لہٰذا اس کواوپرسے دبانے کے بجائے اسے سمجھیے اورٹھنڈے دل ودماغ سے حل کرنے کی کوشش کیجیے ۔اس کے ثبوت میںمیرے وہ مضامین‘بیانات، پمفلٹ اورجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے ریزولیوشتر موجودہیںجوماہ جون سے مارچ تک پے درپے شائع ہوتے رہے۔ میںنے پاکستان کی مجلس دستورسازکواگست۱۹۵۲ء میں یہ مشورہ بھی دیاکہ جودستوراس وقت زیر ترتیب ہے اس میںجس طرح دوسری اقلیتوں کے لیے جداگانہ انتخابات اور نشستوں کا تعین تجویزکیاجارہاہے اسی طرح قادیانیوںکے لیے بھی کر دیاجائے تاکہ مسلمانوںکی بے چینی رفع ہوجائے اوریہ مسئلہ خواہ مخواہ کسی ہنگامے کاموجب نہ بن سکے۔یہی رائے جنوری۱۹۵۳ء میںپاکستان کے ۳۳سربرآوردہ علما کی اس مجلس نے بھی دی جوکراچی میںمنعقدہوئی تھی۔لیکن حکومت نے نہ صرف یہ کہ ان مشوروںکی طرف کوئی توجہ نہ کی…بلکہ اس نے خوداپنی طرف سے بھی اس مسئلے کوحل کرنے کے لیے کچھ نہ کیا۔اس کارویہ اول روزسے یہی رہاکہ یہ مسئلہ صرف حقارت کے ساتھ ردکردینے ہی کے قابل ہے‘اس قابل نہیںہے کہ اسے سمجھااورحل کیاجائے۔