سوال-اگر ایک آدمی حق کی تلاش میں ہے اور وہ دل سے اس کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے کافی جدوجہد کے بعد بھی وہ نہیں ملتا تو کیاوہ بے چارہ حوصلہ ہار نہیں بیٹھے گا؟ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی انتہائی تاریکی میں اس غرض سے سفر کرتا ہے کہ کہیں روشنی کا چراغ اسے ملے۔ لیکن سفر کرتے کرتے روشنی کا نشان تک اسے نہیں ملتا۔ آخر کو بے چارا تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ روشنی سرے سے ہے ہی نہیں ، اگر کچھ ہے تو بس گھپ اندھیرا۔ مولانا محترم! آپ کہیں گے کہ میں نے یہ ایک محض فرضی مثال پیش کی ہے۔ میں انسانی زندگی میں عملی مثال پیش کرتا ہوں ۔ دو آدمی ہیں جو شعوری طور پر اور رسمی طورپر مسلمان ہیں ۔ شروع شروع میں دونوں دو حصاروں کے اندر بند ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک حصار زندگی میں مصیبتوں ، تکلیفوں اور ناکامیوں کا حصار ہے۔ ایک آدمی پہلے حصار سے باہر نکل آتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ اب ایک ہی حصار اس کے لیے باقی ہے جس سے نکل کر وہ آزاد ہوجائے گا۔ اس طرح اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اورجب وہ دوسرے حصار سے بھی باہر نکل آتا ہے تو آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ تجربہ اسے مطمئن کر دیتا ہے اور وہ ایسی ذات کا قائل ہو جاتا ہے جو مصیبت زدہ کی پکار کو سنتی ہے اور مدد کرتی ہے۔ مگر دوسرا شخص ایک حصار سے نکلتا ہے تو دوسرا حصار اور دوسرے سے نکلتا ہے تو تیسرا حصار اسے گھیر لیتا ہے، یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے پیہم حصار پر حصار اسے گھیرتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ مسلسل چکر اسے قطعی مایوس کر دیتا ہے اور وہ کسی ایسی ذات سے جو مصیبت میں کام آئے مکمل طور پر نا امید ہو جاتا ہے، کیونکہ بے چارہ بار بار چلاتا ہے کہ مَتٰی نَصْرُاللّٰہِ اور کبھی بے چارے کو اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ (البقرہ :۲۱۴) کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ شخص اس لیے ناامید ہوگیا ہے کہ بے چارے کی بیش تر خواہشات میں سے ایک بھی پوری نہیں ہوئی اور بیس تکلیفوں میں سے ایک بھی رفع نہیں ہوئی۔ اگر کوئی ایک خواہش بھی پوری ہو جاتی، یا ایک تکلیف بھی رفع ہو جاتی تو وہ اس بات سے کلی طورپر مایوس نہ ہوتا کہ اوپر کوئی بالاتر ہستی دُعائیں سننے اور حاجتیں پوری کرنے والی موجود ہے۔
جواب-آپ نے اپنے سوال کے آغاز میں جو بات لکھی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ حق کی تلاش ایک بنیادی خوبی ہے جو حق پانے کے لیے شرط اوّل کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تلاش حق مخلصانہ ہو، بلا تعصب ہو اور دانش مندی کے ساتھ ہو۔ یعنی آدمی اس تلاش کے دوران میں حق اور باطل کے درمیان تمیز کرتا رہے اور جو چیز باطل نظر آئے اسے چھوڑ کر حق کو قبول کرتا چلا جائے۔ اس صورت میں یہ امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ آدمی کو گھپ اندھیرے کے سوا کچھ نہ ملے۔
سوال کے دوسرے حصے میں آپ نے جو مثال پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ تلاش حق براے تلاش حق نہیں بلکہ اس غرض سے کر رہے ہیں کہ آپ مصیبتوں اور تکلیفوں اور ناکامیوں کے حصار سے نکل جائیں اور آپ کو مَتٰی نَصْرُاللّٰہِ ({ FR 2154 }) کے جواب میں اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ ({ FR 2155 }) (البقرہ: ۲۱۴ )کی آواز نہ صرف یہ کہ سنائی دینے لگے بلکہ وہ جواب دینے والی ہستی آپ کے مصائب اور تکالیف اور ناکامیوں کا مداوا بھی کر دے۔
میرے نزدیک تلاش حق کے لیے یہ نقطۂ آغاز ہی سرے سے غلط ہے جس کی وجہ سے آپ کو مایوسی لاحق ہوئی ہے۔ حق کی تلاش کا صحیح راستہ جو آپ کو اختیار کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ:
سب سے پہلے مطالعہ اور غور و فکر سے آپ یہ تحقیق کریں کہ آیا کائنات کا یہ نظام بے خدا ہے؟ یا بہت سے بااختیار خدائوں کی تخلیق سے بنا ہے اور وہ سب اس کا نظام چلا رہے ہیں ؟ یا اس کا ایک ہی خالق و مالک اور حاکم و منتظم ہے؟
اس کے بعد آپ اس کائنات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ تحقیق کریں کہ آیا یہ دارالعذاب ہے؟ یا عیش کدہ ہے؟ یا دارالامتحان ہے جس میں لذت اور الم، تکلیف اور راحت، کامیابی اور ناکامی، ہر چیز آزمائش کے لیے ہے؟
پھر آپ اس دنیا میں انسان کی حیثیت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آیا وہ یہاں بالکل آزاد اور مختار مطلق ہے اور کوئی بالاتر طاقت اس کی قسمت پر اثر انداز ہونے والی نہیں ہے اور کسی بالا تر ہستی کے سامنے وہ جواب دہ نہیں ہے؟ یا زمین اور آسمان میں بہت سے خدا اس کی قسمت کے مالک ہیں ؟ یا ایک ہی خدا اس کا اور ساری دنیا کا خالق و حاکم ہے اور وہ مختارِ مطلق ہے، ہماری لگائی ہوئی شرطوں کا پابند نہیں ہے اور وہ ہمارے آگے جواب دہ نہیں بلکہ ہم اس کے آگے جواب دہ ہیں اور وہ یہاں اچھے اور برے سب طرح کے حالات میں رکھ کر ہمارا امتحان لے رہا ہے جس کا نتیجہ اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلے گا؟
ان تینوں سوالات میں سے اگر آپ کی تحقیق ہر ایک کا جواب پہلی یا دوسری شکل میں دے تو آپ کو مایوسی کی حالت سے نکل کر امید کا راستہ پانے کی کوئی صورت بتانا میرے بس میں نہیں ہے۔ البتہ اگر آپ کی تحقیق ہر سوال کا جواب تیسری شکل میں دے تو یہی جواب آپ کو اطمینانِ قلب کی منزل تک پہنچا سکتا ہے، بشرطیکہ آپ مزید غور و فکر کرکے اس کے منطقی مضمرات (logical implications) کو اچھی طرح سمجھتے چلے جائیں ۔
جب خداے وحدہٗ لاشریک ساری کائنات کے انتظام کو چلارہا ہے تو کائنات کی آبادی کے بے شمار افراد میں سے کسی فرد کا یہ چاہنا ہی سرے سے غلط ہے کہ خدا کی ساری خدائی صرف اس کے مفاد میں کام کرے۔
اور جب یہ دنیا دارالامتحان ہے تو اس میں پیش آنے والی ہر خوشی اور رنج، ہر مصیبت اور راحت، ہر کامیابی اور ناکامی دراصل انسان کی آزمائش کے لیے ہے۔ یہ بات جس شخص کی بھی سمجھ میں آ جائے گی وہ نہ کسی اچھی حالت پر اتراے گا اور نہ کسی بری حالت پر دل شکستہ ہوگا، بلکہ ہر حالت میں اس کی کوشش یہ ہوگی کہ خدا کے امتحان میں کامیاب ہو۔ دنیا کے موجودہ نظام کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد آدمی یہاں ایسی غلط تمنائیں دل میں پالے گا ہی نہیں کہ اس زندگی میں اسے خالص عیش اور بے لاگ لذت اور بے آمیز راحت اور دائمی کامیابی نصیب ہو اور کبھی اسے مصیبت، تکلیف، رنج اور ناکامی سے سابقہ پیش ہی نہ آئے۔ کیونکہ یہ دنیا نہ عیش کدہ ہے اور نہ دارالعذاب کہ یہاں محض لذت یا محض الم، یا محض راحت یا محض تکلیف، یا محض کامیابی یا محض ناکامی کہیں پائی جاسکے۔
اسی طرح جب تیسرے سوال کا جواب آپ تحقیق سے یہ پالیں کہ خداے واحد خالق و حاکم ہے اور ہم مخلوق و محکوم، اور یہ کہ وہ مختارِ مطلق ہے اور ہم اس کے بندے ہوتے ہوئے اسے اپنی شرطوں کا پابند نہیں بناسکتے اور یہ کہ وہ ہمارے سامنے نہیں بلکہ ہم اس کے سامنے جواب دہ ہیں ، تو آپ کا ذہن کبھی خدا سے ایسی غلط توقعات وابستہ نہ کرے گا کہ ہم خود جس حالت میں رہنا چاہیں وہ ہمیں اسی حالت میں رکھے اور ہم جو درخواست بھی اس سے کریں وہ ضرور اسی شکل میں اسے پورا کرے جو ہم نے تجویز کی ہے اور ہم پر کوئی تکلیف یا مصیبت اگر آہی جائے تو ہمارے مطالبے پر وہ اسے فوراً دفع کر دے۔
مختصر بات یہ ہے کہ صحیح معرفت کا ثمرہ اطمینان ہے جو ہر اچھے یا برے حال میں یکساں قائم رہتا ہے اور معرفت کے فقدان کا نتیجہ بہرحال بے چینی، اضطراب اور مایوسی ہے خواہ عارضی طور پر انسان اپنی کامرانیوں سے غلط فہمی میں پڑ کر کتنا ہی مگن ہو جائے۔ آپ مایوسی سے نکلنا چاہتے ہوں تو پہلے حقیقت کا عرفان حاصل کرنے کی فکر کریں ، ورنہ کوئی چیز بھی آپ کو گھپ اندھیرے سے نہ نکال سکے گی۔ (ترجمان القرآن، اگست۱۹۷۵ء)