مگر سود کی شناعتوں کا مضمون ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کی اپنی ذاتی برائیوں کو اس تنظیم نے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا ہے جو زمانۂ حال میں مہاجنی و ساہو کاری کے پرانے طریقوں کی جگہ جدید بینکنگ کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس تنظیم نے قدیم صراف کی گدی پر دور جدید کے بینکر اور فینا نشیر(financier) کو لا بٹھایا ہے جس کے ہاتھ میں آ کر سود کا ہتھیار ہر زمانے سے زیادہ غارت گر بن گیا ہے۔
ابتدائی تاریخ
اس نئے نظام ساہو کاری کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ابتدائی تاریخ آپ کے سامنے ہو۔
مغربی ممالک میں اس کی ابتدا یُوں ہوئی کہ پہلے جب کاغذ کے نوٹ نہ چلتے تھے تو لوگ زیادہ تر اپنی دولت سونے کی شکل میں جمع کیا کرتے تھے اور اسے گھروں میں ر کھنے کے بجائے حفاظت کی غرض سے سناروں کے پاس رکھوا دیتے تھے۔ سنار ہر امانت دار کو اس کی امانت کے بقدر سونے کی رسید لکھ دیتا تھا جس میں تصریح ہوتی تھی کہ رسید بردار کا اتنا سونا فلاں سنا رکے پاس محفوظ ہے۔ رفتہ رفتہ یہ رسیدیں خریدوفروخت اور قرضوں کی ادائیگی اور حسابات کے تصفیے میں ایک آدمی سے دوسرے آدمی کی طرف منتقل ہونے لگیں۔ لوگوں کے لیے یہ بات زیادہ آسان تھی کہ سونے کی رسید ایک دوسرے کو دے دیں، بہ نسبت اس کے کہ ہر لین دین کے موقع پر سونا سنار کے ہاں سے نکلوایا جائے اور اس کے ذریعے سے کاروبار ہو۔ رسید حوالے کر دینے کے معنی گویا سونا حوالے کر دینے کے تھے۔ اس لیے تمام کا روباری اغراض کے لیے یہ رسیدیں اصل سونے کی قائم مقام بنتی چلی گئیں اور اس امر کی نوبت بہت ہی کم آنے لگی کہ کوئی شخص وہ سونا نکلوائے جو ایک رسید کے پیچھے سنار کے پاس محفوظ تھا۔ اس کا موقع بس انھی ضرورتوں کے وقت پیش آتا تھا جب کسی کو بجائے خود سونے ہی کی ضرورت ہوتی تھی ورنہ ذریعۂ مبادلہ کی حیثیت سے جتنے کام سونے سے چلتے تھے وہ سب ان ہلکی پھلکی رسیدوں کے ذریعے سے چل جایا کرتے تھے جن کا کسی کے پاس ہونا اس بات کی علامت تھا کہ وہ اس قدر سونے کا مالک ہے۔
اب تجربے سے سناروں کو معلوم ہوا کہ جو سونا ان کے پاس لوگوں کی امانتوں کا جمع ہے اس کا بمشکل دسواں حصہ نکلوایا جاتا ہے، باقی نو حصے ان کی تجوریوں میں بے کار پڑے رہتے ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ ۹ حصوں کو استعمال کیوں نہ کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے یہ سونا لوگوں کو قرض دے کر اس پر سود وصول کرنا شروع کر دیا اور اسے اس طرح استعمال کرنے لگے گویا کہ وہ ان کی اپنی مِلک ہے۔ حالانکہ دراصل وہ لوگوں کی ملک تھا۔ مزید لطیفہ یہ ہے کہ وہ اس سونے کے مالکوں سے اس کی حفاظت کا معاوضہ بھی وصول کرتے تھے اور چپکے چپکے اسی سونے کو قرض پر چلا کر اس کا سود بھی وصول کر لیتے تھے۔
پھر ان کی چالاکی اور دغا بازی اس حد پر بھی نہ رُکی۔ وہ اصل سونا قرض پر دینے کے بجائے اس کی قوت پر کاغذی رسیدیں چلانے لگے۔ اس لیے کہ ان کی دی ہوئی رسیدیں بازار میں وہ سارے کام کر رہی تھیں جو ذریعۂ مبادلہ ہونے کی حیثیت سے سونا کرتا تھا۔ اور چونکہ انھیں تجربے سے معلوم ہو چکا تھا کہ محفوظ سونے کا صرف دسواں حصہ ہی عموماً واپس مانگا جاتا ہے۔ اس لیے انھوں نے باقی ۹ حصوں کی قوت پر ۹ کی نہیں بلکہ ۹۰ حصوں کی جعلی رسیدیں بنا کر زرکاغذی کی حیثیت سے چلانی اور قرض دینی شروع کر دیں۔ اس معاملے کو مثال کے ذریعے سے یوں سمجھیے کہ اگر سنار کے پاس ایک شخص نے سو روپے کا سونا جمع کرایا تھا تو سنار نے سو سو روپے کی دس رسیدیں بنائیں جن میں سے ہر ایک پر لکھا کہ اس رسید کے پیچھے سو روپے کا سونا میرے پاس جمع ہے۔ ان دس رسیدوں میں سے ایک (جس کے پیچھے فی الواقع سو روپے کا سونا موجود تھا) اس نے سونا جمع کرانے والے کے حوالے کی اور باقی ۹ سو روپے کی نو رسیدیں (جن کے پیچھے درحقیقت کوئی سونا موجود نہ تھا) دوسرے لوگوں کو قرض دیں اور اس پر ان سے سود وصول کرنا شروع کر دیا۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک سخت قسم کا دھوکا اور فریب تھا۔ اس دغا بازی اور جعل سازی کے ذریعے سے ان لوگوں نے ۹۰ فیصدی جعلی روپیہ بالکل بے بنیاد کرنسی کی شکل میں بنا ڈالا اور خواہ مخواہ اس کے مالک بن بیٹھے اور سوسائٹی کے سر پر اس کو قرض کے طور پر لاد لاد کر اس پر دس بارہ فیصدی سود وصول کرنے لگے۔ حالانکہ انھوں نے اس مال کو کمایا تھا، نہ کسی جائز طریقے سے اس کے حقوق ملکیت انھیں پہنچتے تھے اور نہ وہ کوئی حقیقی روپیہ تھا جس کو ذریعۂ تبادلہ کے طور پر بازار میں چلانا اور اس کے عوض اشیا اور خدمات حاصل کرنا کسی اصولِ اخلاق و معیشت و قانون کی رُو سے جائز ہو سکتا تھا۔ ایک سادہ مزاج آدمی جب ان کے اس کرتوت کی رُوداد سنے گا تو اس کے ذہن میں قانونِ تعزیرات کی وہ دفعات گھومنے لگیں گی جو دھوکے اور جعل سازی کے جرائم سے متعلق ہیں اور وہ اس کے بعد یہ سننے کا متوقع ہوگا کہ پھر شاید ان سناروں پر مقدمہ چلایا گیا ہوگیا لیکن وہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔
یہ سنار اس مسلسل جعل سازی سے ملک کی ۹۰ فیصدی دولت کے مالک ہو چکے تھے۔ بادشاہ اور امرا اور وزرا سب ان کے قرض کے جال میں پھنس چکے تھے۔ خود حکومتیں لڑائیوں کے موقع پر اور اندرونی مشکلات کی عقدہ کشائی کے لیے ان سے بھاری قرض لے چکی تھیں۔ اب کس کی مجال تھی جو یہ سوال اٹھا سکتا کہ یہ لوگ کہاں سے اتنے بڑے سرمائے کے مالک ہوگئے۔ پھر جیسا کہ ہم اپنی کتاب ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ میں بیان کر چکے ہیں، پرانی جاگیر داری کے مقابلے میں جو نئی بورژوا تہذیب وسیع المشربی اور آزادی اور جمہوریت کے زبردست اسلحہ لے کر نشا ٔۃ ثانیہ کے دور میں اٹھ رہی تھی اس کے میر کارواں اور مقدمۃ الجیش یہی ساہو کار اور کاروباری لوگ تھے جن کی پشت پر فلسفہ اور ادب اور آرٹ کا ایک لشکر عظیم ہر اس شخص اور گروہ پر ہلہ بول دینے کے لیے تیار تھا جو مسٹر گولڈ سمتھ کے سرمایۂ عظیم کا مآخذ دریافت کرنے کی جرأت کرتا۔ اس طرح وہ دغا بازی وہ جعل سازی، جس سے یہ دولت بنائی گئی تھی، قانون کی گرفت سے صرف محفوظ ہی نہیں رہ گئی بلکہ قانون نے اس کو بالکل جائز تسلیم کر لیا اور حکومتوں نے ان سناروں کا جواَب بینکر اور فینا نشیر(financier) بن چکے تھے، یہ حق مان لیا کہ وہ نوٹ جاری کریں اور ان کے جاری کردہ نوٹ باقاعدہ زرِ کاغذی کی حیثیت سے کاروبار کی دنیا میں چلنے لگے۔
دوسرا مرحلہ
یہ تھی اس سرمائے کی اصلیت جس کے بل بوتے پر قدیم سنار دورِ جدید کے ساہوکار اور اقلیم ِ زر کے فرماں روا بنے۔ اس کے بعد انھوں نے ایک قدم اور بڑھایا جو پہلے قدم سے بھی زیادہ فتنہ انگیز تھا۔
جس دور میں یہ جدید ساہوکاری اس جعلی سرمائے سے طاقت پکڑ کر سر اٹھا رہی تھی یہ وہی دور تھا جب مغربی یورپ میں ایک طرف صنعت اور تجارت سیلاب کی سی شدت کے ساتھ اٹھ رہی تھی اور تمام دنیا کو مسخر کیا چاہتی تھی، دوسری طرف تمدن و تہذیب کی ایک نئی عمارت اٹھ رہی تھی جو یونیورسٹیوں سے لے کر میونسپلٹیوں تک زندگی کے ہر شعبے کی تعمیر جدید چاہتی تھی۔ اس موقع پر ہر قسم کے معاشی اور تمدنی کاموں کو سرمائے کی حاجت تھی۔ نئی نئی صنعتیں اور تجارتیں اپنے آغاز کے لیے سرمایہ مانگ رہی تھیں۔ پہلے کے چلتے ہوئے کاروبار اپنی ترقی اور پیش قدمی کے لیے بڑی اور روز افزوں مقدار میں سرمائے کے طالب تھے اور تہذیبی و تمدنی ترقی کی مختلف انفرادی و اجتماعی تجویزیں بھی اپنی ابتدا اور اپنے ارتقا کے لیے اس چیز کی محتاج تھیں۔ ان سب کاموں کے لیے خود کارکنوں کا اپنا ذاتی سرمایہ بہرحال ناکافی تھا۔ اب لامحالہ دو ہی ذرائع تھے جن سے یہ خونِ حیات اس تمدن جدید کے نوخیز شباب کی آبیاری کے لیے بہم پہنچ سکتا تھا۔
(۱) وہ سرمایہ جو سابق سناروں اور حال کے ساہو کاروں کے پاس تھا۔
(۲) وہ سرمایہ جو متوسط اور خوش حال طبقوں کے پاس ان کی پس انداز کی ہوئی آمدنیوں کی شکل میں جمع تھا۔
ان میں سے پہلی قسم کا سرمایہ تو تھا ہی ساہوکاروں کے قبضے میں، اور وہ پہلے سے سود خواری کے عادی تھے، اس لیے اس کا ایک حبہ بھی حصّے داری کے اصول پر کسی کام میں لگنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس ذریعے سے جتنا روپیہ بھی صناعوں اور تاجروں اور دوسرے معاشی و تمدنی کارکنوں کو ملا، قرض کے طور پر ملا اور اس شرط پر ملا کہ خواہ ان کو نفع ہو یا نقصان اور خواہ ان کا نفع کم ہو یا زیادہ، بہرحال ساہوکار کو انھیں ایک طے شدہ شرح کے مطابق منافع دینا ہوگا۔
اس کے بعد صرف دوسرا ذریعہ ہی ایسا رہ جاتا تھا جس سے معاشی کاروبار اور تعمیر و ترقی کے کاموں کی طرف سرمایہ اچھی اور صحت بخش صورتوں سے آ سکتا تھا مگر ان ساہوکاروں نے ایک ایسی چال چلی جس سے یہ ذریعہ بھی انھی کے قبضے میں چلا گیا اور انھوں نے اس کے لیے بھی تمدن و معیشت کے معاملات کی طرف جانے کے سارے دروازے، ایک سودی قرض کے دروازے کے سوا بند کر دیے۔ وہ چال یہ تھی کہ انھوں نے سود کا لالچ دے کر تمام ایسے لوگوں کا سرمایہ بھی اپنے پاس کھینچنا شروع کر دیا جو اپنی ضرورت سے زیادہ آمدنی بچا رکھتے تھے۔ یا اپنی ضرورتیں روک کر کچھ نہ کچھ پس انداز کرنے کے عادی تھے۔
یہ بات اوپر آپ کو معلوم ہو چکی ہے کہ یہ سنا ر ساہوکار پہلے سے اس قسم کے لوگوں کے ساتھ ربط ضبط رکھتے تھے، اور ان کی جمع پونجی انھی کے پاس امانت رہا کرتی تھی۔ اب جو انھوں نے دیکھا کہ یہ لوگ اپنے سرمائے کو کاروبار میں لگانے لگے ہیں اور ان کی پس انداز کی ہوئی رقمیں ہمارے پاس آنے کے بجائے کمپنیوں کے حصے خریدنے میں زیادہ صرف ہونے لگی ہیں، تو انھوں نے کہا کہ آپ لوگ اس زحمت میں کہاں پڑتے ہیں؟ اس طرح تو آپ کو خود شرکت کے معاملات طے کرنے ہوں گے، خود حساب کتاب رکھنا ہوگا، اور سب سے زیادہ یہ کہ اس طریقے سے آپ نقصان کے خطرے میں بھی پڑیں گے اور نفع کا اتار چڑھاؤ بھی آپ کی آمدنی پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔ اس کے بجائے آپ اپنی رقمیں ہمارے پاس جمع کرایئے۔ ہم ان کی حفاظت بھی بلامعاوضہ کریں گے، ان کا حساب کتاب بھی مفت رکھیں گے اور آپ سے کچھ لینے کے بجائے الٹا آپ کو سود دیں گے۔
یہ چال تھی جس سے ۹۰ فیصدی ، بلکہ اس سے بھی زیادہ پس انداز رقمیں براہِ راست معیشت و تمدن کے کاموں کی طرف جانے کے بجائے ساہوکار کے دست تصرف میں چلی گئیں اور قریب قریب پورے قابل حصول سرمائے پر اس کا قبضہ ہوگیا۔ اب صورتِ حال یہ ہوگئی کہ ساہوکار اپنے جعلی سرمائے کو تو سود پر چلا ہی رہا تھا، دوسروں کا سرمایہ بھی اس نے سستی شرح سود پر لے کر زیادہ شرح پر قرض دینا شروع کر دیا۔ اس نے یہ بات ناممکن بنا دی کہ اس کی مقرر کی ہوئی شرح کے سوا کسی دوسری شرط پر کسی کام کے لیے کہیں سے کوئی سرمایہ مل سکے۔ جو تھوڑے بہت لوگ ایسے رہ بھی گئے جو ساہوکار کی معرفت سرمایہ لگانے کے بجائے خود براہِ راست کاروبار میں لگانا پسند کرتے تھے ان کو بھی ایک لگا بندھا منافع وصول کرنے کی چاٹ لگ گئی اور وہ سیدھے سادھے حصے (shares) خریدنے کے بجائے وثیقوں (debentures) کو ترجیح دینے لگے جن میں ایک مقرر منافع کی ضمانت ہوتی ہے۔
اس طریق کار نے تقسیم مکمل کر دی۔ وہ ساری آبادی ایک طرف ہوگئی جو معیشت اور تمدن کی کھیتیوں میں کام کرتی ہے جس کی محنتوں اور کوششوں اور قابلیتوں ہی پر ساری تہذیبی و معاشی پیداوار کا انحصار ہے اور وہ تھوڑی سی آبادی دوسری طرف ہوگئی۔ جس پر ان ساری کھیتیوں کی سیرابی کا انحصار ہے۔ پانی والوں نے کھیتی والوں کے ساتھ رفاقت اور منصفانہ تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور یہ مستقل پالیسی طے کر لی کہ وہ پانی کے اس پورے ذخیرے کو اجتماعی مفاد کے لحاظ سے نہیں بلکہ صرف اپنے مفاد اور وہ بھی خالص مالی مفاد کے لحاظ سے استعمال کریں گے۔
اس طریق کار نے یہ بھی طے کر دیا کہ مغرب کا نوخیز تمدن، جو تمام دنیا پر حکمراں ہونے والا تھا، ایک خالص مادہ پرستانہ تمدن ہو اور اس میں شرح سود وہ بنیادی معیار قرار پایا جس کے لحاظ سے آخر کار ہر چیز کی قدروقیمت متعین ہو۔ اس لیے کہ پوری کشت تمدن کا انحصار تو ہے سرمائے کے آبِ حیات پر اور اس آبِ حیات کے ہر قطرے کی ایک مالی قیمت معین ہے شرح سود کے مطابق۔ لہٰذا پورے تمدن کی کھیتی میں اگر کسی چیز کی تخم ریزی کی جا سکتی ہے اور اگر کوئی پیداوار قدر کی مستحق ہو سکتی ہے، تو بس وہ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنا مالی فائدہ کم از کم اس حد تک دے جائے جو بورژو اتمدن کے قائداعظم، ساہوکار نے شرحِ سود کی شکل میں مقرر کر رکھی ہے۔
اس طریق کار نے قلم اور سیف، دونوں کی حکمرانی کا دور ختم کر دیا اور اس کی جگہ بہی کھاتے کی فرماں روائی قائم کر دی۔ غریب کسانوں اور مزدوروں سے لے کر بڑے سے بڑے صنعتی و تجارتی اداروں تک اور بڑی سے بڑی حکومتوں اور سلطنتوں تک سب کی ناک میں ایک غیرمرئی نکیل پڑ گئی اور اس کا سرا ساہوکار کے ہاتھ میں آ گیا۔
تیسرا مرحلہ
اس کے بعد اس گروہ نے تیسرا قدم اٹھایا اور اپنے کاروبار کو وہ شکل دی جسے اب جدید نظامِ ساہوکاری کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ لوگ انفرادی طور پر کام کرتے تھے۔ اگرچہ بعض ساہوکار گھرانوں کا مالیاتی کاروبار بڑھتے بڑھتے عظیم الشان اداروں کی صورت اختیار کر گیا تھا جن کی شاخیں دُور دراز مقامات پر قائم ہوگئی تھیں، لیکن بہرحال یہ الگ الگ گھرانے تھے اور اپنے ہی نام پر کام کرتے تھے۔ پھر ان کو یہ سوجھی کہ جس طرح کاروبار کے سارے شعبوں میں مشترک سرمائے کی کمپنیاں بن رہی ہیں، روپے کے کاروبار کی بھی کمپنیاں بنائی جائیں اور بڑے پیمانے پر ان کی تنظیم کی جائے۔ اس طرح یہ بینک وجود میں آئے جو آج تمام دنیا کے نظام مالیات پر قابض و متصرف ہیں۔
اس جدید تنظیم کا طریقہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ چند صاحب سرمایہ لوگ مل کر ایک ادارۂ ساہوکاری قائم کرتے ہیں جس کا نام بینک ہے۔ اس ادارے میں دو طرح کا سرمایہ استعمال ہوتا ہے۔ ایک حصّے داروں کا سرمایہ جس سے کام کی ابتدا کی جاتی ہے۔ دوسرا امانت داروں یا کھاتے داروں (depositors) کا سرمایہ جو بینک کا کام اور نام بڑھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملتا جاتا ہے اور اسی کی بدولت بینک کے اثر اور اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک بینک کی کامیابی کا اصل معیار یہ ہے کہ اس کے پاس اس کا اپنا ذاتی سرمایہ (یعنی حصّے داروں کا لگایا ہوا سرمایہ) کم سے کم ہو اور لوگوں کی رکھوائی ہوئی رقمیں زیادہ سے زیادہ ہوں۔ مثال کے طور پر پنجاب نیشنل بینک کو لیجیے جو قبل تقسیم کے بڑے کامیاب بینکوں میں سے تھا۔ اس کا اپنا سرمایہ صرف ایک کروڑ تھا جس میں سے ۸۰ لاکھ سے کچھ ہی زائد روپیہ حصّے داروں نے عملاً ادا کیا تھا لیکن ۱۹۴۵ء میں یہ بینک تقریباً ۵۲ کروڑ روپے کا وہ سرمایہ استعمال کر رہا تھا جو امانتیں رکھوانے والوں کا فراہم کردہ تھا۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بینک اپنا سارا کام تو چلاتا ہے امانت داروں کے روپے سے جن کا دیا ہوا سرمایہ بینک کے مجموعی سرمائے میں ۹۰۔۹۵ فیصدی بلکہ ۹۸ فیصدی تک ہوتا ہے لیکن بینک کے نظم و نسق اور اس کی پالیسی میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ چیز بالکل ان حصّے داروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو بینک کے مالک ہوتے ہیں اور جن کا سرمایہ مجموعی سرمائے کا صرف دو تین یا چار پانچ فیصدی ہوا کرتا ہے۔ امانت داروں کا کام صرف یہ ہے کہ اپنا روپیہ بینک کے حوالے کر دیں اور اس سے ایک خاص شرح کے مطابق سود لیتے رہیں۔ رہی یہ بات کہ بینک اس روپے کو استعمال کس طرح کرتا ہے۔ اس معاملے میں وہ کچھ نہیں بول سکتے۔ اس کا تعلق صرف حصّے داروں سے ہے وہی منتظمین کا انتخاب کرتے ہیں، وہی پالیسی کا تعین کرتے ہیں، وہی نظم و نسق اور حساب کتاب کی نگرانی کرتے ہیں اور انھی کے منشا پر اس امر کا فیصلہ منحصر ہوتا ہے کہ سرمایہ کدھر جائے اور کدھر نہ جائے۔ پھر حصّے داروں میں سب یکساں نہیں ہوتے۔ متفرق چھوٹے چھوٹے حصّے داروں کا اثر بینک کے نظام میں برائے نام ہوتا ہے۔ دراصل چند بڑے اور بھاری حصّے دار ہی سرمائے کی اس جھیل پر قابض ہوتے ہیں اور وہی اس پر تصرف کرتے رہتے ہیں۔
بینک اگرچہ بہت سے چھوٹے بڑے کام کرتا ہے جن میں سے بعض یقینا مفید، ضروری اور جائز بھی ہیں، لیکن اس کا اصل کام سرمائے کو سود پر چلانا ہوتا ہے۔ تجارتی بینک ہو یا صنعتی یا زراعتی، یا کسی اور نوعیت کا ، بہرحال وہ خود کوئی تجارت یا صنعت یا زراعت نہیں کرتا بلکہ کاروباری لوگوں کو سرمایہ دیتا ہے اور ان سے سود وصول کرتا ہے۔ اس کے منافع کا اصلی سب سے بڑا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ امانت داروں سے کم شرحِ سود پر سرمایہ حاصل کرے اور کاروباری لوگوں کو زیادہ شرح پر قرض دے۔{ FR 2238 } اس طریقے سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ حصّے داروں میں اسی طرح تقسیم ہو جاتی ہے جس طرح تمام تجارتی اداروں کی آمدنیاں ان کے حصّے داروں میں مناسب طریقے سے تقسیم ہوا کرتی ہیں۔
نتائج
اس طریقے پر ساہوکاری کی تنظیم کر لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے زمانے کے منفرد اور منتشر مہاجنوں کی بہ نسبت آج کے مجتمع اور منظم ساہوکاروں کا وقار اور اثر اور اعتماد کئی گنا زیادہ بڑھ گیا اور پورے پورے ملکوں کی دولت سمٹ کر ان کے پاس مرتکز ہوگئی۔ اب اربوں روپے کا سرمایہ ایک ایک بینک میں اکٹھا ہو جاتا ہے، جس پر چند بااثر ساہوکار قابض و متصرف ہوتے ہیں اور وہ اس ذریعے سے نہ صرف اپنے ملک کی، بلکہ دنیا بھر کی معاشی، تمدنی اور سیاسی زندگی پر کمال درجہ خود غرضی کے ساتھ فرماں روائی کرتے رہتے ہیں۔
ان کی طاقت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ تقسیم سے پہلے ہندوستان کے دس بڑے بینکوں کے پاس حصّے داروں کا فراہم کیا ہوا سرمایہ تو صرف ۱۷ کروڑ تھا مگر امانت داروں کے رکھوائے ہوئے سرمائے کی مقدار چھے ارب بارہ کروڑ روپے تک پہنچی ہوئی تھی۔ ان بینکوں کے پورے نظم و نسق اور ان کی پالیسی پر چند مٹھی بھرساہوکاروں کا قبضہ تھا جن کی تعداد حد سے حد ڈیڑھ دو سو ہوگی۔ مگر یہ سود کا لالچ تھا جس کی وجہ سے ملک کے لاکھوں آدمیوں نے اتنی بڑی رقم فراہم کرکے ان کے ہاتھ میں دے رکھی تھی اور اس بات سے ان کو کچھ غرض نہ تھی کہ اس طاقتور ہتھیار کو یہ لوگ کس طرح کن مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اب یہ اندازہ ہر شخص خود لگا سکتا ہے کہ جن مہاجنوں کے پاس اتنی بڑی رقم جمع ہو وہ ملک کی صنعت، تجارت، معیشت، سیاست اور تہذیب و تمدن پر کس قدر زبردست اثر ڈال رہے ہوں گے اور یہ اثر آیا ملک اور باشندگانِ ملک کے مفاد میں کام کر رہا ہوگا یا ان خود غرض لوگوں کے اپنے مفاد میں۔
یہ تو اس سرزمین کا حال ہے جس میں ابھی ساہوکاروں کی تنظیم با لکل ابتدائی حالت میں ہے اور جہاں بینکوں کی امانتوں کا مجموعہ کل آبادی پر بمشکل ۷ روپے فی کس ہی کے حساب سے پھیلتا ہے۔ اب ذرا قیاس کیجیے کہ جن ملکوں میں یہ اوسط اس سے ہزار دو ہزار گنے تک پہنچ گیا ہے وہاں سرمائے کی مرکزیت کا کیا عالم ہوگا۔ ۱۹۳۶ء کے اعدادوشمار کی رُو سے صرف تجارتی بینکوں کی امانتوں کا اوسط امریکہ کی آبادی میں ۱۳۱۷ پونڈ فی کس، انگلستان کی آبادی میں ۱۶۶۴ پونڈ فی کس، سوئٹزرلینڈ میں ۲۷۵ پونڈ، جرمنی میں ۲۱۲ پونڈ اور فرانس میں ۱۶۵ پونڈ فی کس کے حساب سے پڑتا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ان ملکوں کے باشندے اپنی پس انداز کی ہوئی آمدنیاں اور اپنی ساری جمع پونجی اپنے ساہو کاروں کے حوالے کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ گھر گھر سے کھچ کھچ کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہا ہے۔ اور پھر جن کے پاس وہ مرتکز ہوتا ہے وہ نہ کسی کو جوابدہ ہیں، نہ اپنے نفس کے سوا کسی سے ہدایت لینے والے ہیں اور نہ وہ اپنی اغراض کے سوا کسی دوسری چیز کا لحاظ کرنے والے۔ وہ بس سود کی شکل میں اس عظیم الشان مرکوز دولت کا ’’کرایہ‘‘ ادا کر دیتے ہیں اور عملاً اس کے مالک بن جاتے ہیں۔ پھر اس طاقت کے بل پر وہ ملکوں اور قوموں کی قسمتوں سے کھیلتے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں قحط برپا کرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں پنہیا کال ڈال دیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں جنگ کراتے ہیں، اور جب چاہتے ہیں صلح کرا دیتے ہیں۔ جس چیز کو اپنے زر پرستانہ نقطۂ نظر سے مفید سمجھتے ہیں، اُسے فروغ دیتے ہیں اور جس چیز کو ناقابل اِلتفات پاتے ہیں، اسے تمام ذرائع و وسائل سے محروم کر دیتے ہیں۔ صرف منڈیوں اور بازاروں ہی پر ان کا قبضہ نہیں ہے، علم و ادب کے گہواروں اور سائنٹفک تحقیقات کے مرکزوں اور صحافت کے اداروں، اور مذہب کی خانقاہوں اور حکومت کے ایوانوں، سب پر ان کی حکومت چل رہی ہے، کیونکہ قاضی الحاجات حضرتِ زراُن کے مرید ہو چکے ہیں۔ وہ یہ بلائے عظیم ہے جس کی تباہ کاریاں دیکھ دیکھ کر خود مغربی ممالک کے صاحب فکر لوگ چیخ اٹھے ہیں اور وہاں مختلف سمتوں سے یہ آواز بلند ہو رہی ہے کہ مالیات کی اتنی بڑی طاقت کا ایک چھوٹے سے غیر ذمہ دار خود غرض طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہو جانا پوری اجتماعی زندگی کے لیے سخت مہلک ہے۔ مگر ہمارے ہاں ابھی تک یہ تقریریں ہوئے جا رہی ہیں کہ سود خواری تو پرانے گدی نشین مہاجن کی حرام و نجس تھی۔ آج کا کرسی نشین و موٹر نشین بینکر بیچارہ تو بڑا ہی پاکیزہ کاروبار کر رہا ہے، اس کے کاروبار میں روپیہ دینا اور اس سے اپنا حصہ لے لینا آخر کیوں حرام ہے؟ حالانکہ فی الحقیقت اگر پرانے مہاجنوں اور آج کے بینکروں میں کوئی فرق واقع ہوا ہے تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ پہلے یہ لوگ اکیلے اکیلے ڈاکہ مارتے تھے، اب انھوں نے جتھ بندی کرکے ڈاکوؤں کے بڑے بڑے گروہ بنا لیے ہیں اور دوسرا فرق جو شاید پہلے فرق سے بھی زیادہ بڑا ہے یہ ہے کہ پہلے ان میں کاہر ڈاکو نقب زنی کے آلات اور مردم کشی کے ہتھیار سب کچھ اپنے ہی پاس سے لاتا تھا، مگر اب سارے ملک کی آبادی اپنی حماقت اور قانون کی غفلت و جہالت کی وجہ سے بے شمار آلات اور اسلحہ فراہم کرکے ’’کرائے‘‘ پر ان منظم ڈاکوؤں کے حوالے کر دیتی ہے۔ روشنی میں یہ اس کو کرایہ ادا کرتے ہیں اور اندھیرے میں اسی آبادی پر اسی کے فراہم کیے ہوئے آلات و اسلحے سے ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
اس ’’کرائے‘‘ کے متعلق ہم سے کہا جاتا ہے کہ اسے حلال و طیب ہونا چاہیے!
٭…٭…٭