سوال
ہمارے مقامی خطیب صاحب نے ایک وعظ میں یہ فرمایا ہے کہ اگر کسی ملک میں جبراً گائو کشی بند کردی جائے تو اس صورت میں ملک کے مسلمانوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس حکم امتناعی کی خلاف ورزی کریں ۔یہ فتویٰ مجھے کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔آخر شریعت نے جن چیزوں کو حلال ٹھیرایا ہے ،وہ بس حلال ہی تو ہیں ،واجب کیسے ہوگئیں ؟مثلاًاونٹ کا گوشت کھانا حلال ہے،لیکن اگر کوئی نہ کھائے تو گناہ گار نہیں ہے۔ اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ حلت کے معنی وجوب کے نہیں ہیں ۔پھر یہ مولوی صاحب فرضیت کا فتویٰ کہاں سے دیتے ہیں ؟آپ فرمایئے کہ مذکورہ بالا فتویٰ کی حیثیت کیا ہے؟
جواب
یہ بات تو بہت صحیح ہے کہ جب کسی مباح چیز کو کوئی حکومت یا کوئی طاقت زبردستی حرام قرار دے دے تو اس کی قائم کی ہوئی حرمت کو تسلیم کرنا گناہ ہے اور اس کو توڑنا واجب ہے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتاکہ جو حضرات چھوٹے چھوٹے مباحات کے معاملے میں شریعت کے اس حکم سے واقف ہیں ،ان کو یہ یادکیوں نہیں آتا کہ جس نظامِ حکومت میں وہ رہتے ہیں ،اس نے حلال وحرام قرار دینے کے پورے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اور نماز،روزہ اور نکاح وطلاق کے چندمسائل کو چھوڑ کر خدا کی پوری شریعت کو منسوخ کردیا ہے۔اگر گائوکشی کی ممانعت پر گائوکشی مباح کے بجاے فرض ہوجاتی ہے تو پوری شریعت کی تنسیخ پر کیا کچھ فرض عائد ہوجاتا ہوگا، یہ ان مولوی صاحب سے پوچھیے!
شریعت ِ اسلامی کا یہ فطری تقاضا ہے کہ وہ زندگی میں اپنا پوراغلبہ بلاشرکتِ غیر چاہتی ہے۔ اور اگر غیر اﷲ کا کوئی اقتدار انسانوں پر اپنا دامن پھیلانا چاہتا ہو تو اسلامی شریعت اپنے متبعین کو اس کا باغی دیکھنا چاہتی ہے نہ کہ مطیع ووفا شعار ۔جس نظام حق کو گائے کی قربانی جیسے معمولی مسئلے میں غیر اﷲ کی مداخلت گوارا نہیں ہے، وہ آخر اسے کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ سیاست اور معیشت اور معاشرت کے اہم مسائل میں خدا سے سرکشی کرنے والی کوئی قوت اپنی مرضی کو اﷲ کے بندوں پر نافذ کرے۔
شریعت اسلامی کی یہی اسپرٹ ہمیشہ نظامِ کفر وجاہلیت کے خلاف اربابِ حق کو صف آرا کرتی رہی ہے اور آں حضرتﷺ کی یہ پیشین گوئی پوری ہوتی رہی ہے کہ میری اُمت میں جہاد قیامت تک جاری رہے گا،نہ کسی عادل کا عدل اسے ختم کرسکے گا نہ کسی ظالم کا ظلم({ FR 2063 })۔ یہی اسپرٹ ہمیشہ تجدید اسلام کی تحریکوں کی محرک رہی ہے اور اسی نے صالحین کو ماحول کی خوف ناکیوں کے آگے جھک جانے سے روکا ہے۔
مگر جہاں یہ اسپرٹ مسلمانوں میں کمزور ہوگئی ہے وہاں انھوں نے اپنی اسلامیت میں کتر بیونت کرکے ہر قسم کے نظام ہاے طاغوت کو نہ صرف یہ کہ گوارا کرلیا ہے بلکہ حد یہ ہے کہ اسے چلانے اور مستحکم رکھنے اور اس کا تحفظ کرنے کی خدمات تک سرانجام دینے کے لیے تأویلیں کرلی ہیں ۔
یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ گائو کشی اگر طاغوت کی روک سے مباح کے بجاے واجب ہوجاتی ہے تو پھرامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نظام کا قائم کرنا جو پہلے ہی فرض اور بہت بڑا فرض ہے، باطل کی طرف سے کسی مزاحمت کے پیدا ہوجانے پر دین کے ہر فرض سے بڑا فرض ہوجاتا ہے اور اس سے چشم پوشی کرکے اگر مسلمان ہزار نفلی عبادتیں بھی کرے تو وہ بے معنی ہیں ۔
درحقیقت کسی غیر الٰہی طاقت کی مداخلت فی الدین چاہے کتنے ہی چھوٹے معاملے میں ہو، مسلمان کے عقیدۂ توحید پر براہ راست ضرب لگاتی ہے اور ہر ایسی مداخلت کے معنی یہ ہیں کہ مداخلت کرنے والے نے ایک خاص معاملے میں اپنی خدائی کا عملی اعلان کردیا ہے۔ظاہر ہے کہ اس اعلان پر مسلمان کا امن وسکون سے بیٹھے رہنا تک اس کے ایمان کو مشتبہ کردیتا ہے ،کجا یہ حال کہ اس اعلان کے اعلانچی خود مسلمان ہوں اور وہ دوسروں سے بالجبراسے منوانے کے لیے اپنی قوتیں باطل کے ہاتھ فروخت کردیں ۔
پس اصلی مسئلہ قربانی ِگائو کانہیں ہے،بلکہ عقیدۂ توحید کی حفاظت کا ہے۔اس کی حفاظت میں کوتاہی کرکے ہم کس اُخروی بہبود کی امیدیں قائم کرسکتے ہیں ! (ترجمان القرآن، اکتوبر۱۹۴۶ء)