Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
مسئلہ جبر و قدر کی حقیقت
اختیار و اضطرار کا ابتدائی اثر
مسئلہ جبر و قدر کا نقطۂ آغاز
مابعد الطبیعی نقطۂ نظر
فلسفے کی ناکامی
طبیعی نقطۂ نظر
سائنس کی ناکامی
اخلاقی نقطۂ نظر
اخلاقیات کی ناکامی
دینیاتی نقطۂ نظر
صحیح اسلامی مسلک
متکلمین اسلام کے مذاہب
مذہب قدر
قرآن مجید سے قدریہ کا استدلال
مذہب جبر
قرآنِ مجید سے جبریہ کا استدلال
متکلمین کی ناکامی
تحقیق مسئلہ
امور ماورائے طبیعت کے بیان سے قرآن کا اصل مقصد
مسئلہ قضا و قدر کے بیان کا منشا
عقیدۂ تقدیر کا فائدہ عملی زندگی میں!
تناقض کی تحقیق
حقیقت کی پردہ کشائی
مخلوقات میں انسان کی امتیازی حیثیت
ہدایت و ضلالت
عدل اور جزا و سزا
جبرو قدر

مسئلہ جبرو قدر

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

جبرو قدر

[ایک تقریر جو 23 اکتوبر 1942ء کو نشر گاہِ لاہور سے نشر کی گئی](باجازت آل انڈیا ریڈیو)

کیا ہماری تقدیر پہلے سے مقرر ہے؟ کیا ہماری کامیابی اور ناکامی، ہمارا گرنا اور ابھرنا، ہمارا بگڑنا اور سدھرنا، ہماری راحت اور تکلیف اور وہ سب کچھ جو ہمارے ساتھ اس دنیا میں پیش آتا ہے کسی اور طاقت یا طاقتوں کے فیصلے کا نتیجہ ہے جس کے متعین کرنے میں ہمارا کوئی حصہ نہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا ہم بالکل مجبور ہیں؟ کیا ہم اس دنیا میں محض کٹھ پتلیوں کی طرح ہیں جنھیں کوئی اور نچا رہا ہے؟ کیا ہم کسی بنی بنائی سکیم کو عمل میں لانے کے لیے بس ایک آلے کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں گویا کہ ہم دنیا کے اسٹیج پر ان ایکٹروں کی طرح ہیں جن میں سے ہر ایک کا کام پہلے سے کسی نے مقرر کر دیا ہو؟
یہ سوالات ہمیشہ ہر اس شخص کے دل میں کھٹکتے رہے ہیں جس نے کبھی دنیا اور انسان کے متعلق کچھ غور کیا ہے۔ فلسفی، سائنس دان، مؤرخ، مقنن، سماج اور اخلاق اور مذہب کے مسائل سے بحث کرنے والے اور عام لوگ سبھی کو اس گتھی سے اپنا دماغ لڑانا پڑا ہے، کیونکہ ہر ایک کی گاڑی یہاں آ کر اٹک جاتی ہے اور آگے نہیں چلتی جب تک کہ اس کا کوئی نہ کوئی قابل اطمینان حل نہ مل جائے۔ چاہے وہ بجائے خود صحیح حل ہو یا غلط۔
محض ایک سادہ سی ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں آپ ان سوالات کا جواب دینا چاہیں تو دے لیجیے، ممکن ہے کہ اس جواب سے آپ کا دل مطمئن ہو جائے، مگر خواہ آپ ’’ہاں‘‘ کہیں یا ’’نہیں‘‘ دونوں صورتوں میں بے شمار دوسرے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں جن کا جواب دینا آپ کے ہاں اور نہیں دونوں کے بس کا کام نہیں ہے۔
آپ ’’ہاں‘‘ کہتے ہیں تو پھر ساتھ ہی آپ کو یہ بھی مان لینا چاہیے کہ پتھر، لوہے، درخت، جانور اور انسان میں کوئی حقیقی فرق نہیں ہے۔ سب کی طرح انسان بھی وہی کچھ کر رہا ہے جو اس کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ اختیار نہ اُن کو حاصل ہے نہ اس کو۔ شہد کی مکھی کا چھتّہ بنانا اور انسان کا ریلوے لائن بنانا دونوں میں چاہے درجے کا فرق ہو مگر نوعیت کا کوئی فرق نہیں، کیونکہ اس سے چھتّہ اور ریلوے لائن کوئی اور ہی بنوا رہا ہے۔ ایجاد کے شرف سے دونوں محروم ہیں۔ اس کے بعد آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دنیا کی دوسری چیزوں کی طرح انسان بھی اپنے افعال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ ایک آدمی کا نیک کام کرنا اور ایک موٹر کا درست چلنا، دونوں یکساں ہیں۔ کسی آدمی کا جرم یا شرارت کرنا اور کسی سینے والی مشین کا خراب بخیہ کرنا دونوں کی ایک حیثیت ہے اور جب معاملہ یہ ہے تو جس طرح آپ ’’نیک موٹر‘‘ ، ’’شریر مشین‘‘، ’’ایماندار انجن‘‘، ’’بدمعاش چرخہ‘‘ نہیں بولتے اسی طرح آپ کو آدمی کے لیے بھی نیک اور بد، شریر اور شریف، ایماندار اور بے ایمان اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ نہیں بولنے چاہییں۔ یا اگر آپ بولتے ہی ہیں (کیونکہ جو کچھ آپ سے بلوایا جا رہا ہے وہ بولنے پر آپ مجبور ہیں) تو کم از کم اتنا تو سمجھ ہی لینا چاہیے کہ یہ الفاظ ہیں بے معنی۔
پھر بات اسی پر ختم نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا مذہب اور اخلاق، یہ ہمارا قانون اور عدالتوں کا نظام، یہ ہماری پولیس اور جیل اور تفتیش جرائم کے محکمے، یہ ہمارے مدرسے اور تربیت گاہیں اور اصلاحی ادارے سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ کام یہ سب ہوتے رہی گے، بنداِن میں سے کوئی بھی نہیں ہو گا کیونکہ آپ کے نظریے کے مطابق ان سب ایکٹروں کو دنیا کے سٹیج پر اپنا اپنا مقررہ پارٹ ادا کرنا ہی ہے، مگر ظاہر ہے کہ جب مسجدوں کے نمازی اور مندروں کے پجاری، عدالتوں کے جج اور چوری اور ڈکیتی کے مجرم سب کے سب محض ایکٹر بن کر رہ جائیں اور عبادت گاہوں سے لے کر جوئے خانوں اور قید خانوں تک سب کے سب ایک بڑے ناٹک کے مختلف منظر قرار پائیں تو اس کے معنی یہی ہیں کہ انسان کی پوری مذہبی اور اخلاقی زندگی محض ایک کھیل اور تماشا ہے۔ وہ شخص جو رات کی تنہائی میں خلوص سے پوجا اور عبادت کر رہا ہے اور وہ جو کسی کے گھر میں نقب لگا رہا ہے۔ دونوں اس تماشے میں بس وہ پارٹ ادا کر رہے ہیں جو ان کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ ان کے درمیان کوئی فرق اس کے سوا نہیں کہ ڈائریکٹر نے ایک کو عابد و زاہد کا پارٹ دیا ہے اور دوسرے کو چور کا۔ ہماری عدالت میں جج صاحب خواہ کتنی ہی سنجیدگی کے ساتھ مقدمے کی سماعت فرما رہے ہوں اور اپنی دانست میں مقدمے کو سمجھ کر انصاف کرنے کی کیسی ہی کوشش کر رہے ہوں، مگر آپ کے اس نظریے کی رُو سے وہ اور مستغیث اور ملزم سب نرے ایکٹر اور بچارے اس دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں کہ کر رہے ہیں ڈرامہ اور سمجھ رہے ہیں کہ عدالت کے کمرے میں واقعی عدالت ہو رہی ہے۔ یہ انجام ہے اس ’ہاں‘ کا جوآپ نے سرسری طور پر میرے ابتدائی سوالات کے جوابات میں کر دی تھی۔
اچھا تو کیا پھر آپ ان سوالات کا جواب ’نہیں‘ کی صورت میں دیں گے؟ مگر مشکل یہ ہے کہ اس صورت میں بھی معاملہ ایک ’’نہیں‘‘ پر ختم نہ ہو جائے گا بلکہ اس کے ساتھ آپ کو بہت سی صریح حقیقتوں کا انکار کرنا ہو گا۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ انسان کی تقدیر پہلے سے مقرر نہیں ہے اور یہ کہ اس کی تقدیر کسی بیرونی قوت کے فیصلے سے نہیں بنتی تو غالباً آپ کے اس انکار کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ آدمی اپنی تقدیر آپ مقرر کرتا ہے یعنی اس کی تقدیر اس کے اپنے ارادے اور کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس پر پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے اس بیان میں لفظ ’’انسان‘‘ سے کیا مراد ہے؟ فرداً فرداً ایک آدمی؟ یا انسانوں کاایک بڑا گروہ جسے سماج یا سوسائٹی یا قوم کہا جاتا ہے؟ یا پوری نوعِ انسانی؟ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی تقدیر آپ بناتا ہے تو ذرا اِن چیزوں پر ایک نگاہ ڈال لیجیے جن سے تقدیر بنتی ہے پھر فرمایئے کہ آدمی ان میں سے کس کس پر قابو رکھتا ہے۔ تقدیر بنانے کا پہلا سامان آدمی کے اعضا اور اس کی ذہنی اور جسمانی قوتیں اور اس کے اخلاقی اوصاف ہیں۔ جن کی درستی اور خرابی، توازن اور عدمِ توازن، کمی اور بیشی کا فیصلہ کُن اثر اس کی تقدیر پر پڑتا ہے مگر یہ ساری چیزیں ہر انسان ماں کے پیٹ سے لے کر آتا ہے اور آج تک کوئی ایک آدمی ایسا پیدا نہیں ہوا ہے جو خود اپنی تجویز اور اپنے انتخاب کے مطابق اپنے آپ کو بنا کر لایا ہو۔ پھر آدمی کی تقدیر کے بننے اور بگڑنے میں ان بہت سے اثرات کا دخل ہوتا ہے جو ہر انسان کو وراثت میں اپنے آباء و اجداد سے ملتے ہیں پھر جس خاندان، جس سوسائٹی،، جس طبقے، جس قوم اور جس ملک میں وہ پیدا ہوتا ہے، اس کی ذہنی، اخلاقی، تمدنی، معاشی اور سیاسی حالت کے بے شمار اثرات دنیا میں قدم رکھتے ہی اس پر چھا جاتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں آدمی کی تقدیر بنانے میں حصہ لیتی ہیں مگر کیا کوئی ایسا شخص ہے جس نے اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے اس نسل اور اس ماحول کا تعین کیا ہے جس میں اُسے پیدا ہونا ہے اور خود یہ فیصلہ کیا ہو کہ وہ ان میں سے کس کس کے کیا اثرات قبول کرے؟ اسی طرح آدمی کی تقدیر پر دنیا کے بہت سے واقعات اور اتفاقات کے بھی اچھے اور برے اثرات پڑتے ہیں۔ زلزلے، سیلاب، قحط، موسم، بیماریاں، لڑائیاں، معاشی اتار چڑھائو اور اتفاقی حادثے اکثر انسان کی پوری زندگی کا رُخ بدل دیتے ہیں اور اس کے ان سارے نقشوں کو درہم برہم کر ڈالتے ہیں جو اس نے بڑے سوچ بچار اور بڑی کوششوں سے اپنی راحت اور اپنی کامیابی کے لیے بنائے ہوتے ہیں اور اس کے برعکس بار ہا یہی اتفاقات اچانک ایک انسان کو ایسی کامیابیوں تک پہنچا دیتے ہیں جن کے حصول میں فی الواقع اس کی اپنی کوشش کا بہت کم دخل ہوتا ہے۔ یہ ایسی نمایاں حقیقتیں ہیں جن سے انکار کرنے کے لیے ہٹ دھرمی کی ضرورت ہے۔ آخر یہ کیسے مان لیا جائے کہ آدمی اپنی تقدیر آپ بناتا ہے؟
اب اگر آپ اپنے دعوے میں ترمیم کر کے یہ کہتے ہیں کہ افراد نہیں بلکہ قومیں اپنی تقدیر بناتی ہیں تو یہ بھی ماننے کے قابل بات نہیں۔ ہر قوم کی تقدیر جن اسباب سے بنتی ہے ان میں نسلی خصوصیات، تاریخی اثرات، جغرافیائی حالات، قدرتی مسائل اور بین الاقوامی صورتِ حال کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے اور یہ بات دنیا کی کسی قوم کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اِن اسباب کی گرفت سے آزاد ہو کر اپنی تقدیر جیسی چاہے خود بنا لے۔ پھر وہ قانونِ قدرت جس کے تحت زمین و آسمان کا انتظام ہو رہا ہے اور جس میں دخل دینا تو دَرکنار اسے پوری طرح جان لینا بھی کسی قوم کے بس کا کام نہیں ہے، اس طرح قوموں کی تقدیر پر اثر ڈالتا ہے کہ اس کو روکنے یا اس سے بچنے کی طاقت کسی قوم کو حاصل نہیں۔ یہ قانون پس پردہ اپنا کام کرتا رہتا ہے اور کبھی اچانک اور کبھی بتدریج اس کے عمل سے ایسے نتائج رونما ہوتے ہیں جو ابھرتی ہوئی قوموں کو گراتے اور گرتی ہوئی قوموں کو ابھار دیتے ہیں۔ خیر یہ تو وہ اسباب ہیں جو صریح طور پر انسانی دانست سے باہر ہیں مگر جو اسباب بظاہر انسان کی دسترس میں ہیں۔ ان کا تفصیلی جائزہ بھی کچھ امید افزا نہیں ہے۔ ایک قوم کی تقدیر بننے کا بہت کچھ انحصار اس پر ہے کہ اسے مناسب رہنمائی (لیڈر شپ) میسر آئے اور اس کے افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد میں وہ صفات اور وہ خصوصیات موجود ہوں جو اس رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہیں مگر تاریخ سے ہم کو ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی اور نہ اپنے زمانے کے مشاہدات میں ہم ایسی کوئی نظیر پاتے ہیں کہ کسی قوم نے ان دونوں چیزوں کے حاصل کرنے میں آزادی کے ساتھ خود اپنے ارادے اور انتخاب سے کام لیا ہو۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ جب ایک قوم کے ابھرنے کا وقت آتا ہے تو اس کو اچھی رہنمائی بھی میسر آتی ہے اور اس میں وہ خصوصیات بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو اس رہنمائی کی کامیابی کے لیے مطلوب ہیں اور وہی قوم جب گرنے لگتی ہے تو رہنمائی اور پیروی دونوں کی قابلیتیں اس سے اس طرح رخصت ہو جاتی ہیں کہ اس کا کوئی دردمند بہی خواہ انھیں واپس نہیں لا سکتا۔ ہمیں کچھ خبر نہیں کہ وہ کون سا قانون ہے جس کے تحت تاریخ اقوام کے یہ نشیب و فراز واقع ہوئے ہیں۔
پھر کیا قوموں کو چھوڑ کر آپ پوری نوع انسانی کے متعلق یہ حکم لگائیں گے کہ وہ اپنی تقدیر آپ بناتی ہے؟ مگر یہ کہنا اور زیادہ مشکل ہے۔ نسلوں اور قوموں میں بٹی ہوئی، ملکوں میں پھیلی ہوئی، بے شمار مختلف تمدنوں اور تہذیبوں میں رنگی ہوئی اور لاتعداد زبانیں بولنے والی نوع کے متعلق اگر کوئی شخص یہ فرض کرتا ہے کہ اس کا ایک مجموعی ارادہ ہے جس کے مطابق وہ سوچ سمجھ کر اپنی تقدیر متعین کرتی ہے تو حقیقت میں وہ ایک بڑی عجیب بات کرتا ہے۔ کیا واقعی اس نوع نے اپنی رفتار ترقی کے لیے یہ ٹائم ٹیبل خود تجویز کیا تھا کہ فلاں دور تک یہ پتھر کے اوزاروں سے کام لے گی پھر لوہے اور آگ کو استعمال کرنا شروع کر دے گی فلاں عہد تک انسانی اور حیوانی طاقت سے کام کرتی رہے گی۔ پھر مشین کی طاقت استعمال کرنے لگے گی؟ فلاں صدی تک کمپاس کے بغیر کشتیاں چلائے گی پھر اپنی سمت سفر متعین کرنے میں کمپاس سے کام لے گی؟ پھر کیا وہ نوعِ انسانی ہی ہے جس نے افریقہ، امریکہ، یورپ، ایشیا اور آسٹریلیا کی مختلف قوموں یعنی خود اپنے مختلف حصوں کے لیے مختلف تقدیریں متعین کی ہیں ظاہر ہے کہ ایسے عجیب و غریب دعوے کرنے کا خیال بھی کوئی ہوشمند آدمی نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد آپ کے لیے اپنی اس رائے پر قائم رہنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ انسان اپنی تقدیر آپ بناتا ہے کیونکہ جب نہ ہر ہر فرد اپنی تقدیر کا مالک ہے نہ افراد کا کوئی مجموعہ، نہ پوری نوع، تو یہ تقدیر کی ملکیت آخر کس ’’انسان‘‘ کے حصے میں آئے گی؟
آپ نے دیکھا، وہ سوالات جو میں نے ابتدا میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے ان کا جواب نہ محض ’’ہاں‘‘ کی صورت میں دیا جا سکتا ہے اور نہ محض ’’نہیں‘‘ کی صورت میں۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے جو زبردست ارادہ کائنات کے اس نظام کو چلا رہا ہے۔ اس سے آزاد ہو کر کوئی چیز دنیا میں کام نہیں کر سکتی بلکہ کام کرنا تو کیا جی بھی نہیں سکتی۔ ایک ہمہ گیر سکیم ہے جو پوری قوت کے ساتھ زمین و آسمان میں چل رہی ہے کسی میں اتنا بل بوتا نہیں ہے کہ اس سکیم کے خلاف چل سکے یا اس کو بدل سکے یا اس پر کوئی اثر ڈال سکے۔ ہمارے جتنے علوم، جتنے تجربات، جتنے مشاہدات ہیں، سب کے سب اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ کائنات کی اس سلطنت میں کسی کی خود مختاری کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آسمان کے بڑے بڑے کروّں کو جس نظام کی بندش اپنے مقرر کردہ راستے سے بال برابر جنبش نہیں کرنے دیتی، زمین کو جس طاقت نے ایک ضابطے کے مطابق گردش کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ہوا اور پانی اور روشنی اور گرمی و سردی پر جس حکومت کا مکمل اقتدار ہے انسان کی پیدائش سے پہلے جس قوت نے وہ اسباب فراہم کیے ہیں جن سے اس زمین پر انسان کا موجود ہونا ممکن ہو اور جس قوت کے اختیارات کا یہ حال ہے کہ اسبابِ زندگی کے توازن میں تھوڑا سا ردّ و بدل بھی کر دے تو ہماری نوع آن کی آن میں فنا کے گھاٹ اتر سکتی ہے۔ اس کے ماتحت رہتے ہوئے انسان کے لیے ایسی آزادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اپنی تقدیر جیسی چاہے خود بنا لے۔ مگر یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ وہ طاقت جو ہمیں اس دنیا میں لائی ہے، جس نے ہم کو علم، غور و فکر، ارادے اور فیصلے کی قوتیں دی ہیں، جس نے ہم میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ ہم کچھ اختیار رکھتے ہیں، جس نے ہم میں یہ صلاحیت پیدا کی ہے کہ ہم نیک و بد میں امتیاز کرتے ہیں۔ اخلاقی اور غیر اخلاقی افعال میں فرق کرتے ہیں اور دنیا کے معاملات میں ایک طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں اور دوسراطرزِ عمل ترک کرتے ہیں، اس نے یہ سب کچھ ہمارے ساتھ محض مذاق کے طور پر کیا ہے۔ ہمیں اس کائنات کی تدبیر و انتظام میں انتہا درجے کی سنجیدگی نظر آتی ہے۔ مذاق اور کھیل اور تمسخر کہیں نظر نہیں آتا۔ لہٰذا حقیقت وہی ہے جو وجدانی طور پر ہم میں سے ہر شخص محسوس کرتا ہے۔ یعنی فی الواقع ہم کو یہاں ایک محدود پیمانے پر کچھ اختیارات دیے گئے ہیں اور ان اختیارات کے استعمال میں ہم مناسب حد تک آزاد بھی رکھے گئے ہیں۔ یہ آزادی حاصل کی ہوئی نہیں ہے بلکہ دی ہوئی ہے۔ اس کی مقدار کتنی ہے، اس کے حدود کیا ہیں اور اس کی نوعیت کیا ہے۔ اس کا تعین مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ مگر اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ آزادی ہے ضرور۔ کائنات کی عالمگیر سکیم میں ہمارے لیے یہی جگہ تجویز کی گئی ہے کہ ہم ایک محدود پیمانے پر آزادانہ کام کرنے والے ایکٹر کا پارٹ ادا کریں۔ ہمارے لیے یہاں اتنی ہی آزادی ہے جتنی آزادی کی اس سکیم میں گنجائش ہے اور ہم اخلاقی حیثیت سے درحقیقت اسی قدر ذمہ دار ہیں جس قدر ہم کو آزادی بخشی گئی ہے یہ دونوں امور کہ ہم کس قدر آزاد ہیں اور ہم پر اپنے افعال کی ذمہ داری کتنی ہے۔ ہمارے دائرۂ علم سے باہر ہیں ان کو وہی طاقت جان سکتی ہے جس نے اپنی سکیم میں ہمارے لیے یہ مقام تجویز کیا ہے۔
یہ نظریہ ہے جو اس مسئلے میں مذہب نے اختیار کیا ہے۔ مذہب ایک طرف قادرِ مطلق خدا پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم اور ہمارے گردوپیش کی ساری دنیا خدا کی محکوم ہے اور اس کا اقتدار سب پرچھایا ہوا ہے۔ دوسری طرف وہ ہم کو اخلاق کے تصورات دیتا ہے،نیکی اور بدی میں فرق کرتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم ایک راستہ اختیار کریں گے تو ہمیں نجات حاصل ہو گی اور دوسرے راستے پر چلتے رہیں گے تو ہم کو سزا دی جائے گی۔ یہ بات صرف اسی صورت میں معقول ہو سکتی ہے کہ ہم واقعی اپنے اختیار سے اپنی زندگی کا راستہ منتخب کرنے میں آزاد ہوں۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں