تیسری بات فاضل جج یہ فرماتے ہیں کہ ’’اگر ایک مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کروں گا کیوں کہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا، تو ۸ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت بھی ساری قوم کے لیے یہ قانون بنا سکتی ہے کہ قوم کی معاشی، تمدنی اور سیاسی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کا کوئی فرد ایک سے زیادہ بیویاں کرے۔‘‘ اس عجیب طرز استدلال کے متعلق ہم عرض کریں گے کہ ایک مسلمان جب یہ کہتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں نہ کرے گا تو وہ اس آزادی کو استعمال کرتا ہے جو اس کی خانگی زندگی کے بارے میں خدا نے اسے دی ہے۔ وہ اس آزادی کو شادی نہ کرنے کے بارے میں بھی استعمال کر سکتا ہے۔ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے میں بھی استعمال کر سکتا ہے، بیوی مر جائے تو دوسری شادی کرنے یا نہ کرنے میں بھی استعمال کر سکتا ہے، اور کسی وقت اس کی رائے بدل جائے تو ایک سے زائد بیویاں کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے لیکن جب قوم تمام افراد کے بارے میں کوئی مستقل قانون بنا دے گی تو فرد سے اس کی وہ آزادی سلب کر لے گی جو خدا نے اسے دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسی قیاس پر کیا قوم کسی وقت یہ فیصلہ کرنے کی بھی مجاز ہے کہ اس کے آدھے افراد شادی کریں اور آدھے نہ کریں؟ یا جس کی بیوی یا شوہر مر جائے وہ نکاح ثانی نہ کرے؟ ہر آزادی جو افراد کو دی گئی ہے اسے بنائے استدلال بنا کر قوم کو یہ آزادی دینا کہ وہ افراد سے ان کی آزادی سلب کرے، ایک منطقی مغالطہ تو ہو سکتا ہے، مگر ہمیں یہ نہیں معلوم کہ قانون میں یہ طرز استدلال کب سے مقبول ہوا ہے۔
تاہم تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ مانے لیتے ہیں کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت، مثلاً: ان میں ۴ کروڑ ایک ہزار مل کر ایسا کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آٹھ کروڑ مسلمانوں میں سے صرف چند ہزار مل کر اپنی ذاتی رائے سے اس طرح کا کوئی قانون تجویز کریں اور اکثریت کی رائے کے خلاف اسے مسلط کر دیں تو فاضل جج کے بیان کردہ اصول کی رو سے اس کا کیا جواز ہو گا؟ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی آبادی میں سے ایک لاکھ، بلکہ پچاس ہزار کا بھی نقطہ نظر یہ نہیں ہے کہ قوم کی معاشی، تمدنی اور سیاسی حالت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ایک سے زائد بیویاں رکھنا تو قانوناً ممنوع ہو، البتہ اس کا ’’گرل فرینڈس‘‘ سے آزادانہ تعلق، یا طوائفوں سے ربط وضبط، یا مستقل داشتہ رکھنا ازروئے قانون جائز رہے۔ خود وہ عورتیں بھی، جن کے لیے سوکن کا تصور ہی تکلیف دہ ہے، کم ہی ایسی ہوں گی جن کے نزدیک ایک عورت سے ان کے شوہر کا نکاح ہو جائے تو ان کی زندگی ستی سے بدتر ہو جائے گی، لیکن اسی عورت سے ان کے شوہر کا ناجائز تعلق رہے تو ان کی زندگی جنت کا نمونہ بنی رہے گی۔