تحقیقاتی عدالت نے اپنی تفتیش کے دوران میںتحقیقاتی کارروائی میںشامل ہونے والے جملہ فریقوںکونوٹس دیاتھاکہ وہ بحث میںعلاوہ دیگرامورکے مندرجہ ذیل دس نکات کے بارے میںاپنانقطہ نظرواضح کریںاوراپنی تائیدمیںاسناداورحوالہ جات بھی پیش کریں۔
۱۔ ظہورمسیح ومہدی۔
۲۔ کیاظاہرہونے والے مسیح اورعیسیٰ ابن مریم ؑ ایک ہی شخصیت ہیں؟
۳۔ کیامسیح اورمہدی کوایک نبی کامنصب حاصل ہوگااورانہیں وحی یاالہام ہوگا؟
۴۔ کیاوہ دونوںیاان میںسے کوئی ایک قرآن وسنت کے کسی حکم کومنسوخ کریں گے؟
۵۔ نبی ﷺ پروحی کس شکل میںنازل ہوتی تھی؟کیاحضرت جبریل ؑ آپﷺ کے سامنے مرئی صورت میںظاہرہوتے تھے؟
۶۔ کیاخاتم النبین کی وہ تعبیرجوآل مسلم پارٹیزکنونشن نے پیش کی ہے وہ مسلم عقیدے کالازمی جزورہی ہے؟
۷۔ قرآن وسنت کی وہ نصوص جوایسے دینی وسیاسی نظام کی تائیدکرتی ہیں جس میں غیر مسلموں کو ایک اجنبی کی حیثیت سے علیحدہ رکھا جاتاہے۔ اس علیحدگی کے حدود مع تاریخی حوالہ جات ۔ ایسے نظام میں غیر مسلموں کے اعلانیہ تبلیغ مذہب کے حقوق … گناہ کی مشترک اور نیابتی ذمہ داری ۔
۸۔ ڈائریکٹ ایکشن کاجواز ۔
۹۔ احمدیوں کی مطبوعات جو عامۃ المسلمین کے دینی جذبات کو مشتعل کرنے والی ہیں۔
۱۰۔ دوسرے مسلمانوں کی مطبوعات جو احمدیوں کے عقائد کے لحاظ سے اشتعال انگیز ہیں۔
ان نکات کاجواب مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے ایک مفصل تحریری بیان کی شکل میں دیاہے جسے پمفلٹ کی صورت میں شائع کیاجاچکاہے۔ یہ بیان ۱۳فروری ۱۹۵۴ء کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
اس محترم عدالت نے جو دس امور تنقیح طلب خاص طور پر بحث کے لیے تجویز کیے ہیں ، ان میں سے پہلے آٹھ امور پر اس بیان میں بحث کی گئی ہے۔ باقی ماندہ دو نکات میں سے نمبر۱۰ کا جواب ہم سے متعلق نہیں ہے اور نمبر۹ کے متعلق ضروری مواد جماعت اسلامی الگ پیش کرے گی۔
اس بیان میں پہلے سات نکات پر صرف سنی مسلمانوں کا نقطہ نظر پیش کیاگیاہے ، جس میں حنفی، شافعی ،مالکی، حنبلی اور اہل حدیث سب شامل ہیں۔ نیز حنفیوں کے دونوں بڑے مسلک (دیو بندی اور بریلوی ) بھی ان نکات میں پوری طرح متفق ہیں ۔ شیعہ حضرات کا مسلک اگرچہ ہمیں معلوم ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ مسئلہ مہدی کے سو اباقی تمام مسائل میں وہ ہم سے متفق ہیں ، نیز ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مہدی منتظر امام معصوم ہونے کے باوجود ان کے ہاں بھی نبی کا مرتبہ نہیں رکھتے ، لیکن ہم نے ان کے مسلک پر اس لیے کلام نہیں کیا ہے کہ ہم بہرحال ان کے مسلک کو قابل اعتماد طریقہ سے بیان کرنے کی حیثیت میں نہیں ہیں۔
بیان کے دوران میں جن اہم مسائل پر تفصیل کے ساتھ اسناد پیش کرنے کی ضرورت تھی، ان کو ہم نے بیان میں درج کرنے کے بجائے الگ الگ ضمیموں میں جمع کردیا ہے جو اس بیان کے ساتھ منسلک ہیں۔
چونکہ پہلے ۶ نکات ہی وہ اصل نکات ہیں جو مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان متنازع فیہ ہیں ، اس لیے ان کے بارے میں اور ان سے پیداہونے والے اعتقادی اور عملی نتائج کے بارے میں قادیانی مسلک کو ہم نے خود ان کے معتبر حوالوں سے ایک مستقل ضمیمے میں مرتب طریقہ سے بیان کردیاہے، تاکہ محترم عدالت پر واضح ہوجائے کہ ان مسائل پر قادیانی تحریک کے مختلف مراحل میںمرزا غلام احمد صاحب اور ان کے پیروئوں کا نقطہ نظر کیارہاہے اور فریقین کے درمیان نزاع کے بنیادی اسباب کیاہیں؟ اس ضمیمے کا نمبر ۷ ہے اور یہ بھی اس بیان کے ساتھ منسلک ہے۔
ان تمہیدی تصریحات کے بعد اب ہم زیر بحث نکات کو علی الترتیب لے کر ان کے متعلق اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔