پھر یہ بھی عرض کر دوں کہ اس شہادت کی تکمیل اگر ہو سکتی ہے تو صرف اُس وقت جب کہ ایک اسٹیٹ انھی اصولوں پر قائم ہو جائے اور وہ پورے دین کو عمل میں لا کر اپنے عدل و انصاف سے ، اپنے اصلاحی پروگرام سے ، اپنے حسنِ انتظام سے ، اپنے امن سے، اپنے باشندوں کی فلاح و بہبود سے ،اپنے حکمرانوں کی نیک سیرت سے ، اپنی صالح داخلی سیاست سے ، اپنی راست بازانہ خارجی پالیسی سے ، اپنی شریفانہ جنگ سے اور اپنی وفادارانہ صلح سے، ساری دنیا کے سامنے، اس بات کی شہادت دے کہ جس دین نے اِس اسٹیٹ کو جنم دیا ہے، وہ درحقیقت انسانی فلاح کا ضامن ہے، اور اسی کی پیروی میں نوعِ انسانی کی بھلائی ہے۔ یہ شہادت، جب قولی شہادت کے ساتھ مل جائے تب وہ ذِمّہ داری پوری طرح ادا ہو جاتی ہے جو اُمّتِ مُسلمہ پر ڈالی گئی ہے، تب نوعِ انسانی پر بالکل اِتمامِ حجت ہو جاتا ہے، تب ہی ہماری اُمّت اِس قابل ہو سکتی ہے کہ آخرت کی عدالت میں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کھڑی ہو کر شہادت دے سکے کہ جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پہنچایا تھا وہ ہم نے لوگوں تک پہنچا دیا اور اس پر بھی جو لوگ راہِ راست پر نہ آئے وہ اپنی کج روی کے خود ذِمّہ دار ہیں۔
حضرات! یہ وہ شہادت ہے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے، ہمیں قول و عمل میں دینی چاہیے تھی، مگر اب دیکھیے کہ آج ہم فی الواقع شہادت دے کیا رہے ہیں۔