اچھا اب ذرا اور آگے چلیے۔ آپ میں سے ہر شخص کی عقل اس بات کی گواہی دے گی کہ دنیا میں کوئی کام بھی،خواہ وُہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو، کبھی با ضابطگی و باقاعدگی سے نہیں چل سکتا جب تک کہ کوئی ایک شخص اس کا ذمہ دار نہ ہو۔ ایک مدرسہ کے دو ہیڈ ماسٹر،ایک محکمہ کے دو ڈائریکٹر، ایک فوج کے دو سپہ سالار، ایک سلطنت کے دو رئیس یا بادشاہ کبھی آپ نے سنے ہیں ؟اور کہیں ایسا ہو تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک دن کے لیے بھی انتظام ٹھیک ہو سکتا ہے؟ آپ اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اس کاتجربہ کرتے ہیں کہ جہاں کوئی کام ایک سے زیادہ آدمیوں کی ذمہ داری پر چھوڑا جاتاہے وہاں سخت بد انتظامی ہوتی ہے،لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں،اور آخر ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ کر رہتی ہے۔ انتظام، باقاعدگی، ہم واری اور خوش اسلوبی دنیا میں جہاں کہیں بھی آپ دیکھتے ہیں وہاں لازمی طور پر کوئی ایک طاقت کار فرما ہوتی ہے،کوئی ایک ہی وجود بااختیار و اقتدار ہوتا ہے،اور کسی ایک کے ہاتھ میں سر شتہ دار ہوتا ہے۔ اس کے بغیر انتظام کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔
یہ ایسی سیدھی بات ہے کہ کوئی شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا ہو اسے ماننے میں تامّل نہ کرے گا۔ اس بات کوذہن میں رکھ کر ذرا اپنے گردو پیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ یہ زبردست کائنات جو آپ کے سامنے پھیلی ہوئی ہے،یہ کروڑوں سیارے جو آپ کو گردش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،یہ زمین جس پر آپ رہتے ہیں، یہ چاند جو راتوں کو نکلتا ہے،یہ سورج جو صبح کو طلوع ہوتا ہے،یہ زہرہ، یہ مریخ، یہ عطارد،یہ مشتری اور یہ دوسرے بے شمار تارے جو گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں،دیکھیے، ان سب کے گھومنے میں کیسی سخت باقاعدگی ہے کبھی رات اپنے وقت سے پہلے آتی ہوئی آپ نے دیکھی ؟کبھی دن وقت سے پہلے نکلتے دیکھا؟کبھی چاند زمین سے ٹکرایا ؟کبھی سورج اپنا راستہ چھوڑ کر ہٹا؟ کبھی کسی اور ستارے کو آپ نے ایک بال برابر بھی اپنی گردش کی راہ سے ہٹتے ہوئے دیکھا یا سنا ؟یہ کروڑ ہا سیارے جن میں سے بعض ہماری زمین سے لاکھوں گُنا بڑے ہیں اور بعض سورج سے بھی ہزاروں گُنا بڑے،یہ سب گھڑی کے پُرزوں کی طرح ایک زبردست ضابطے میں کسے ہوئے اور ایک بندھے ہوئے حساب کے مطابق اپنی اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ راستے پر چل رہے ہیں۔ نہ کسی کی رفتار میں ذرہ برابر فرق آتا ہے،نہ کوئی اپنے راستے سے بال برابر ٹل سکتا ہے۔ ان کے درمیان جو نسبتیں قائم کر دی گئی ہیں،اگر ان میں ایک پل کے لیے بھی ذرا سا فرق آجائے تو سارا نِظامِ عالم درھم برھم ہو جائے،جس طرح ریلیں ٹکراتی ہیں اسی طرح سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔
یہ تو آسمان کی باتیں ہیں۔ ذرا اپنی زمین اور اپنی ذات پر نظر ڈال کر دیکھیے۔ اس مٹی کی گیند پر یہ سارا زندگی کا کھیل جو آپ دیکھ رہے ہیں،یہ سب چند بندھے ہوئے ضابطوں کی بدولت قائم ہے۔ زمین کی کشش نے ساری چیزوں کو اپنے حلقے میں باندھ رکھا ہے۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اگر وُہ اپنی گرفت چھوڑ دے تو سارا کارخانہ بکھر جائے، اس کارخانے میں جتنے کل پرزے کام کر رہے ہیں،سب کے سب ایک قاعدے کے پابند ہیں اور اس قاعدے میں کبھی فرق نہیں آیا۔ ہوا اپنے قاعدے کی پابندی کر رہی ہے، پانی اپنے قاعدے میں بندھا ہوا ہے، روشنی کے لیے جو قاعدہ ہے اس کی وُہ مطیع ہے،گرمی اور سردی کے لیے جو ضابطہ ہے اس کی وُہ غلا م ہے۔ مٹی پتھر، دھاتیں، بجلی، اسٹیم، درخت، جانور، کسی میں یہ مجال نہیں کہ اپنی حد سے بڑھ جائے یا اپنی خاصیتوں کو بدل دے یا اس کام کو چھوڑ دے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ پھر اپنی حد کے اندر، اپنے ضابطہ کی پابندی کرنے کے ساتھ، اس کارخانے کے سارے پُرزے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، سب اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ یہ ساری چیزیں اور ساری قوتیں مل کر کام کر رہی ہیں۔
ایک ذرا سے بیج ہی کی مثال لے لیجیے جسے آپ زمین میں بوتے ہیں۔ وُہ کبھی پرورش پا کر درخت بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ زمین اور آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کی پرورش میں حصہ نہ لیں۔ زمین اپنے خزانوں سے اسے غذا دیتی ہے، سورج اس کی ضرورت کے مطابق اسے گرمی پہنچاتا ہے،پانی سے جو کچھ وُہ مانگتا ہے وُہ پانی دیتا ہے،ہوا سے جو کچھ وُہ طلب کرتا ہے وُہ ہوا دیتی ہے،راتیں اسے ٹھنڈک اور اوس بہم پہنچاتی ہیں،دن اسے گرمی پہنچا کر پختگی کی طرف لے جاتے ہیں،اس طرح مہینوں اور برسوں تک مسلسل ایک باقاعدگی کے ساتھ یہ سب مل جل کر اسے پالتے پوستے ہیں، تب جاکر کہیں درخت بنتا ہے اور اس میں پھل آتے ہیں۔ آپ کی یہ ساری فصلیں جن کے بل بوتے پر آپ جی رہے ہیں۔ انھی بے شمار مختلف قوتوں کے بالاتفاق کام کرنے ہی کی وجہ سے تیار ہوتی ہیں، بلکہ آپ خود زندہ اسی وجہ سے ہیں کہ زمین اور آسمان کی تمام طاقتیں متفقہ طور پر آپ کی پرورش میں لگی ہوئی ہیں۔
اگر تنہا ایک ہوا ہی اس متفقہ کاروبار سے الگ ہو جائے تو آپ ختم ہو جائیں۔ اگر پانی، ہوا اور گرمی کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کر دے تو آپ پر بارش کا ایک قطرہ نہ برس سکے۔ اگر مٹی پانی کے ساتھ اتفاق کرنا چھوڑ دے تو آپ کے باغ سُوکھ جائیں، آپ کی کھیتیاں کبھی نہ پکیں اور آپ کے مکان کبھی نہ بن سکیں، اگر دیا سلائی کی رگڑ سے آگ پیدا ہونے پر راضی نہ ہو تو آپ کے چولہے ٹھنڈے ہو جائیں اور آپ کے سارے کارخانے یک لخت بیٹھ جائیں،اگر لوہا آگ کے ساتھ تعلق رکھنے سے انکار کر دے تو آپ ریلیں اور موٹریں تو درکنار ایک سوئی اور چُھری تک نہ بنا سکیں گے۔ غرض یہ ساری دُنیا جس میں آپ جی رہے ہیں، یہ صرف اسی وجہ سے قائم ہے کہ اس عظیم الشان سلطنت کے سارے محکمے کے کسی اہل کار کی یہ مجال نہیں ہے کہ اپنی ڈیوٹی سے ہٹ جائے یا ضابطہ کے مطابق دوسرے محکموں کے اہل کاروں سے اشتراک عمل نہ کرے۔
یہ جو کچھ مَیں نے آپ سے بیان کیا ہے،کیا اس میں کوئی بات جُھوٹ یا خلافِ واقعہ ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی بھی اسے جُھوٹ نہ کہے گا۔ اچھا اگر یہ سچ ہے تو مجھے بتائیے کہ یہ زبردست انتظام،یہ حیرت انگیز باقاعدگی،یہ کمال درجہ کی ہم واری،یہ زمین و آسمان کی بے حدو حساب چیزوں اور طاقتوں میں کامل موافقت آخر کس وجہ سے ہے؟ کروڑوں برس سے یہ کائنات یوں ہی قائم چلی آرہی ہے، لاکھوں سال سے اس زمین پر درخت اُگ رہے ہیں، جانور پیدا ہو رہے ہیں، اور نہ معلوم کب سے انسان اس زمین پر جی رہا ہے، کبھی ایسا نہ ہوا کہ چاند زمین پر گر جاتا یا زمین سورج سے ٹکرا جاتی، کبھی رات اور دن کے حساب میں فرق نہ آیا،کبھی ہوا کے محکمے کی پانی کے محکمے سے لڑائی نہ ہوئی۔ کبھی پانی مٹی سے نہ روٹھا، کبھی گرمی نے آگ سے رشتہ نہ توڑا۔ آخر اس سلطنت کے تمام صوبے، تمام محکمے، تمام ہر کارے اور کارندے کیوں اس طرح قانون اور ضابطے کی پابندی کیے چلے جا رہے ہیں؟ کیوں ان میں لڑائی نہیں ہوتی؟ کیوں فساد برپا نہیں ہوتا ؟ کس چیز کی وجہ سے یہ سب ایک انتظام میں بندھے ہوئے ہیں؟ اس کاجواب اپنے دل سے پوچھیے۔ کیا وُہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ ایک ہی خدا اس ساری کائنات کا بادشاہ ہے،ایک ہی ہے جس کی زبردست طاقت نے سب کو اپنے ضابطے میں باندھ رکھا ہے؟ اگر دس بیس نہیںدو خدا بھی اس کائنات کے مالک ہوتے تو یہ انتظام اس باقاعدگی کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ ایک ذرا سے مدرسے کا انتظام تو دو ہیڈ ماسٹروں کی ہیڈ ماسٹری برداشت نہیں کر سکتا، پھر بھلا اتنی بڑی زمین و آسمان کی سلطنت دو خدائو ں کی خدائی میں کیسے چل سکتی تھی ؟
پس واقعہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ دنیا کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بنی ہے،بلکہ یہ بھی واقعہ ہے کہ اسے ایک ہی نے بنایا ہے،حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اس دنیا کا انتظام کسی حاکم کے بغیر نہیں چل رہا ہے،بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وُہ حاکم ایک ہی ہے۔ انتظام کی باقاعدگی صاف کہہ رہی ہے کہ یہاں ایک کے سوا کسی کے ہاتھ میں حکومت کے اختیارات نہیں ہیں۔ ضابطہ کی پابندی منہ سے بول رہی ہے کہ اس سلطنت میں ایک حاکم کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔ قانون کی سخت گیری شہادت دے رہی ہے کہ ایک ہی بادشاہ کی حکومت زمین سے آسمان تک قائم ہے۔ چاند،سورج اور سیارے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں زمین اپنی تمام چیزوں کے ساتھ اسی کے تابع فرمان ہے،ہوا اسی کی غلام ہے، پانی اسی کا بندہ ہے،دریا اور پہاڑ اسی کے اختیار میں ہیں،درخت اور جانور اسی کے مطیع ہیں،انسان کا جینا اور مرنا اسی کے اختیار میں ہے اس کی مضبوط گرفت نے سب کو پوری قوت کے ساتھ جکڑ رکھا ہے کوئی اتنا زور نہیں رکھتا کہ اس کی حکومت میں اپنا حکم چلا سکے۔
دَرحقیقت اس مکمل تنظیم میں ایک سے زیادہ حاکموں کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ تنظیم کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ حکم میں ایک شمہ برابر بھی کوئی دوسرا حصہ دار نہ ہو۔ تنہا ایک ہی حاکم ہو اور اس کے سوا سب محکوم ہوں کیوں کہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں فرماں روائی کے ادنیٰ سے اختیارات ہونے کے معنی بھی بد نظمی اور فساد کے ہیں۔ حکم چلانے کے لیے صرف طاقت ہی درکار نہیں ہے،علم بھی درکار ہے۔ اتنی وسیع نظر درکار ہے کہ تمام کائنات کو بہ یک وقت دیکھ سکے اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ کر احکام جاری کر سکے۔ اگر خداوندِ عالم کے سوا کچھ چھوٹے چھوٹے خدا ایسے ہوتے جو نگاہ جہاں بیں تو نہ رکھتے،لیکن انھیں دنیا کے کسی حصے یا کسی معاملہ میں اپنا حکم چلانے کا اختیار حاصل ہوتا تو یہ زمین و آسمان کا سارا کارخانہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ جانتے ہیں کہ اگر کسی ایسے شخص کو اس میں دخل اندازی کا اختیار دے دیا جائے جو اس سے پوری طرح واقف نہ ہو تو وُہ اسے بگاڑ کر رکھ دے گا۔ لہٰذا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے اور زمین وآسمان کے نظامِ سلطنت کا انتہائی باضابطگی کے ساتھ چلنا اس کی گواہی دیتا ہے کہ اس سلطنت کے اختیارات شاہی میں ایک خدا کے سوا کسی کا ذرّہ برابر حصہ نہیں ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ ہی نہیں ہے، حق یہ ہے کہ خدا کی خدائی میں خود خدا کے سوا کسی کا حکم چلنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے جنھیں اُس نے اپنے دستِ قدرت سے بنایا ہے، جو اس کی مخلوق ہیں، جن کی ہستی اس کی عنایت سے قائم ہے، جو اس سے بے نیاز ہو کر خود اپنے بَل بوتے پر ایک لمحہ کے لیے بھی موجود نہیں رہ سکتے، ان میں سے کسی کی یہ حیثیت کب ہو سکتی ہے کہ خدائی میں اس کا حصّہ دار بن جائے؟ کیا کسی نوکر کو آپ نے ملکیت میں آقا کا شریک ہوتے دیکھا ہے؟ کیا آپ کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ کوئی مالک اپنے غلام کو اپنا ساجھی بنا لے؟ کیا خود آپ میں سے کوئی شخص اپنے ملازموں میں سے کسی کو اپنی جائداد میں یا اپنے اختیارات میں حصہ دار بناتا ہے؟ اس بات پرجب آپ غور کریںگے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ خدا کی اس سلطنت میں کسی بندے کوخود مختارانہ فرماں روائی کا کوئی حق حاصل ہی نہیں ہے۔ ایسا ہونا نہ صرف واقعہ کے خلاف ہے، نہ صرف عقل اور فطرت کے خلاف ہے، بلکہ حق کے خلاف بھی ہے۔