(ج)عدالت میں یہ سوال بھی بارباراٹھایاگیاہے کہ آیاان سب لوگوں کواسی طرح غیرمسلم اقلیت قراردینے کامطالبہ کیاجائے گاجواسلام کے بنیادی مسائل میںعام مسلمانوں سے مختلف نظریہ اختیارکریں۔مثلاًاہل قرآن اورایسے ہی دوسرے لوگ۔اس کاایک جواب اصولی پہلوسے ہے اوردوسراعملی پہلوسے۔اصولی پہلوسے اس کاجواب یہ ہے کہ جہاں تک تعبیر‘اجتہاداوراستنباط کاتعلق ہے،اس میںمختلف نقطۂ نظررکھنے والوںکے لیے اسلام میںزیادہ سے زیادہ ڈھیل کی گنجائش ہے۔ایسے امورمیںبڑی سے بڑی غلطی بھی گمراہی ہوسکتی ہے مگراس پرخروج ازاسلام کاحکم نہیںلگایاجاسکتا۔بخلاف اس کے،اسلام کے اساسی امورمیںجب کبھی کوئی ایساردوبدل کیاجائے کہ جس کے لیے دائرہ دین میںکوئی گنجائش نہ ہوتوایسی صورت میںیقیناخروج ازاسلام کاحکم لگایاجائے گابلالحاظ اس کے کہ اس کی زدکس پرپڑتی ہے۔عملی پہلوسے اس کاجواب یہ ہے کہ ایک فردیاچند منتشر افرادکا اسلام سے انحراف اورچیزہے، اورمسلم معاشرے کے اندرایک منحرف گروہ کی باقاعدہ جتھہ بندی‘ جو مسلسل تبلیغ سے اپنی تعدادبھی بڑھارہی ہوااورمعاشی وسیاسی حیثیت سے مسلمانوں کے مقابلے میںکشمکش بھی کررہی ہو، ایک بالکل ہی دوسری چیز۔اس دوسری قسم کے انحراف سے مسلسل نصف صدی تک زخم کھاتے رہنے کے بعداگرمسلمان تنگ آکرکچھ مطالبات پیش کرتے ہیںتواس موقع پرآخرپہلی قسم کے انحراف کی مثالیںکیوںیادکی جاتی ہیں؟ کیاعملاًیہ بات دنیابھرکے سامنے نمایاںنہیںہے کہ پہلی قسم کے منحرفین کے ساتھ مسلمانوںکااجتماعی طرز عمل دوسری قسم کے منحرفین کی بہ نسبت صریح طورپرمختلف ہے؟ مسلمان آخرکب یہ مطالبہ لے کراٹھے تھے کہ تمام منحرفین کوغیرمسلم اقلیتوں میں شامل کیا جائے؟