Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ

پچھلے سال ہماری آنکھوں نے جو ہولناک انقلاب دیکھا ہے اس نے تمام انقلابات کو مات کر دیا ہے‘ جو اس سے پہلے نہ صرف ہمارے اس ملک{ FR 2555 } میں بلکہ دنیا کے کسی ملک میں پیش آئے ہیں۔ ممکن ہے‘ کہ انسانی جانوں کا اتلاف اس سے پہلے کہیں اس سے بھی زیادہ وسیع رقبوں میں ہوا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے‘ کہ اس سے پہلے کبھی اس سے زیادہ بڑی آبادیوں کو ان کے آبائی وطنوں سے اُکھاڑ پھینکا گیا ہو۔ مگر شاید اس سے پہلے کبھی اور کہیں انسان نے انسان کے ساتھ‘ اتنے بڑے پیمانہ پر ایسی سنگ دلانہ درندگی اور ایسی بے شرمانہ بہیمیت کا برتائو نہیں کیا ہے۔ قوموں میں دشمنیاں بھی ہوئی ہیں ملکوں میں خانہ جنگیاں بھی ہوچکی ہیں‘ لیکن غالباً کبھی دنیا کی دو قوموں کے درمیان عداوت نے یہ شدت یہ تلخی اور یہ تندی اختیار نہیں کی ہے۔ انسان انسان سے بار ہا لڑا ہے۔ مگر لڑائی میں کمینہ پن اور بدمعاشی کا جو مظاہرہ یہاں ہوا ہے۔ یہ اپنی نظیر بس آپ ہی ہے۔ یہاں انسان صورت جانوروں نے وہ وہ کام کیے ہیں‘ کہ اگر کتوں اور بھیڑیوں پر ان کا الزام تھوپ دیا جائے‘ تو وہ بھی اسے اپنی توہین محسوس کریں۔ اور یہ کر توت چند گنے چنے بدمعاشوں کے نہیں تھے‘ بلکہ پوری پوری قوموں نے اپنے آپ کو بدمعاش ثابت کیا۔باقاعدہ حکومتیں بدمعاش بن گئیں بڑے بڑے لیڈروں اور رئیسوں اور وزیروں نے بدمعاشی کی اسکیم سوچی اور حکومتوں کے پورے نظم ونسق نے اپنے مجسٹریٹوں اور اپنی پولیس اور اپنی فوج کے ذریعہ سے اس اسکیم کو عملی جامہ پہنایا۔ دو سال پہلے تک ہمیں اندازہ نہیں تھا‘ کہ جس ملک میں ہم رہتے ہیں اس کی آبادی کا اخلاقی زوال اس انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ نفیس لباسوں‘ اعلیٰ ڈگریوں اور بڑے ناموں کے پردے میں جو شخصیتیں چھپی ہوئی تھیں ان کو ہم شرفا میں شمار کرتے تھے۔ عام آبادی کے پُرامن روّیے کو دیکھ کر ہم سمجھتے تھے‘ کہ یہ بھلے انسانوں کی بستیاں ہیں۔ مگرافسوس کہ واقعات نے اس سارے حسن ظن کا پردہ چاک کر دیا‘ معلوم ہوا کہ پہلے جوکچھ ہم دیکھ رہے تھے وہ محض انگریز کی سنگین کا کرشمہ تھا۔ اس سنگین کے ہٹتے ہی یہ حقیقت کھل گئی‘ کہ یہ ملک لاکھوں‘ کروڑوں ڈاکوئوں‘ لیٹروں‘ قاتلوں‘ زانیوں اور سخت کمینہ صفت ظالموں سے بھرا ہوا تھا۔
کیا یہ سب کچھ جو واقع ہوا محض ایک اتفاقی حادثہ تھا؟ جو لوگ پچھلے تیس سال سے اس ملک کی رہنمائی کرتے رہے ہیں‘ اور جن کی قیادت میں یہ انقلاب رونما ہوا ہے وہ ایسا ہی کچھ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اس فساد عظیم کے اسباب کی بحث کو باتوں میں ٹالنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کی ایک شاعرانہ توجیہ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں‘ کہ کشت وخون اور ظلم وستم کا یہ مظاہرہ کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہے‘ جس پر کچھ فکر مند ہونے کی ضرورت ہو‘ یہ تو ایک آزاد قوم کی ولادت کے درد ہیں‘ جو ایسے موقع پر ہوا ہی کرتے ہیں۔{ FR 2556 }حالانکہ اگر یہ ولادت کے درد ہی تھے تو یہ دنیا کو ایک درندے کی پیدائش کی خوش خبری دے رہے تھے‘ نہ کہ کسی انسان کے تولد کی۔ انہوں نے دنیا کو جو اطلاع دی وہ اس بات کی نہ تھی کہ کچھ انسان ہیں‘ جن کا بند اسیری ٹوٹا ہے‘ بلکہ دراصل یہ اس بات کی اطلاع تھی کہ کچھ بھیڑئیے قید تھے‘ جن کا پنجرہ کھل گیا ہے۔ اس کے بعد لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے‘ کہ کیا ہندستان کے باشندے اپنی فطرت اور اپنے مزاج ہی کے لحاظ سے کمینے‘ بدمعاش اور سفاک ہیں‘ یا ان کو ایسا بنا دیا گیا ہے؟پہلا الزام ثابت کرنے کے لیے اس سے زیادہ قوی ثبوت کی ضرورت ہے‘ جو پچھلے دو سال کے واقعات نے فراہم کیا ہے۔ آخر ہندستانیوں کی پچھلی سینکڑوں برس کی تاریخ موجود ہے۔
اپنے ماضی میں انہوں نے کب ایسی ذلیل صفات کا مظاہرہ کیا تھا؟پھر اگر یہ الزام ثابت نہیں ہے‘ تو یقینا دوسرا الزام آپ سے آپ ثابت ہے‘ یعنی یہ کہ ہمارے ملک کی آبادی کو اس اخلاقی پستی کے گڑھے میں گرایا گیا ہے۔ یہی وہ نتیجہ ہے‘ جس سے بچنے کے لیے پچھلے درد ناک واقعات کے اسباب کی بحث کو‘ باتوں میں اڑانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ کیونکہ یہ بحث ان سب لوگوںکا منہ کالا کر دینے والی ہے‘ جنہوں نے پچھلی ربع صدی میں ہمارے ملک کی سیاسی تحریکوں کی قیادت فرمائی ہے۔
ہندوستان میں سیاسی بے داری کی ابتدا مغربی تعلیم وتہذیب کے زیر اثر ہوئی۔ اس تعلیم اور تہذیب نے دو تحفے ہمارے ملک کے کار فرما دماغوں اور کارکن ہاتھوں کو دئیے۔ ایک قومیّت کا احساس اور قوم پرستی کا جذبہ‘ دوسرے مادّہ پرستانہ اخلاق۔
پہلی چیز کو لے کر یہاں کے سیاسی لیڈروں نے ’’ہندستانی قومیّت‘‘کا ایک مصنوعی تخیل پیدا کرنے کی کوشش کی‘ مگر چونکہ اس کے لیے کوئی حقیقی بنیاد موجود نہ تھی اس لیے قومیّت کی حِس بیدار کرنے کی جتنی کوششیں کی گئیں‘ ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں ان مختلف گروہوں میں اپنی جدا گانہ قومیّتوں کا شعور جاگ اُٹھا‘ جو فی الحقیقت اپنے اندر قومیّت کے فطری عناصر رکھتے تھے۔ اس طرح چالیس پچاس سال کی تبلیغ قومیّت نے اس ملک میں ایک کے بجائے بہت سی چھوٹی بڑی قومیّتیں پیدا کر دیں‘ جن میں سے تین یعنی ہندو قومیّت‘ مسلم قومیّت اور سکھ قومیّت… تو پوری طرح بر سر کار آکر اپنا کھیل کھیل چکی ہیں‘ اور باقی بہت سی صوبائی اور لسانی قومیّتیں ابھی دوران تخلیق میں ہیں۔ پھر سیاسی اختیارات حاصل کرنے کے لیے برطانوی اقتدار کے خلاف جو جدوجہد ہورہی تھی‘ اس کا قدم جتنا جتنا آگے بڑھتا گیا‘ ان مختلف قومیّتوں کے درمیان آپس کی کشمکش اتنی ہی تیز تر اور تلخ تر ہوتی چلی گئی۔ اس کشمکش نے ان میں سے ہر ایک کے اندر قوم پرستی کا شعور بھڑکا دیا‘ اور ایک کی طرف سے دوسرے کے قومی حوصلوں کی مزاحمت جتنی بڑھی اتنی ہی قومی عداوت ان کے درمیان بڑھتی چلی گئی۔
دوسری طرف مادّہ پرستانہ اخلاق کا جو درس مغربی تعلیم وتہذیب سے لیا گیا تھا وہ بائولے کتے کے زہر کی طرح سارے ملک کی رگ رگ میں پھیل گیا۔اس نے دلوں کو خدا ترسی اور حق شناسی سے خالی کر دیا‘ شرافت اور انسانیت کی جڑیں ہلا دیں‘ اور ان تما م اخلاقی قدروں کو ختم کر دیا‘ جو اس ملک کے لوگوں نے اپنے قدیم مذہبوں سے پائی تھیں۔ یہ اس نئے اخلاق ہی کا کرشمہ تھا‘ کہ پچھلے پچیس سال میں ہندوئوں‘ مسلمانوں اور سکھوں کی قومی کشمکش روز بروززیادہ سے زیادہ رذالت کے راستوں پر بڑھتی چلی گئی۔ بڑے بڑے لیڈروں نے بے حیائی کیساتھ‘ ایمان نگل نگل کر قومی خود غرضیوں کے تقاضے پورے کیے‘ بڑی بڑی ذمّہ دار سیاسی جماعتوں نے حق اور انصاف سے بے نیاز ہوکر ایک دوسرے کے خلاف جوڑ توڑ کیے‘ ملک بھر کے اخبارات نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ جھوٹے پروپیگنڈے کیے‘ گالم گلوچ کا طوفان بپا کیا اور نفرت وعداوت کی شراب پلا پلا کر اپنی اپنی قوموں کو بدمست کر دیا۔ پھر دونوں مخالف گروہوں کے لوگوں نے سرکاری محکموں میں‘ منڈیوں اور بازاروں میں اور زندگی کے ہر کاروبار میں ایک دوسرے کے خلاف کھلی کھلی بے انصافیاں اور حق تلفیاں کیں اور ہر اس بے ایمانی کو اپنے لیے نیکی اور کار ثواب بنا لیا جو حریف قوم کے کسی فرد کے ساتھ کی جائے۔ واقعات کی یہ رفتار صاف بتا رہی تھی کہ اس ملک کا اخلاقی زوال کس پستی کی طرف بہا چلا جا رہا ہے۔
یہ دو اسباب ہیں‘ جنہوں نے مل جل کر وہ ہولناک نتائج پیدا کیے جو ہماری آنکھیں ابھی ابھی دیکھ چکی ہیں۔ ظاہر ہے‘ کہ اس کی ذمّہ داری سے وہ لوگ بری نہیں ہوسکتے جو اس دور میں یہاں کی مختلف قوموں کے رہنما اور سر براہ کار رہے ہیں۔ یہی تو وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے ایک طرف اپنی اپنی قوم کے لوگوں میں قومی خواہشات برانگنیتحہ کیں اور دوسری طرف قومی ا خلاق کو سنبھالنے کے لیے کچھ نہ کیا۔ بلکہ صحیح یہ ہے‘ کہ اسے گرایا اور گرنے میں خود اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اگر یہ اس کھیل کے نتائج سے بے خبر تھے تو سخت اناڑی تھے ایسے اناڑی اس قابل نہیں ہیں‘ کہ کروڑوں انسانوں کی قسمتوں کے ساتھ بازی گری کرنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا جائے۔ اور اگر انہوں نے جان بوجھ کر یہ سارا کھیل کھیلا تو درحقیقت یہ انسانیت کے اور خود اپنی قوم کے دشمن ہیں‘ ان کا صحیح مقام پیشوائی کی مسند نہیں‘ بلکہ عدالت کا کٹہرا ہے ‘جہاں ان کے اعمال کا محاسبہ ہونا چاہئے۔
یہ خیال کرنا سخت حماقت ہے‘ کہ جو کچھ ہوگزرا وہ اس قومی کشمکش کا آخری باب تھا‘ اور یہ کہ اب تقسیم ملک کے بعد تاریخ ایک صحیح راستے پر چل پڑے گی۔ ہر گز نہیں۔ حقیقت یہ ہے‘ کہ ۱۵ اگست ۴۷ء کی تقسیم سے یہاں جو دو مملکتیں بنی ہیں‘ انہوں نے قومی خود غرضی اور اخلاقی پستی کا وہ سارا زہر میراث میں پایا ہے‘ جو قبل تقسیم کے ہندوستان کی رگ رگ میں سرایت کر چکا تھا‘ اور ان دنوں مملکتوں کی پیدائش کا آغاز جن سخت المناک حالات میں ہوا ہے وہ ان کی آئندہ تاریخ پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتے۔ نئی سیاسی سرحدوں کے دونوں جانب جو دو قومیں آباد ہیں ان کے دل ایک دوسرے کے خلاف انتقام اور عداوت کے تلخ ترین جذبات سے لبریز ہیں… خصوصاً سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان تو وہ دشمنی پیدا ہوچکی ہے‘ جو شاید اس وقت کہیں بھی دنیا کی دو قوموں کے درمیان نہیں پائی جاتی… مسلمان‘ ہندو اور سکھ ایک دوسرے کو وہ چر کے لگا چکے ہیں‘ جن کے زخم مدّتوں رستے رہیں گے‘ اور اب وہ کسی غیر قوم کے ماتحت بے بس نہیں ہیں‘ بلکہ اپنی اپنی آزاد مملکتیں رکھتے ہیں۔ اگر اب بھی ان دونوں مملکتوں کے باشندوں کو ہوش نہ آیا اگر اب بھی ان کی لیڈر شپ تبدیل نہ ہوئی‘ اور اگر اس نئے دور میں بھی ان کے معاملات اسی اندھی اور گندی قوم پرستی پر اور اسی مادّہ پرستانہ اخلاق پر چلتے رہے‘ جس پر اب تک وہ چلے ہیں‘ تو آئندہ ان بااختیار قوموں کی کش مکش بہت زیادہ بڑے پیمانے پر بدر جہا زیادہ تلخ نتائج پیدا کرے گی۔ پہلے جو گالم گلوچ اخباروں کے کالموں میں ہوتی تھی‘ وہ اب بین الاقوامی چوراہے پر ہوگی۔ پہلے جو چھوٹے چھوٹے معرکے دفتروں اور منڈیوں میں برپا ہوا کرتے تھے‘ اب وہ دو سلطنتوں کے درمیان سیاسی رسہ کشی اور معاشی رقابت کی شکل میں برپا ہوں گے‘ اور پھر اگر خدا نخواستہ ان دونوں قوموں کے درمیان کبھی جنگ ہوگئی‘ تو یقینا وہ ایسی سخت انتقامی جنگ ہوگی‘ جو اپنی وحشت وبربریت میں تاریخِ انسانی کی بدترین لڑائیوں کو بھی مات کر دیگی۔
لہٰذا اب پاکستان اور ہندستان‘ دونوں کے مستقبل کی بہتری کا انحصار اس بات پر ہے‘ کہ اگر ان کی آبادیوں میں شریف معقول اور خدا ترس انسانوں کا کوئی عنصر موجود ہے‘ تو وہ منظم ہوکر اُٹھے‘ اپنی اپنی قوم کی ذہنیت بدلنے کی کوشش کرے‘ اور موجودہ قیادتوں کو بدل کر ایسے طریقے پر دونوں ملکوں کے معاملات چلائے جس سے ان کے تعلقات شریفانہ ہمسایگی اور منصفانہ تعاون پر قائم ہوسکیں۔
اب ذرا ایک نظر تقسیم کے اس ڈرامے پر بھی ڈال لیجیے‘ جو پچھلے سال یہاں کھیلا گیا ہے‘ تاکہ آپ کو ان لیڈروں کی سیاسی دانائی کا حال معلوم ہوجائے‘ جن کی مہارتِ فن کا شہرہ ایک مدّت سے ہم سن رہے تھے۔
اس ڈرامے کے اصل اداکار تین تھے انگریز کانگریس اور مسلم لیگ ان تینوں کے کام کا جائزہ لے کر ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو کیا ثابت کیا ہے۔
انگریزوں کے لیے دوسری جنگ ِعظیم کے پیدا کردہ مسائل اور ہندستان کی سیاسی بیداری نے جو سوال پیدا کردیا تھا وہ یہ تھا‘ کہ آیا اس ملک پر آخر وقت تک قاہرانہ تسلّط جاری رکھا جائے‘ یہاں تک کہ زبردستی نکالے جانے کی نوبت آجائے؟یا وہ وقت آنے سے پہلے ہی باہمی رضا مندی سے یہ ملک چھوڑ دیا جائے؟پہلی صورت میں وہ مزید چند سال تک اس ملک پر قبضہ رکھ سکتے تھے‘ مگر اس عارضی فائدے کا مستقل نقصان یہ تھا‘ کہ زبردستی نکالے جانے کے بعد انہیں ان تمام فائدوں سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھو لینا پڑتا جو ہندستان سے اُٹھائے جا سکتے تھے۔ دوسری صورت میں برٹش ایمپائر کا بظاہر خاتمہ تھا۔ مگر آزاد ہندستان سے فائدہ اُٹھانے کے امکانات باقی رہتے تھے۔ ان دونوں صورتوں کے فوائد اور نقصانات کا موازنہ کر کے انگریزی قوم نے ٹھنڈے دل سے دوسری صورت کا انتخاب کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ تاریخ اور نفسیات کے اس سبق سے بھی غافل نہ تھی کہ جو قوم کسی دوسری قوم کی غلامی سے آزاد ہوتی ہے‘ اس کے اندر مدّتوں تک اس قوم کے خلاف شدید تعصّب بلکہ انتقام کا جذبہ بھڑکتا رہتا ہے‘ جو اس پر جبروقہر سے حکومت کرتی رہی ہو۔ اس لیے وہ اپنے مفاد کی خاطر یہ ضروری سمجھتی تھی کہ ہندستان کا معاملہ ایسے طریقے سے طے کیا جائے‘ جس سے تعصّب وانتقام کے وہ سارے جذبات جو اس کے خلاف بھڑک سکتے تھے خود ہندستانیوں کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوجائیں‘ اور انگریز دونوں کا یار غار بن کر رہے۔ اس غرض کے لیے برطانوی حکومت نے پہلے لارڈویول کو استعمال کرنا چاہا۔ مگر معلوم نہیں کہ وہ چالاک کم تھا یا شریف زیادہ بہرحال وہ تاریخ انسانی کی عظیم ترین سیاسی بدمعاشی کا وہ کام انجام نہ دے سکا جو اس کی قومی حکومت اس سے لینا چاہتی تھی۔ آخر کار نگاہ انتخاب لارڈ مائونٹ بیٹن پر جا کر ٹھہری{ FR 2557 } اور اس شخص نے آکر تقسیم ہند کا پورا نقشہ ایسے طرز پر بنایا جو لازمی اور قطعی طور پر وہی نتائج پیدا کر سکتا تھا‘ جو اس نے فی الواقع پیدا کیے۔{ FR 2558 }کلکتہ‘ نواکھالی‘ بہار‘ گڑھ مکتیشور‘ راولپنڈی اور امر تسر کے واقعات کے بعد تقسیم ملک اور انتقال اختیارات کا جو ڈھنگ لارڈ مائونٹ بیٹن نے اختیار کیا اس کو دیکھ کر ایک معمولی عقل وبصیرت رکھنے والا آدمی بھی ہ اندازہ کر سکتا تھا‘ کہ اس سے ملک کے ایک بڑے حصے میں سخت خون ریزی ہوکر رہے گی۔اب اگر یہ مائونٹ بیٹن کا اناڑی پن تھا‘ اور کوئی دانستہ چالا کی نہ تھی‘ جسے اس کی قوم کی رضا مندی حاصل ہوتی‘ تو جو ہولناک نتائج اس سے بر آمد ہوئے انہیں دیکھ لینے کے بعد بجائے اس کے کہ اس شخص پر تحسین وآفرین کے پھول برسائے جاتے اس پر لعنت ملامت کی بوچھاڑ ہونی چاہئے تھی‘ اور لاکھوں انسانوں کے قتل اور ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کی خانہ بربادی کے بدلے میں اس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہئے تھا۔ لیکن اس کی سیاست دانی کی جودادانگلستان میں دی گئی وہ اس بات کا صریح ثبوت ہے‘ کہ یہ سب کچھ دانستہ کیا گیا تھا‘ اور اسے پوری انگریزی قوم کی رضا مندی حاصل تھی۔آج یہ اسی چالاکی کا کرشمہ ہے‘ کہ ہندو اور مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں‘ اور وہ انگریز جو کل تک تینوں پر یکساں ظلم کر رہا تھا۔ تینوں کا مشترک دوست ہے۔مسلمان کے لیے ہندوستان کی اور ہندو اور سکھ کے لیے پاکستان کی زمین تنگ ہے‘ مگر انگریز کے لیے ہر جگہ فراخی ہی فراخی ہے۔ انسانیت کے نقطۂ نظر سے آپ چاہے اس کو کتنا ہی بڑا جرم قرار دے لیں انگریز کی قومی خود غرضی کے لحاظ سے یہ بالیقین ایک کامیاب ترین سیاسی چال تھی۔ مگر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے‘ کہ اس پر زیادہ دادکا مستحق کون ہے‘ لارڈ مائونٹ بیٹن‘ یا ہندستان کے وہ اندھے سیاسی لیڈر جو تقسیم کے اس نقشے کی ساخت اور تکمیل میں ہر مرحلے پر اس کے شریک کار رہے؟
اس ڈرامے کی دوسری اداکار کانگریس تھی‘ اور اس نے جو پارٹ ادا کیا‘ وہ احمقوں کے سوا کسی سے داد نہیں پا سکتا۔ تقسیم ہند سے دو تین برس پہلے ہی یہ بات بالکل واضح ہوچکی تھی‘ کہ اب تقسیم کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس کے بعد دور استے کھلے ہوئے تھے۔ ایک راستہ یہ تھا‘ کہ تلخی اور بدمزگی کے بڑھنے سے پہلے ہی اس چیز کو سیدھی طرح قبول کر لیا جاتا جو ناگزیر ہوچکی تھی‘ اور بھلے آدمیوں کی طرح بیٹھ کر سارے معاملات ایسے طریقے سے طے کر لیے جاتے‘ کہ پھر مل جانے یا کم از کم شریف ہمسایوں کی طرح رہنے کے مواقع باقی رہتے۔ دوسرا راستہ یہ تھا‘ کہ ’’لے کر رہیں گے‘‘ اور ’’ہر گز نہ دیں گے‘‘کے اس جھگڑے کو انتہائی تلخی کی حد تک بڑھنے دیا جاتا اور اس ناگزیر تقسیم کو ایسے مرحلے پر پہنچ کر قبول کیا جاتا‘ جہاں الگ ہونے والی قوموں کے درمیان دوستانہ تو درکنار شریفا نہ انسانی تعلقات بر قرار رہنے کے امکانات بھی ختم ہوجاتے۔ کانگریسی لیڈروں نے ان دونوں راستوں میں سے دوسرے راستے کو انتخاب کیا اس کی وجہ اگر نادانی تھی تو بدقسمت ہے وہ قوم جو اپنی باگیں ایسے نادان لوگوں کے ہاتھ میں دے۔اور اگر اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ اپنی قوم میں اپنی ہر دلعزیزی کو کھونے کے لیے تیار نہ تھے‘ تو یہ اور بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ ان لوگوں نے اپنی پوزیشن کی خاطر ملک کو اس راستے پر جان بوجھ کر چلایا جس میں ان کے کروڑوں ہم وطنوں کی بربادی تھی۔
اس سارے کھیل میں کانگریس نے اپنے طرزِعمل سے اپنے دشمنوں اور مخالفوں کی ایک ایک بات کو سچا اور اپنی ایک ایک بات کو جھوٹا کر دکھایا۔
ہندستان کی آزادی کے خلاف چرچل اور دوسرے انگریز مدبّرین کی سب سے زیادہ پرزور دلیل یہ تھی کہ ہمارے ہٹتے ہی ملک میں فساد عظیم رونما ہوجائے گا۔ کانگریسی لیڈر اس کے جواب میں کہتے تھے‘ کہ یہ ایک بات ہے‘ جو تم اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے بناتے ہو۔ ذرا ذمّہ داری کا بوجھ اہلِ ملک پر ڈال تود و‘ پھر دیکھو کہ کیسا امن اور انصاف قائم ہوتا ہے۔ اب واقعات نے کسے سچا اور کسے جھوٹا ثابت کیا؟ یہ آج سارا زمانہ دیکھ رہا ہے۔
مسٹر جناح کا سب سے بڑا الزام کانگریس پر یہ تھا‘ کہ وہ دراصل ایک متعصّب ہندو قوم پرست جماعت ہے‘ اور اس نے محض منافقت کے ساتھ ہندوستانی قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ کانگریسی اس الزام کو بالکل غلط کہتے تھے۔ لیکن وزارتی مشن (cabinet mission)کی آمد کے بعد سے آج تک کانگریس اور اس کے لیڈروں نے جو کچھ کیا ہے وہ مسٹر جناح کے الزام کا ناقابلِ تر دید ثبوت ہے۔ انہوں نے خود ہی اپنے اوپر سے اس لبادے کو اتار پھینکا ہے‘ جسے مسٹر جناح منافقت کا لبادہ کہتے تھے۔
کانگریس کے مخالفین کہتے تھے‘ کہ جو سوراج کانگریس قائم کرنا چاہتی ہے وہ دراصل ہندوراج ہوگا‘ جس میں مسلمانوں کے لیے کوئی آزادی نہ ہوگی۔اسی اندیشے پر تقسیم ملک کی تجویز مبنی تھی‘ اور اسی خطرے کی بنا پر مسلمانوں کی عظیم اکثریت اس تحریک آزادی کو مشتبہ نظروں سے دیکھتی تھی‘ جس کی علم برداری کا ’’شرف‘‘کانگریس کو حاصل تھا۔ کانگریسی لیڈر ہمیشہ مسلمانوں کے ان اندیشوں اور خطرات کو بے بنیاد قرار دیتے رہے۔ مگر ۱۵؍اگست کے بعد جو کچھ ہندستان میں ہوا اور اب تک ہورہا ہے اس نے ان سارے اندیشوں کو بالکل صحیح ثابت کر دیا‘ جن کی بنا پر مسلمان کانگریس کی تحریک آزادی کو اپنے لیے تحریک بربادی سمجھتے تھے‘ بلکہ درحقیقت سوراج قائم ہوتے ہی جو سلوک مسلمانوں کے ساتھ شروع ہوا‘ وہ تو ان بدتر سے بدتر اندازوں سے بھی بدر جہا زیادہ بدتر نکلا جو کانگریس کے شدید ترین مخالف لگا سکتے تھے۔
کانگریس کا دعویٰ تھا‘ کہ وہ ہندستان کی وحدت کا عقیدہ رکھتی ہے‘ اور تقسیم کو محض مسلم لیگ اور انگریز ی حکومت کی زبردستی سے بادل نخواستہ قبول کر رہی ہے‘ لیکن تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے وقت اور تقسیم کے بعد جو کچھ اس نے کیا‘ وہ سب اس تقسیم کو دائمی اور ابدی بنا دینے والا ہے۔ اگر آدمیت سے تقسیم کا معاملہ طے کیا جاتا شرافت سے اس پر عملدر آمد کیا جاتا‘ اور اس کے بعد ہندستان کے مسلمانوں سے منصفانہ سلوک کیا جاتا تو بعید نہ تھا‘ کہ کچھ مدّت بعد پاکستان خود ہندستان کے ساتھ اتحاد کا خواہشمند ہوتا۔ مگر اب پاکستان اور ہندستان کے درمیان وہ دیواریں کھڑی ہوچکی ہیں‘ جو صدیوں تک انہیں ایک دوسرے سے جُدا رکھیں گی۔
اب تیسرے اداکار کو لیجیے جس کا پارٹ اس ڈرامے میں سب سے زیادہ ناکام رہا ہے۔
دس سال سے مسلمانوں کی قیادت ِعظمیٰ جس لائحہ عمل پر چل رہی تھی‘ وہ سلطان عبدالحمید خان کی سیاست سے ملتا جلتا تھا۔ جس طرح وہ ۳۳ سال تک محض دُوَلِ یورپ کی باہمی رقابتوں سے فائدہ اُٹھا کر جیتے رہے‘ اور اس دوران میں خود اپنے ملک کی کوئی طاقت انہوں نے نہ بنائی جس کے بل بوتے پر وہ جی سکتا۔ اسی طرح اس قیادت کا بھی سارا سیاسی کھیل بس انگریز اور کانگریس کی کشمکش سے فائدہ اُٹھانے تک محدود تھا۔ پورے دس سال میں اس نے خود اپنی قوم کی اخلاقی‘ مادّی اورتنظیمی طاقت بنانے اور اس کے اندر قابلِ اعتماد سیرت پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہ کی ‘جس کی بنا پر وہ اپنے کسی مطالبہ کو خود اپنی طاقت سے منوا سکتی۔ اسی کا نتیجہ تھا‘ کہ جوں ہی انگریزاور کانگریس کی باہمی کشمکش ختم ہوئی‘ اس قیادت عظمیٰ نے اپنے آپ کو ایسی حالت میں پایا‘ جیسے اس کے پائوں تلے زمین نہ ہو۔ اب وہ مجبور ہوگئی کہ جو کچھ جن شرائط پر بھی ملے اسے غنیمت سمجھ کر قبول کر لے‘ بنگال وپنجاب کی تقسیم اُسے بے چون وچرا ماننی پڑی۔ سرحدوں کی تعین جیسے نازک مسئلے کو اسے صرف ایک شخص کے فیصلے پر چھوڑ دینا پڑا۔انتقالِ اختیارات کے لیے جو وقت اور جو طریقہ تجویز کر دیا گیا‘ اسے بھی بلاتا مل اس نے مان لیا۔ حالانکہ یہ تینوں امور صریح طور پر مسلمانوں کے حق میں مہلک تھے۔ انہی کی وجہ سے ایک کروڑ مسلمانوں پر تباہی نازل ہوئی‘ اور انہی کی وجہ سے پاکستان کی عمارت اول روز ہی سے سخت متزلزل بنیادوں پر اُٹھی۔
اس قیادت کی غلطیاں اس سے بہت زیادہ ہیں‘ کہ چند سطروں میں انہیں شمار کیا جاسکے۔ مگر اس کی چند غلطیاں تو اتنی نمایاں ہیں‘ کہ آج ہر ذی ہوش آدمی اُن کو بری طرح محسوس کر ہے۔ مثال کے طور پر۔
۱- اس نے حصولِ پاکستان کی جنگ میں ان علاقوں کے مسلمانوں کو شریک کیا جنہیں لامحالہ ہندستان ہی میں رہنا تھا۔ آج یہ اسی کا خمیازہ ہے‘ کہ ہندستان کی سر زمین ان غریبوں کے لیے جہنم بن گئی ہے‘ حالانکہ اگر تقسیم کے بعد ہندستانی اور پاکستانی مسلمانوں کا مستقبل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوجانے والا تھا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ تقسیم سے پہلے دونوں کی پالیسی ایک ہوتی۔
۲- اس نے ہندستانی مسلمانوں کو ایک ہفتہ پہلے بھی خبر دار نہ کیا کہ تقسیم کے وقت ان پر کیا طوفان ٹوٹنے والا ہے۔ اگر فی الواقع اسے ان حالات کا اندازہ ہی نہ تھا تو اس کی غفلت وبیخبری قابلِ ماتم ہے۔ اور اگر اس نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو بے خبر رکھا تو اس غداری کے لیے اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔
۳- جن لیڈروں پر ہندستان کے مسلمان‘ آخر وقت تک اندھا اعتماد کیے ہوئے تھے وہ عین وقت پر انہیں چھوڑ کر پاکستان اُٹھ آئے اور انہیں کچھ بھی نہ بتایا کہ ان کے پیچھے وہ کیا کریں۔
۴- جو عجیب وغریب ہدایت ہندستان کے مسلمانوں کو دی گئی وہ یہ تھی کہ ایک رات میں وہ ان سارے اصولوں کو نگل جائیں‘ جن پر وہ دس برس سے کانگریس کے خلاف لڑ رہے تھے۱۴؍اگست کا سورج دو قومی نظرئیے کا کلمہ پڑھتے ہوئے غروب ہو‘ اور ۱۵؍اگست کا سورج طلوع ہوتے ہی‘ ہر ہندی مسلمان ہندستانی قومیّت کا معتقد بن کر اُٹھے۔
۵- پچھلے دس سال کی قومی تحریک میں اسلام کا نام جس قدر لیا گیا‘ اس کا پچاسواں حصّہ بھی مسلمانوں کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے کام نہیں کیا گیا۔ بلکہ ان کے قومی اخلاق کو پہلے سے کچھ زیادہ ہی پست کر دیا گیا۔یہی وجہ ہے‘ کہ قومی جنگ میں مسلمان ان تمام اخلاقی جرائم کے مرتکب ہوئے‘ جن کا ارتکاب ان کے حریفوں نے کیا۔ مظالم کی مقدار میں چاہے کتنا ہی فرق رہا ہو‘ مگر مظالم کی نوعیت میں دونوں کے کارنامے ایک دوسرے سے کچھ بھی مختلف نہ رہے۔ اگر ہماری قومی قیادت نے ہمارے عوام کی اخلاقی تربیت کے لیے کوئی کوشش کی ہوتی‘ اور اکثریت کے علاقوں کے مسلمان وہ حرکات نہ کرتے‘ جو انہوں نے کیں تو اقلیت کے مسلمان اس بری طرح نہ پیسے جاتے‘ اور آج پاکستان کی اخلاقی پوزیشن ہندستان سے اتنی زیادہ اونچی ہوتی کہ ہندستان اس سے آنکھ ملا کر بات نہ کر سکتا۔ (ترجمان القرآن۔جون ۱۹۴۸ء)

خ خ خ

شیئر کریں