گزشتہ صفحات میں ہندستان کے تازہ سیاسی انقلاب کا جو جائزہ لیا گیا تھا‘ وہ اس کے صرف ایک پہلو سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں ہم نے بحیثیت مجموعی پورے ملک { FR 2559 }کی حالیہ سر گزشت ِخونیں پر ایک نگاہ ڈال کر یہ بتایا تھا‘ کہ اس ملک کے سابق حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں نے مل جل کر اپنی خود غرضی‘ تنگ دلی اور احمقانہ بے تدبیری سے‘ اس کو کس خوف ناک تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے‘ اور اس سے بچنے کی واحد صورت اب کیا ہے۔ آج ہم اس کے دوسرے پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ اس انقلاب میں سب سے زیادہ تباہی جس قوم پر آئی ہے‘ یعنی مسلم قوم وہ آج کس حال میں ہے کن اسباب نے اسے اس حالت کو پہنچا دیا ہے‘ اور اب کیا چیز اسے بچا سکتی ہے۔
دس گیارہ برس پہلے کی بات ہے جب ہندستان کے سات صوبوں میں یکایک کانگریس کو بر سر اقتدار دیکھ کر‘ اور پنڈت نہرو سے مسلم عوام کے ساتھ براہِ راست ربط قائم کرنے (muslim mass contact)کا پروگرام سن کر مسلمانوں کو پہلی مرتّبہ یہ احساس ہوا کہ اس ملک میں ہندو قوم پرستی کا غلبہ ان کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے‘ اور یہ خطرہ سر پر آچکا ہے۔
اس وقت مسلمانوں میں دو گروہ موجود تھے۔ ایک گروہ کہتا تھا‘ کہ خطرہ وطرہ کچھ نہیں ہے‘ سب تمہارا وہم اور انگریز کادلایا ہوا ڈراوا ہے‘ جو سیلاب اُٹھ رہا ہے ٹھیک اُٹھ رہا ہے اطمینان کے ساتھ اس میں کود پڑو اور جدہر وہ بہا کر لے جانا چاہتا ہے پورے انشراح صدر کے ساتھ ادھر بہہ جائو۔ دوسرا گروہ کہتا تھا‘ کہ خطرہ واقعی اور حقیقی ہے یہ سیلاب محض آزادی وطن کا سیلاب نہیں‘ بلکہ ہندو سامراجیت کا سیلاب ہے‘ اپنے آپ کو اس کے حوالہ کر دینے کے معنی قومی خود کشی کے ہیں‘ اور اس سے بچنے کی تدبیر ضرور کرنی چاہئے۔ پہلا گروہ اگرچہ بڑی بڑی مذہبی شخصیتوں اور آزمودہ کار سیاسی لیڈروں پر مشتمل تھا‘ لیکن چونکہ وہ ایسی بات کہہ رہا تھا‘ جو مسلمانوں کے عام احساسات کے خلاف تھی‘ اور پوری قوم کو ہند ستان کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر میدان میں ہندو قوم پرستی کے ہاتھوں اس کے بالکل برعکس تجربات پیش آرہے تھے اس لیے مسلمانوں نے مجموعی طور پر اس کو ردّ کر دیا اور جوق درجوق دوسرے گروہ کی آواز پر وہ لبیک کہتے چلے گئے۔
پھر دوسرے گروہ میں بھی جلدی ہی اسے مسئلے پر اختلاف رائے ہوگیا‘ کہ ہندو سامراج کی اس بڑھتی ہوئی رُو کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے راہِ عمل کیا ہے۔
ایک رائے یہ تھی کہ مغربی جمہوریت اور قوم پرستی کے اصولوں پر ہندو اقتدار کی تحریک کا مقابلہ کرنا اصولاً بھی غلط ہے‘ اور عملاً بھی مفید نہیں۔ اصولاً اس لیے غلط ہے‘ کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ اصول ان اسلامی اصولوں سے ٹکراتے ہیں‘ جن پر ہم ایمان لانے کے مدعی ہیں۔ اور عملاً یہ راہ اس بنا پر غیر مفید ہی نہیں‘ قطعی مہلک بھی ہے‘ کہ ہندستان کے ایک چھوٹے سے حصے کو چھوڑ کر باقی سارے ملک میں مسلمان قلیل التعداد ہیں‘ اور ایک جمہوری نظام میں قومی جنگ لڑکر اقلیت بجز تباہی کے اور کچھ مول نہیں لے سکتی۔ اس رائے کے پیش کرنے والوں نے مسلمانوں سے کہا‘ کہ اگر تم محض ایک قوم ہوتے‘ تو بلا شبہ تمہارے لیے یہاں اس کے سوا کوئی چارہ کارنہ ہوتا‘کہ قومی جنگ لڑکر اپنے جتنے حصے کو بچا سکتے بچا لیتے‘ اور باقی حصوں کی طرف سے پیشگی فاتحہ پڑھ لیتے۔ لیکن تم محض عام معنی میں ایک قوم نہیں ہو‘بلکہ ایک اصولی جماعت ہو‘ جس کے پاس اصولِ اسلام کا ہتھیار وہ زبردست ہتھیار ہے‘ جو پہلے بھی دنیا کو مسخر کر چکا ہے‘ اور آج بھی کر سکتا ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ تم یہ مایوسا نہ نقشہ جنگ بنائو۔ تمہارے لیے صحیح راہِ عمل یہ ہے‘ کہ سیاسی اور معاشی اغراض کے لیے لڑنے والی ایک قلیل التعداد قوم کی یہ پوزیشن چھوڑ دو جو غلطی سے تم نے اختیار کر رکھی ہے‘ اور اس کے بجائے اپنا اصل منصب سنبھالو‘ جو مسائل زندگی کا ایک بہترین حل اور تمام موجود الوقت نظاموں سے زیادہ جامع اور منصفانہ نظام پیش کرنے والی جماعت کا منصب ہے۔ اس چیز کو لے کر اگر تم اُٹھ کھڑے ہوئے‘ اور تم نے علمی وفکری حیثیت سے اصولِ اسلام کا تفوق تمام دوسرے اصولوں پر ثابت کر دیا اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو اخلاقی حیثیت سے بھی اپنے ہمسایوں پر فائق کر کے دکھا دیا تو یقین جانو کہ تھوڑی ہی مدّت کے اندر ہندستان میں توازن قوّت بدل جائے گا‘ ہندستان کی سیادت تمہارے سوا پھر کسی اور کا حصّہ نہ ہوگی‘ اور بجائے اس کے کہ تم اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوتمہارے حریفوں کو یہ فکر لاحق ہوجائے گی کہ وہ تمہارے بڑھتے ہوئے سیلاب سے اپنے آپ کو کس طرح بچائیں۔
یہ وہی بات تھی جو نبی a مکہ میں قریش کے لوگوں سے فرمایا کرتے تھے‘ کہ میں وہ کلمہ لے کر آیا ہوں کہ اگر تم اسے لے لو تو عرب اور عجم سب تمہارے زیر نگین ہوجائیں گے۔ لیکن مسلمانوں نے اس مشورے میں وہی خطرہ محسوس کیا جو قریش نے محسوس کیا تھا‘ کہ اِنْ نَّتَّبِعِ الْہُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا۰ۭ القصص28:57 یعنی اگر ہم اس راہِ عمل کو اختیار کر لیں تو اس سر زمین میں ہمارا کوئی ٹھکانا نہ رہے گا۔ پوری قوم میں بہت کم لوگ اس راہ کے امکانات کو سمجھ سکے‘ اور بہت ہی کم لوگ اس پر چلنے کے لیے آمادہ ہوئے۔ اس طرح یہ رائے قومی طرزِعمل نہ بن سکی۔
دوسری رائے یہ تھی کہ تمام ہندستان کے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں‘ اور مل کر آواز اُٹھائیں‘ کہ ہم ایک الگ قوم ہیں‘ ہمارا مذہب الگ ہے‘ ہماری تہذیب الگ ہے‘ ہمیں اور ہندوئوں کو ملا کر سارے ملک میں ایک قومی جمہوری ریاست بنا دینا صحیح نہیں ہے‘ ملک کو تقسیم کیا جائے‘ جہاں ہماری اکثریت ہے وہاں ہماری آزاد قومی حکومت بنے‘ اور جہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے‘ وہاں ان کی آزاد قومی حکومت بن جائے۔
یہ راستہ آسان تھا۔ اس میں نہ کسی ذہنی کاوش کی کوئی حاجت تھی‘ اور نہ کسی اخلاقی اصلاح وانضباط کا کوئی سوال۔ بظاہر بات بھی بالکل صاف تھی‘ اور مسلمانوں کے ذہین طبقہ کو ایک مدّت سے جس قسم کی تعلیم وتربیت مل رہی تھی اس کے لحاظ سے یہی بات ان کی دماغی سطح سے قریب تر بھی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت نے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تھوڑے لوگوں کو چھوڑ کر ساری قوم نے اس رائے کو اپنا لیا۔ اس مرکزی تخیل پر جمع ہونے کے بعد سے پچھلے چند سالوں میں مسلمانوں نے من حیث القوم جو کچھ کیا ہے اسی تحریک اور اسی قیادت کے زیر اثر کیا ہے‘ جو اس تخیل کو پیش کرنے کی ذمّہ دار تھی۔ لہٰذا ہماری ماضی قریب کی سر گزشت کا اور ہمارے آج کے حال کا حسن وقج لازماً اس تحریک ہی کی طرف راجع ہوگا۔
یہ تحریک ایک قومی تحریک تھی۔ اس میں وہ سب لوگ شریک ہوئے‘ جو نام ونسب کے لحاظ سے مسلم قوم کے افراد تھے۔یہ سوال اس میں سرے سے بے محل تھا‘ کہ جو اس میں شامل ہوتا ہے وہ خدا‘ رسول‘ آخرت‘ وحی وکتاب اور دین وشریعت کو مانتا ہے‘ یا نہیں‘ حرام وحلال کی تمیز کا قائل ہے‘ یا نہیں اور فجور وتقویٰ‘ دین داری وبے دینی کی مختلف صفات میں سے کس صفت کے ساتھ متصف ہے۔ اصل مسئلہ قوم کو بچانے کا تھا‘ اور اس کے لیے تمام قومی عناصر کا متحدہ محاذ بننا ضروری تھا۔ پھر جو کام پیشِ نظر تھا‘ وہ بھی فتوے اور امامت کا نہ تھا‘کہ دین واعتقاد کے تجسس کی ضرورت پیش آتی۔ مقصود صرف قومی مدافعت تھی‘ اور اس کے لیے تحریک کی شرکت تو درکنار اس کی قیادت ورہنمائی کے معاملہ میں بھی یہ دیکھنے کی حاجت نہ تھی کہ جن لوگوں کو ہم آگے لارہے ہیں ان کا اسلام سے کتنا اور کیسا تعلق ہے۔
یہ تحریک سیاسی تھی‘ اس میں اخلاق کا بھی کوئی سوال نہ تھا۔ جس نے سیاسی جوڑ توڑ میں جتنی زیادہ مہارت دکھائی وہ اتنے ہی زیادہ ذمّہ داری کے منصب کا اہل قرار پایا۔ اس قابلیت کا ثبوت مل جانے کے بعد یہ دیکھنا بالکل غیر ضروری تھا‘ کہ اس کی دیانت‘ امانت‘ صداقت کا کیا حال ہے‘ اور اس کی سیرت کہاں تک اعتماد کے لائق ہے۔
اس تحریک میں اگرچہ مذہب کا کوئی دخل نہ تھا۔ بعینہٖ اسی قسم کی تحریک ایسے ہی کارکنوں اور لیڈروں اور پیروئوں کے ساتھ دنیا کی ہر قوم اُٹھا سکتی تھی۔ لیکن اتفاق کی بات تھی کہ جو قوم اپنی مدافعت کے لیے یہ تحریک لے کر اُٹھی تھی اس کا مذہب اسلام تھا۔ اس لیے اسلام کی خدمات بھی اس کے لیے حاصل کی گئیں۔ اصول یہ قرار پایا کہ ہدایت ورہنمائی تو اسلام کے بس کا روگ نہیں ہے‘ اور نہ یہ کہنے کا اسے حق ہے‘ کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہئے‘ البتہ یہ اس کا فرض اور اولین فرض ہے‘ کہ جو کچھ ہم کریں وہ اس کی تصدیق وتوثیق کرے اس پر اجر کی اُمید دلائے‘ اس پر چسپاں کرنے کے لیے اپنی کوئی نہ کوئی اصطلاح مستعار دے‘ اور اس میں ہمارا ساتھ نہ دینے والوں کو جہنم کا راستہ دکھائے‘ اس لیے کہ ہم جو کچھ کرینگے اسی پر مسلم قوم کا بچنا موقوف ہے‘ اور مسلم قوم ہی نہ رہی تو یہ اسلام صاحب آخر رہیں گے کہاں؟یوں اس تحریک میں اسلام سے وہ خدمت لی گئی جو بگڑے ہوئے نواب زادے اپنے خاندان کے کسی پرانے جانثار ملازم سے لیا کرتے ہیں۔ مشورہ اور نصیحت اس کا کام نہیں ہوتا۔ میاں لوگ اپنی مرضی سے جو چاہیں کریں۔ مگر آڑے وقت میں بوڑھے خادم کو پکارا جاتا ہے‘ کہ آاور حق نمک ادا کر۔ پھر اگر وہ غریب ان حرکات پر صبر نہیں کر سکتا جن کی وجہ سے برے وقت آتے ہیں‘ اور بے چین ہوکر کبھی کہہ بیٹھتا ہے‘ کہ صاحبزادے اپنے اطوار ٹھیک کرو‘ تو اسے ڈانٹ دیا جاتا ہے‘ کہ ایاز قدرخود بشناس‘ تو اپنے کام سے کام رکھ‘ تیری یہ حیثیت کب سے ہوگئی کہ ہمارے معاملات میں دخل دے۔
یہ تھیں وہ بنیادیں جن پر ہماری یہ قومی تحریک اوّل روز سے اُٹھی اور آخر تک بڑھتی چل گئی۔ اس کے اجزائے ترکیبی میں مومن اور منافق اور کھلے کھلے ملحدسب شامل تھے‘ بلکہ دین میں جو جتنا ہلکا تھا وہ اتنا ہی اوپر آیا۔ اس میں اخلاق کی سرے سے کوئی پوچھ نہ تھی۔ عام کارکنوں سے لے کر بڑے سے بڑے ذمّہ دار لیڈروں تک میں‘ انتہائی ناقابلِ اعتماد سیرت کے لوگ موجود تھے‘ بلکہ تحریک کا قدم جتنا آگے بڑھا اس قسم کے عناصر کا تناسب بڑھتا ہی چلا گیا۔اس میں اسلام کو اتباع کے لیے نہیں‘ بلکہ صرف عوام میں مذہبی جوش پیدا کرنے کے لیے فریق جنگ بنایا گیا تھا۔کبھی ایک دن کے لیے بھی اس کو یہ حیثیت نہیں دی گئی کہ وہ حکم دے اور یہ اسے مانیں اور کوئی قدم اُٹھاتے وقت یہ اس سے استصواب کریں۔
پھر چونکہ مقابلہ ہندو سے تھا اس لیے یہ بھی ضروری تھا‘ کہ اس کے ہر حربے کا جواب ویسے ہی حربے سے‘ ہر چوٹ کا جواب ویسی ہی چوٹ سے‘ اور ہر چال کا جواب ویسی ہی چال سے دیا جائے‘ جن جن پستیوں میں وہ گرا مسلمان بھی اس کی ضد میں گرے اور جو جو کچھ وہ اپنی قومی خود غرضیوں کی خاطر کرتا گیا‘ مسلمانوں نے اس دلیل پر اس کا ارتکاب کیا‘ کہ ہندو ایسا کر رہا ہے۔ اس مقابلہ ومسابقت نے مسلمانوں کی عام اخلاقی سطح اتنی گرا دی کہ شاید اس سے پہلے وہ کبھی اخلاقی حیثیت سے اتنے نہ گرے تھے۔
یہ تو تھا ہماری اس عظیم الشان قومی تحریک کا اخلاقی ودینی پس منظر‘ اب ذرا اس کے اصل کام کا جائزہ لیجیے جو وہ قوم کو بچانے کے لیے کر رہی تھی۔
مسلمانوں کا قومی مطالبہ جو اس نے مرتّب کیا وہ یہ تھا‘ کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی عدوی اکثریت کے لحاظ سے ملک تقسیم کر دیا جائے۔ اس مطالبہ کے اندر آپ سے آپ تین باتیں شامل تھیں۔ ایک یہ کہ تقریباً آدھے مسلمان ہندوئوں کے قومی غلام بن کر رہ جائیں۔ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کی قومی ریاست دو ایسے چھوٹے چھوٹے خطوں میں بٹے‘ جن کی حیثیت ہندو ریاست کی سرحدوں پر قریب قریب وہی ہوجو پولینڈ اور چیکوسلوواکیہ جیسی ریاستوں کی حیثیت روس کی سرحد وں پر ہے۔ تیسرے یہ کہ ان دونوں خطوں کے درمیان بھی ایک ہزار میل کا ہندو علاقہ حائل ہو‘ اور ان کے درمیان نہ حالتِ امن میں پوری طرح تعاون ہوسکے نہ حالت جنگ میں یہ ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔{ FR 2560 }
اول روز ہی سے معلوم تھا‘ کہ ہندو اس مطالبہ کی سخت مزاحمت کرے گا‘ چنانچہ وہ اس نے کی اورایک طرف سے مطالبے اور دوسری طرف سے مزاحمت نے چند سال کے اندر قومی جنگ کو اتنی شدید تلخی کی حد تک پہنچا دیا‘ کہ شاید آج جرمنی اور روس‘ امریکہ اور جاپان‘ عرب اور یہود کے درمیان بھی اس سے زیادہ تلخی نہ ہوگی۔ اس قومی جنگ میں لامحالہ مسلمان ہی سب سے زیادہ نقصان اُٹھانے والے تھے۔کیونکہ ان کا پورا نصف حصّہ ہمارے اپنے مطالبہ کی رُو سے ان کے مالکانہ تصرف میں جانے والا تھا۔ پھر چونکہ اقلیت کے مسلمانوں کو بھی اس جنگ میں شریک کیا گیا تھا‘ بلکہ پیش پیش وہی تھے۔ اس لیے یقینی بات تھی کہ جنگ کے آخری مرحلوں میں اور تقسیم کے بعد ان کو بدترین مظالم کا تختہ مشق بننا پڑے گا۔ یوپی‘ بہار‘ اور دوسرے ہندو ستانی علاقوں میں کسی مکان پر’’پاکستان زندہ باد‘‘ لکھا ہونا یہ معنی رکھتا تھا‘ کہ ایک وقت میں یہی فقرے بدمست دشمنوں کو آتش زنی‘ قتل وغارت اور عصمت دری کی دعوت دیں۔
اس کے ساتھ مزید غضب یہ کہ قومی جنگ کے لیے ہم نے جو طاقت فراہم کی تھی‘ وہ نعرے‘ جھنڈے‘ جلسے‘ جلوس‘ ریزو لیوشن‘ اخباری بیانات اور سیاسی گفت وشنید سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ یہ سب ہتھیار صرف اسی حالت کے لیے موزوں ہوسکتے تھے‘ جب کہ قسمتوں کی میزان ایک تیسری طاقت کے ہاتھ میں ہو‘ اور وہ خود اپنی مصلحتوں کی خاطر توازن قائم کرنے کے لیے ایک فریق کے مقابلہ میں دوسرے فریق کے شوروغل کو وزن دینا چاہے۔ ہمارے لیڈر مدّتوں تک اس حالت میں رہتے رہتے اس کے اتنے خوگر ہوچکے تھے‘ کہ وہ سب کچھ اس کے اندر ہی سوچ سکتے تھے۔ اس حالت کے گزر جانے کے بعد دوسری حالت میں کیا کچھ درکار ہے‘ اس کا شاید انہیں کوئی اندازہ ہی نہ تھا۔ یہی وجہ ہے‘ کہ جب دوسرے حالات یکا یک پیش آگئے‘ تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ بالکل بے سرو سامان تھے۔
پچھلے سال (۱۹۴۷ء) کے آغاز تک کسی کو بھی محسوس نہ ہوا‘ کہ ہم اپنے اندر کیا کمزوریاں لیے ہوئے ہیں۔ ہماری سیاست کیا نتائج اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے‘ اور قومی جنگ کس رخ پر جا رہی ہے۔ شورو شغب اور ہنگامہ وجوش نے ایک ایسا فریب قوّت پیدا کر دیا تھا‘ کہ ہم اپنی تنظیم کو ایک مکمل تنظیم اور اپنی سیاست کو ایک ماہرانہ سیاست سمجھے بیٹھے تھے‘ اور اس وقت ہر وہ شخص ہمیں اپنا دشمن نظر آرہا تھا‘ جو سطح کے نیچے چھپے ہوئے کمزور پہلوئوں کی طرف‘ یا سر پر آئے ہوئے طوفان بلا کی طرف ذرا اشارہ بھی کر دے۔ مگر جونہی کہ تقسیم کا فیصلہ ہوا‘ یکا یک وہ ساری ہی کمزوریاں رنگ لے آئیں‘ جو ہمارے قومی اخلاق میں ہماری قومی تنظیم میں اور ہمارے سیاسی نقشے میں موجود تھیں۔
پانچ کروڑ مسلمانوں نے انتہائی بے بسی کی حالت میں‘ ایک مفتوح اور شکست خور وہ قوم کی حیثیت سے اپنے آپ کو اچانک ان ہندوئوں اور سکھوں کے چنگل میں پایا جن کے ساتھ وہ چند روز پہلے دو بدو لڑ رہے تھے۔ اس طرح جو تحریک پوری قوم کو بچانے کے لیے اُٹھی تھی‘ اس کی تدبیر مدافعت کا خلاصہ یہ نکلا کہ ایک نصف کو بچانے کے لیے دوسرے نصف کو ایسی سخت تباہی کے گڑھے میں پھینک دیا گیا‘ جس کا تصوّر بھی پہلے نہ کیا جا سکتا تھا۔
مشرقی پنجاب‘ دہلی اور اس کے آس پاس کے دوسرے علاقوں میں جب مسلمانوں پر ظلم وستم کا پہاڑ یکا یک ٹوٹ پڑا‘ تو وہ قومی تنظیم جس پر کئی سال سے مسلمان اعتماد کیے ہوئے تھے‘ ان کے لیے بالکل بیکار ثابت ہوئی۔ ہر جگہ کے مقامی لیڈروں اور قومی کارکنوں میں سے ۹۵ فی صدی سخت ناقابلِ اعتماد نکلے۔ انہوں نے عین وقت پر اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ دیا اور صرف اپنے بچائو کی فکر کی۔ ان محافظینِ قوم نے وہ اسلحہ تک جو مسلمانوں کی مدافعت کے لیے فراہم کیے گئے تھے‘ زیادہ داموں پر ہندوئوں اور سکھوں کے ہاتھوں فروخت کرنے میں تامل نہ کیا۔ انہوں نے خطرے کے علاقوں سے مسلمانوں کو بچا کر نکالنے کے بجائے‘ اپنے جانوروں اور اپنے عیش کے سامانوں کو نکال لانا زیادہ ضروری سمجھا۔ انہوں نے پاکستان کے سرکاری ٹرکوں پر پناہ گزینوں کو بٹھانے کے لیے بھی رشوتیں وصول کیں۔ انہوں نے کیمپوں میں ایک ایک دانے کے لیے ترسنے والے پناہ گزینوں کے ہاتھ بھی وہ روٹیاں مہنگے داموں بیچیں جو سرکاری خرچ پر بھیجی گئی تھیں۔
پھر مسلمانوں کے قومی اخلاق کی تعمیر سے جو غفلت برتی گئی تھی‘ اس نے اپنے بدترین نتائج پاکستان کی سرحد کے دونوں طرف دکھائے۔ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں نے بڑے بڑے علاقے محض دھمکیوں میں خالی کر دئیے‘ انہوں نے انتہائی بے غیرتی کے منظر‘ جیتے جی اپنی آنکھوں سے دیکھے‘ ایک ایک سکھ کے آگے پچاس پچاس مسلمان زمین بوس ہوئے‘ اور اس کے ساتھ عین اس قیامت ِصغریٰ کی حالت میں بھی مسلمان نے مسلمان کو لوٹنے میں‘ اور ذرا ذراسی ضرورت کی چیزیں اپنے مصیبت کے ساتھیوں کے ہاتھ بلیک مارکیٹ کے داموں بیچنے میں کوئی شرم محسوس نہ کی۔ دوسری طرف مغربی پنجاب‘ سرحد اور سندھ کے مسلمانوں نے ان کے لیڈروں اور قومی کارکنوں نے ان کے منتخب کیے ہوئے ایم ایل اے صاحبان نے اور ان سرکاری ملازموں نے جو کبھی قومی درد سے بہت تڑپا کرتے تھے۔ ہندوئوں اور سکھوں کے مال لوٹ لوٹ کر جس طرح اپنے گھر بھرے‘ اپنے پناہ گزین بھائیوں کے بسنے میں جو مشکلات پیدا کیں‘ مصیبت کے مارے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ جس بیدردی کا سلوک کیا اور پاکستان بنتے ہی بے نظمی‘ نافرض شناسی‘ رشوت‘ خیانت‘ اقر باپروری اور ظلم وبے انصافی کی جو گرم بازاری کی اسے دیکھ کر یہ بالکل عیاں ہوگیا‘ کہ سیرت واخلاق کے بغیر نرے جھنڈوں‘ نعروں اور جلوسوں کے بل پر کسی قوم کو اُٹھانے کے کیا نتائج ہوا کرتے ہیں۔
اس سارے نامۂ اعمال میں اگر کسی چیز کو نفع کے خانہ میں رکھا جا سکتا ہے‘ تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے‘ کہ انہوں نے کم از کم آدھے مسلمانوں کو تو بچا لیا اور ان کی ایک قومی ریاست بنوا دی۔ لیکن افسوس کہ اس ’’روشن‘‘کارنامے کو بھی ہم بدترین غلطیوں سے داغدار پاتے ہیں‘ اور بری طرح ان کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ تقسیم ہند کا معاملہ جس طریقے سے طے کیا گیا وہ غلطیوں بلکہ حماقتوں کا ایک مجموعہ تھا۔ سرحدات کا تعین‘ گفت وشنید سے طے کرنے کے بجائے‘ دو کمیشنوں پر چھوڑ دیا گیا۔ کمیشن کی ترکیب ایسی قبول کی گئی جس سے فیصلہ کا اختیار کلیتہً صدر کے ہاتھ میں رہ جاتا تھا صدر بھی کسی غیر جانبدار قوم کا آدمی نہیں بنایا گیا‘ بلکہ انگریز قوم سے لیا گیا‘ جو ہندوستان میں نہ غیر جانبدار تھی نہ بے غرض۔ پھر اس فیصلہ کا اعلان کرنے کے اختیارات بھی اس شخص (لارڈ مائونٹ بیٹن)کے ہاتھ میں چھوڑ دئیے گئے‘ جو صرف ہندستان کا گورنر جنرل رہ جانے والا تھا۔ اور ہماری قیادت ِعظمیٰ نے پیشگی یہ قول دیدیا ‘کہ اس فیصلے کی رُو سے جو بھی سرحدیں مقرر کر دی جائیں گی انہیں وہ بے چون وچرامان لے گی۔ اس شدید غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنگال اور پنجاب دونوں میں مسلمان اکثریت کے متعدد علاقے ہندوستان کے ساتھ ملحق کر دئیے گئے‘ مشرقی پنجاب کی پوری نو تحصیلیں جن میں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی‘ ہندوئوں اور سکھوں کے قبضہ میں چلی گئیں‘ اور سب سے زیادہ یہ کہ گورداس پور کا ضلع ہندستان میں شامل ہوگیا‘ جس کی وجہ سے کشمیر کے ہندو رئیس کو ہندوستان کے ساتھ تعلق جوڑنے کا راستہ مل گیا۔
انتقالِ اختیارات کی جو صورت لارڈ مائونٹ بیٹن نے تجویز کی تھی‘ وہ صریح طور پر پاکستان کے حق میں سخت مضر تھی‘ مگر ہماری قیادتِ عظمیٰ نے اسے بھی جوں کا توں قبول کر لیا۔ پاکستان کے حصّہ کی فوجیں جگہ جگہ منتشر تھیں‘ اس کے حصے کا سامان اور فوجی ذخائر بھی ہندستان کے قبضے میں تھے‘ اس کے حصے کا سرمایہ بھی ہندوستان ہی کے ہاتھ میں تھا اس کے دفاتر اور اس کا عملہ تک ابھی پوری طرح منتقل نہ ہوا تھا‘ اور اس حالت میں پاکستان کی مستقل مملکت نظم ونسق اور دفاع کی پوری ذمّہ داری کے ساتھ قائم کر دی گئی۔ آج یہ اس حماقت کا نتیجہ ہے‘ کہ اپنی قوم کے جس آدھے حصے کو انہوں نے ہندو اقتدار کے چنگل سے نکالا ہے وہ بھی اس کے دبائو سے پوری طرح آزاد نہیں ہوسکا۔ جونا گڑھ پر انہوں نے زبردستی قبضہ کیا اور ہم اپنی بے بسی کی وجہ سے انگلی تک نہ ہلا سکے۔ کشمیر کے مسلمانوں کو وہ ہمارے سامنے پا مال کر رہے ہیں‘ اور ہم ان کے مقابلہ میں کھل کر لڑنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ ہماری کنی ان سے دبی ہوئی ہے‘ اور ہم ہر موقع پر ان سے دبتے چلے جا رہے ہیں۔
آج ایک سال کے بعد کہا جا رہا ہے‘ کہ یہ سب کچھ مائونٹ بیٹن نے اپنی زبردستی سے کیا تھا‘ اور ہم اس پر راضی نہ تھے۔مگر سوال یہ ہے‘ کہ جب یہ زیادتی کی جا رہی تھی‘ اور آپ دیکھ رہے تھے‘ کہ مائونٹ بیٹن ہماری بربادی کے سامان کر رہا ہے۔اس وقت آپ کی زبان کہاں چلی گئی تھی؟کیوں نہیں آپ نے اپنی قوم اور ساری دنیا کو اس شرارت کی اطلاع دی؟کیوں آپ خاموشی کے ساتھ وہ سب کچھ قبول کرتے چلے گئے جو مسلمانوں کے لیے سخت تباہ کن تھا؟کیوں آپ نے اسی وقت یہ اعلان نہ کیا کہ یہ سب کچھ مائونٹ بیٹن اپنی ذمّہ داری پر کر رہا ہے‘ اور ہم برضا ورغبت اس کی ذمّہ داری میں شریک نہیں ہیں؟صرف یہی نہیں کہ اس وقت آپ خاموش رہے۔ بعد میں جب اس غلط طرز تقسیم کے سخت ہولناک نتائج رونما ہوگئے‘ اور لاکھوں مسلمانوں کو اس کا بدترین خمیازہ بھگتنا پڑا‘ اس وقت بھی آپ نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی۔
جیسا کہ ہم ابتدا میں کہہ چکے ہیں‘ دس سال پہلے مسلمانوں کے سامنے یہ سوال آیا تھا‘ کہ وہ ہندو سامراج کے تسلّط سے اپنے آپکو کیسے بچائیں۔ اس سوال کا ایک حل یہ پیش کیا گیا تھا‘ کہ اسلام کے اصولوں اور اسلامی سیرت کی طاقت سے‘ اس خطرے کا مقابلہ کیا جائے۔ مگر اس حل نے مسلمانوں کو اپیل نہ کیا اور وہ اسے آزمانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اب یہ بحث بیکار ہے‘ کہ اسے آزما یا جاتا تو کیا ہوتا‘ دوسرا حل جو پیش کیا گیا وہ یہ تھا‘ کہ قومیّت کی بنیاد پر سیاسی جنگ لڑی جائے۔ اسی حل کو مسلمانوں نے قبول کیا اور اپنی ساری قومی طاقت‘ اپنے تمام ذرائع اور اپنے جملہ معاملات اس قیادت کے حوالے کر دئیے جو ان کے قومی مسئلے کو اس طرح حاصل کرنا چاہتی تھی۔ دس برس کے بعد آج اس کا پورا کارنامہ ہمارے سامنے ہے‘ اور ہم دیکھ چکے ہیں‘ کہ اس نے کس طرح کس صورت میں ہمارے مسئلے کو حل کیا۔ جو کچھ ہوچکا ہے وہ تو امٹ ہے اب اسے بدلا نہیں جا سکتا۔ اس پر اس حیثیت سے تو بحث بیکار ہے‘ کہ یہ نہ کیا جاتا تو کیا ہوتا۔ البتہ اس حیثیت سے اس پر بحث کرنا ضروری ہے‘ کہ جو مسائل اب ہمیں درپیش ہیں‘ کیا ان کے حل کے لیے بھی وہی قیادت موزوں ہے‘ جو اس سے پہلے ہمارے قومی مسئلے کو اس طرح حل کر چکی ہے؟کیا اس کا اب تک کا کارنامہ یہی سفارش کرتا ہے‘ کہ اب جو بڑے بڑے اور نازک مسائل ہمارے سر پر آپڑے ہیں‘ جن کا بیشتر حصّہ خود اسی قیادت کی کار فرمائیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے انہیں حل کرنے کے لیے ہم اس پر اعتماد کریں؟ (ترجمان القرآن۔ جولائی ۱۹۴۸ء)
ؕ
خ خ خ