مسلمان اس وقت بحیثیت ایک قوم کے جن بڑے بڑے مسائل سے دو چار ہیں ان کا ابھی تک پوری طرح جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ ہمارے سوچنے سمجھنے والے طبقے ان مسائل کا کچھ نہ کچھ ادراک ضرور رکھتے ہیں‘ اور ان پر غور وفکر کرتے بھی رہتے ہیں‘ لیکن عام طور پر جو بحثیں پڑھنے اور سننے میں آتی ہیں ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے‘ کہ نہ تو ان مسائل کا پورا احاطہ کیا گیا ہے‘ اور نہ ان کا تجزّیہ کر کے دیکھا گیا ہے‘ کہ ان میں سے ہر ایک مسئلہ کیا نوعیت رکھتا ہے‘ کیا اس کے اسباب ہیں کیا اس کی اہمیت ہے‘ اور کس طرح وہ حل ہوسکتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ قوم بحیثیت مجموعی اب تک اپنے اصل مسائل سے غافل ہے۔ پھر ہمارے اندر ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے‘ جن کی خواہش اور کوشش یہی ہے‘ کہ قوم کو ان مسائل سے غافل کیا اور رکھا جائے۔ وہ اس کی توجہ ان سے ہٹا کر ہنگامی معاملات کی طرف پھیرتے رہتے ہیں‘ وہ اسے اب تک وہی نشہ پلائے جا رہے ہیں‘ جو آزادی سے پہلے پلا رہے تھے۔ وہ اسے تھپکیاں دے دے کر مطمئن کر رہے ہیں‘ کہ یہ مسائل یا تو موجود ہی نہیں ہیں‘ یا ہیں بھی تو ان کے لیے کچھ زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ باتیں خواہ نادانی کے ساتھ کی جا رہی ہوں‘ یا ہوشیاری کے ساتھ اور خواہ کسی پارٹی کی اغراض کے لیے یہ کتنی ہی مفید ہوں‘ بہرحال قوم کی خیر خواہی کا ان میں شائبہ تک نہیں ہے۔ قومی بھلائی اسی میں ہے‘ کہ اس کے سامنے واضح طور پر وہ سارے مسائل رکھ دیے جائیں‘ جن سے اس کو عہدہ بر آہونا ہے۔ پھر اسے یہ سوچنے کی دعوت دی جائے کہ آیا وہ اپنی موجودہ حالت میں ان مسائل سے عہدہ برا ہونے کے قابل ہے‘ یا نہیں۔ اگر ہے‘ تو الحمد ﷲ اور نہیں ہے‘ تو اسے لامحالہ اپنے اندر تبدیل کرنی ہوگی‘ اور غور کرنا پڑے گا کہ وہ تبدیلی کس نوعیت کی ہو۔
ہمارے لیے اس وقت سب سے زیادہ نازک اور سب سے بڑھ کر دل خراش مسئلہ ان مسلمانوں کا ہے‘ جو تقسیمِ ملک کے بعد ہندستان میں رہ گئے ہیں۔ تقسیم کے وقت ان کی تعداد پانچ کروڑ کے لگ بھگ تھی یعنی ہماری قوم کا پورا نصف حصّہ تقسیم کے بعد ان میں سے کئی لاکھ فنا کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ ایک بڑی تعداد جبراً غیر مسلم بنا لی گئی‘ ساٹھ ستر لاکھ پاکستان میں دھکیل دئیے گئے‘ اور دس پندرہ لاکھ کو حیدر آباد میں پناہ لینی پڑی۔{ FR 2561 }اب اندازہ کیا جاتا ہے‘ کہ چار کروڑ مسلمان ہندستان میں باقی ہیں۔ یہ باقی ماندہ مسلمان آج انڈین یونین میں وہی حیثیت رکھتے ہیں‘ جو روس کے ما تحت مفتوح جرمنوں کی اور امریکہ کے ماتحت شکست خوردہ جاپانیوں کی ہے۔ دس سال کی تلخ وتیز قومی جنگ کے بعد اب وہ بالکل بے بسی کے ساتھ اپنے سابق حریفوں کے قبضے میں ہیں۔ انہیں ’’پاکستان زندہ باد‘‘کی وہ قیمت دینی پڑ رہی ہے‘ جو ان کے شہری حقوق ہی کو نہیں‘ انسانی حقوق تک کو کھا گئی ہے۔ وہ سب ’’غذار‘‘ اور سب ’’جاسوس‘‘ ہیں۔ ہر ایک کی وفا داری مشتبہ ہے۔ ہر ایک کے لیے خانہ تلاشی اور گرفتاری مقدر ہے اِلاّیہ کہ کسی کی باری آنے میں ابھی کچھ دیر ہو۔ پوری قوم اصل میں یر غمال بن چکی ہے۔ اس کے لیے عزت کی زندگی کا دروازہ بند ہے‘ اور صرف تین راستے کھلے ہوئے ہیں‘ یا تو برضا ورغبت مرتد ہوجائے‘ یا اچھوتوں سے بدتر حالت میں رہے‘ یا پھر خاموشی کے ساتھ‘ ان سب تدبیروں کو برداشت کرتی چلی جائے‘ جو اس کی امتیازی ہستی کو مٹانے اور اسے ہندو قومیّت میں جذب کرنے کے لیے عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ یہ حالت اگریوں ہی جا ری رہی تو مستقبل قریب میں مسلمان ہندستان سے اسی طرح غائب ہوجائیں گے جس طرح وہ اَندلس(اسپین) اور صقلیہ (سسلی) سے غائب ہوچکے ہیں۔لاقدّر اﷲ۔
چار کروڑ مسلمانوں کی یہ عظیم الشان قوم اس وقت بالکل بے سہارا ہے۔ جس سیاست پر اب تک اس کا مدارِ کار تھا‘ اس کی بساط انقلاب کے ایک ہی پلٹے نے اُلٹ دی جس قومی تنظیم پر اس کا سارا اعتماد تھا وہ طوفان کا ایک تھپیڑ ابھی نہ سہ سکی‘ جن لیڈروں کے ہاتھ میں وہ اپنے معاملات سونپ کر مطمئن ہوبیٹھی تھی‘ وہ اس کے لیے بالکل بے کار ثابت ہوئے۔ ان کے کچھ اکابر تو خاموشی کے ساتھ اُٹھ کر پاکستان چلے آئے اور باقی اکابرواصاغر سب دشمنوں کے آگے تو بہ واستغفار کرنے میں مشغول ہوگئے۔ سیرت واخلاق کے بغیر جو لوگ محض نعروں کے بل پر لیڈر بنے تھے‘ وہ زمانے کا رخ بدل جانے کے بعد ایک دن بھی اپنے قبلے کی سمت استوار نہ رکھ سکے۔ انقلاب کی پہلی ہی رات وہ اپنے ان نظریات اور اصولوں کو طلاق مغلظ دے بیٹھے‘ جن پر دس سال سے وہ اپنی قوم کو لڑا رہے تھے۔ دو قومی نظریہ یک لخت ان کے نزدیک باطل ہوگیا۔ یک قومی نظرئیے کی صداقت اچانک ان پر منکشف ہوگئی۔ ترنگے جھنڈے کی عقیدت یکا یک ان کے دل میں گھر کر گئی۔ چند روز کے اندر ان مجاہدینِ ملّت کو‘ وطن پرستی میں ایسا شرح صدر نصیب ہوا کہ ان کے حلقے سے مخلوط ہندو مسلم شادیوں تک کی تجویزیں آنے لگیں‘ تاکہ مسلم وہندو کے اندر سے یہ کم بخت ’’من دیگرم تو دیگری‘‘کا احساس تو کسی طرح دور ہو! اس پورے گروہ میں سے ایک کوہ کن بھی نہ نکلا جو بازی کھونے کے بعد سردے سکتا۔ ساری جماعت بازی گروں سے پٹی پڑی تھی جنہوں نے عجیب عجیب قلابازیاں کھا کر‘ دنیا کو اپنی بودی سیرت اور کھوکھلے اخلاق کا تماشا دکھایا‘ اور اس قوم کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی‘ جس کے وہ نمائندے بنے ہوئے تھے۔
اس سے مایوس ہوکر اس ڈوبتی ہوئی قوم نے ان تنکوں کا سہارا لینا چاہا جو پہلے سے کانگریسی دریا کی سطح پر تیر رہے تھے‘ مگر اب وہ بھی اس کے لیے بے کار ثابت ہورہے ہیں ان میں سے ایک گروہ اب بھی وہی رائے رکھتا ہے‘ کہ مسلمان اپنے امتیازی وجود کو خود بھول جائیں‘ اور ہندی قومیّت میں اپنے آپ کو گم کر دیں۔ ظاہر ہے‘ کہ یہ تحفظ ذات کا نہیں‘ بلکہ ’’آسا ن بمیری‘‘ کا نسخہ ہے‘ جو مسلمان کے مزاج کو نہ پہلے راس آیا تھا‘ اور نہ اب راس آسکتا ہے۔دوسرا گروہ کچھ مسلمان کے ’’مستقل وجود‘‘ اورکچھ اس کے ’’حقوق‘‘ کا بھی تصوّر رکھتا ہے‘ مگر یہ نام زبان پر آتے ہی پرانے سے پرانا کانگریسی مسلمان بھی ہندو قوم پرستوں کی نگاہ میں بس ایک نقاب پوش مسلم لیگی بن کر رہ جاتا ہے۔
ہندستان کے ان مسلمانوں کا مسئلہ اس وقت درحقیقت ہماراسب سے بڑا قومی مسئلہ ہے‘ تقسیم نے ہمیں کاٹ ضرور دیا ہے‘ مگر وہ ہیں ہماری ہی قوم کا ایک حصّہ‘ اور معمولی نہیں پورا ۵/۲ حصہ۔ ان کو ہم یوں ہی مٹنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کا ہم پر سب سے بڑا حق ہے‘ اس لیے کہ جس پاکستان سے ہم متمتع ہورہے ہیں اس کی اصل قیمت انہی نے ادا کی ہے۔ وہ اس لیے بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہیں‘ کہ ہمارا بہترین مردم خیز حصّہ وہی ہیں۔ انہیں اس بنا پر بھی نذر تغافل نہیں کیا جا سکتا‘کہ ہماری ہزار سالہ تہذیب کے تمام چیدہ ثمرات اور ہمارے تمام بڑے بڑے معاہد (institutions)اور تہذیبی مراکز کے امانت دار وہی ہیں‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آخر ہم ٹھنڈے دل سے یہ بات کیسے گوارا کر سکتے ہیں‘ کہ ہمارے اسلاف نے پچھلے ایک ہزار سال میں جو محنتیں اور جو جانفشانیاں اسلام کے پیغام کو اکناف ہند میں پھیلانے کے لیے کی ہیں‘ ان سب پر پانی پھر جائے‘ اور توحید کی دعوت سمٹ کر بر عظیم ہند کے صرف دو چھوٹے چھوٹے خطوں میں محدود ہوجائے۔ لہٰذا کوئی شخص بے پروائی کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتاکہ ہندستان کے مسلمانوں کا مسئلہ ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ نہیں یہ پاکستان کا بھی ویسا ہی مسئلہ ہے‘ جیسا ہندستان کے مسلمانوں کا ہے‘ اور فی الواقع یہ اس پوری ملّت اسلامیہ کا مسئلہ ہے‘ جو اس مصنوعی تقسیم کے باوجود‘ اب بھی ہندوستان اور پاکستان میں ایک ہی ملّت ہے۔
اب سوال یہ ہے‘ کہ ان چار کروڑ مسلمانوں کوبچانے ‘اور ہندستان میں اسلام کی دعوت کو زندہ اور تازہ رکھنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟اب تک چونکہ قومی حیثیت سے ہمارا مدار کار بالکل مسلم لیگ کے نظام اور اس کی قیادت پر رہا ہے‘ اس لیے یہ سوال لازماًاسی کی طرف پھرتا ہے‘ کیا تقسیم سے پہلے مسلم لیگ کی قیادت عظمیٰ نے اس مسئلے کا کوئی حل تجویز کیا تھا؟ کیا تقسیم کے بعد ہندستان میں مسلم لیگ کی سیاست اور قیادت کے لیے کام کرنے کا اب کوئی موقع ہے؟کیا پاکستانی مسلم لیگ اس بارے میں اپنے پاس کوئی لائحہ عمل رکھتی ہے؟کیا پاکستان کی موجودہ حکومت اس قابل ہے‘ کہ ہندستانی مسلمانوں کی قسمت پر کوئی اچھا اثر ڈال سکے‘ یا ہندستان میں اسلام کے مستقبل کو درخشاں نہیں‘ تو کم از کم محفوظ ہی کرنے کے لیے کچھ کر سکے؟اگر ان سوالات کا کوئی جواب ہے‘ تو اسے معلوم کر کے ہم بہت خوش ہوں گے۔ اگر نہیں ہے‘ تو اس کے صاف معنی یہ ہیں‘ کہ جب تک ہمارے قومی معاملات کی سر براہ کاری‘ موجودہ سیاست وقیادت کے ہاتھ میں ہے اپنی ملّت کے اس سب سے بڑے مسئلے کا کوئی حل ہمارے لیے ممکن نہیں ہے‘ اور یہی سیاست وقیادت ہماری سر براہ کار رہی تو ہمیں چند سال کے اندر یہ دیکھنے کے لیے تیار رہنا چاہئے‘ کہ واہگہ سے راس کماری تک اور مشرقی بنگال کی سرحدوں سے کاٹھیاواڑ کے سواحل تک پورا علاقہ اسلام سے خالی ہوجائے۔
دوسرے مسائل پاکستان سے متعلق ہیں۔ عموماً ان سب مسائل کو لپیٹ کر صرف ایک بڑا مسئلہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے‘ جس کا عنوان ہے ’’پاکستان کا دفاع اوراستحکام‘‘۔اور اس کا حل یہ پیش کیا جاتا ہے‘ کہ سب پاکستانی مل کر ایک ہوجائیں‘ اور فوجی حیثیت سے مضبوط ہوں۔ لیکن تھوڑا سا تجزّیہ کرنے ہی پر یہ بات کھل جاتی ہے‘ کہ پاکستان کا دفاع واستحکام کوئی ایک سادہ سا مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ بہت سے مسائل کا مجموعہ ہے‘ اور اس کا حل بھی اتنا سادہ نہیں ہے جتنا اسے سمجھ لیا گیا ہے۔ کیا ایک ملک جس کے اخلاق کو گھن لگا ہوا ہومحض اسلحہ اور فوجی تربیت کے بل پر کھڑا ہوسکتا ہے؟ کیا ایک ملک جس کے عناصر ترکیبی کو ایک دوسرے سے پھاڑنے اور باہم متصادم کرنے کے لیے بہت سے طاقت ور اساب موجود ہوں بس ’’ایک ہوجائو‘‘کی تسبیحیں پڑھنے سے واقعی ایک ہوسکتا ہے؟ پس بجائے اس کے کہ ہم سادگی وسادہ لوحی سے خود کام لیں یا دوسروں کو سادہ لوح فرض کر کے ان کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے اور فرضی مسائل کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں ہمیں واضح طور پر یہ دیکھنا چاہئے کہ فی الواقع پاکستان کا بقاو تحفظ اور اس کا استحکام کن مسائل سے وابستہ ہے‘ اور ہم کس طرح انہیں حاصل کر سکتے ہیں۔
اولین مسئلہ ملک کے اخلاق کا ہے‘ جو تشویش ناک حد تک گرچکے ہیں۔ ہماری تمام مشکلات میں سب سے زیادہ اخلاق ہی کی خرابیاں کار فرما ہیں۔ اس بگاڑ کا زہرا تنے وسیع پیمانے پر ہماری سوسائٹی میں پھیل گیا ہے‘ اور اتنا گہرا اتر چکا ہے‘ کہ اگر ہم اسے اپنا قومی دشمن نمبر ایک قرار دیں تو ہر گز مبالغہ نہ ہوگا۔ کوئی بیرونی خطرہ ہمارے لیے اتنا خوف ناک نہیں ہے جتنا یہ اندرونی خطرہ ہے۔ یہ ہماری قوّت حیات کو کھا گیا ہے‘ اور کھائے چلا جا رہا ہے۔
پچھلے سال کے فسادات میں بداخلاقی کا جو طوفان اُٹھا تھا وہ ہماری آبادی کے ایک بہت بڑے حصّہ کو بہا لے گیا۔ قتل وخون‘ آتش زنی اور عورتوں کے بھگانے کی مشق تو شاید ہزاروں ہی کو ہوئی ہوگی لیکن لوٹ مار کی آلائش نے لاکھوں کو ملوث کر کے چھوڑا۔ اس اخلاقی زوال کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے‘ کہ ایک گائوں کی ڈھائی ہزار آبادی میں صرف ایک شخص ایسا نکلا جس نے لوٹ میں حصّہ لینے سے پرہیز کیا تھا‘ اور ایک قصبہ کے ساتھ سو گھر میں سے بمشکل۳۵ گھر ایسے پائے گئے‘ جن میں لوٹ کا مال نہ پہنچا تھا۔پھر ان لیٹروں میں محض جاہل عوام اور بازاری لوگ ہی شامل نہ تھے۔ بڑے بڑے شرفا اور معززین‘ اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ‘ سوسائٹی اور حکومت میں بڑے مرتّبے رکھنے والے حضرات بھی اسی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے‘ بلکہ وہ تو اس میں خوب جی بھر کر نہائے۔ پولیس کے چھوٹے بڑے افسر‘ امن وانتظام کے ذمّہ دار مجسٹریٹ‘ حکومت کے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدہ دار بڑے بڑے نامور قومی کارکن‘ اسمبلی کے ممبر اور بعض وزرا تک اس گندگی میں غوطہ لگا گئے۔ یہ واقعات کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ ایک دنیا ان کو جانتی ہے‘ اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے کچھ حاصل نہیں۔ یہ حقیقت اب کھل چکی ہے‘ کہ ہمارے اخلاق کے جوڑ بند بری طرح ڈھیلے ہوگئے ہیں۔ ہم میں ہزارہا آدمی ایسے موجود ہیں‘ جو قتل وخون کے مشاق ہوچکے ہیں ہزاروں ایسے لوگ ہیں‘ جو موقع ملنے پر بدسے بدتر جرائم کا ارتکاب کر سکتے ہیں‘ اور نیچے سے لے کر اونچے طبقوں تک کم از کم ۹۵ فی صدی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں حرام کا مال سمیٹنے میں قطعاً کوئی تامل نہیں ہے بشرطیکہ اُنہیں قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کا اطمینان ہو۔
ان حالات میں ہمارے لیے یہ کوئی وجہ تسلی نہیں ہے‘ کہ اس سے بدر جہا زیادہ بدتر اخلاقی صفات کا ظہور ہندستان میں ہندوئوں اور سکھوں سے ہوا ہے۔ جو زہر انہوں نے کھایا اس کی فکر انہیں ہویا نہ ہو‘ ہمیں تو اس زہر کی فکر ہے‘ جو ہماری رگوں میں اتر گیا ہے کیا مشاق مجرموں اور بے باک خائنوں کی اتنی کثیر تعداد اپنے اندر لیے ہوئے ہم اپنی قومی زندگی کو مستحکم بنا سکتے ہیں؟کیا وہ بداخلاقیاں جو کل غیروں کی جان مال اور عصمت کے معاملے میں برتی گئی تھیں‘ ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئیں اور اپنا کوئی پائیدار اثر ہماری سیرت وکردار پر نہیں چھوڑ گئیں؟کیا یہ بگڑے ہوئے اخلاق اب خود اپنوں پر ہاتھ صاف کرنے سے رکے رہ جائیں گے؟
ایک سال کا تجربہ ہمیں بتا رہا ہے‘ کہ جس اخلاقی زوال کی خبر گزشتہ فسادات نے دی تھی‘ وہ وقتی اورمحدود نہ تھا۔ دراصل وہ ایک نہایت خوف ناک مرض کی حیثیت سے ہمارے اندر اب بھی موجود ہے‘ اور ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے کو خراب کر رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جو دشواریاں فطرۃ ًایک نئی مملکت کو پیش آیا کرتی ہیں‘ وہ تو ہمیں پیش آنی ہی تھیں۔ اور جو مصائب انگریز ہندو اورسکھ کی باہمی سازش سے ہم پر نازل ہوئے وہ بھی اپنی جگہ تھے‘ لیکن یہ سب کچھ بڑی آسانی سے انگیز کیا جا سکتا تھا‘ اگر ہمارے عوام وخواص اور ہمارے سر براہ کاروں کے اخلاق اتنے بگڑے ہوئے نہ ہوتے۔ یہ واقعہ ہے‘ اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ اخلاق کی خرابیوں نے ہماری مشکلات اور مصیبتوں کو جتنی کہ وہ تھیں‘ اصل سے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا۔
مثال کے طور پر ’’مہاجرین‘‘ کے مسئلے کو لیجیے‘ جو پاکستان بنتے ہی ایک پہاڑ کی طرح ہم پر نازل ہوا۔ بلا شبہ ایک ملک کے لیے اس سے بڑی کوئی مصیبت نہیں‘ کہ اس پر ساٹھ ستر لاکھ بے سرو سامان آدمی ایک لخت لاکر ڈال دئیے جائیں۔ لیکن غور سے دیکھئے کہ اس طرح جو مشکلات حقیقتہً رونما ہوئی تھیں‘ ان پر کتنا اضافہ ہماری اپنی اخلاقی خرابیوں نے کر دیا۔{ FR 2562 }ہندوئوں اور سکھوں نے جو عمارات‘ سامان‘ اموال‘ دکانیں‘ کارخانے‘ زمینیں اور دوسری چیزیں پاکستان میں چھوڑی تھیں‘ اگر ان پر خود پاکستان کے باشندے‘ حکومت کے عمال اور قومی کارکن قبضے کر کے نہ بیٹھ جاتے‘ تو کیا مہاجرین کو بسانے میں ہم کو وہی دقتیں پیش آسکتی تھیں جن سے اب ہم دو چار ہیں؟مغربی پنجاب اور سرحد اورسندھ کی حکومتوں سے پوچھئے کہ جانے والوں نے کیا کچھ چھوڑا تھا‘ اور اس کا کتنا حصّہ آنے والوں کو دیا گیا‘ اور کتنا حصّہ کن کن غیر مستحقین کو پہنچا؟اگر یہ اعدادو شمار روشنی میں آجائیں‘ تو دنیا یہ دیکھ کر ونگ رہ جائے‘ کہ مہاجرین کے مسئلے کا جو زخم غیروں نے ہم کو لگایا تھا اسے سرطان کا پھوڑا بنا دینے والے دراصل کون لوگ ہیں۔ نہیں کہا جا سکتاکہ اس حمام میں آپ کس کس کو برہنہ دیکھیں گے۔
پھر جو لوگ کل تک ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے‘ جن سے بڑھ کر قوم کے درد میں تڑپنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا‘ اور جو آج بھی زبان سے بہت بڑے ’’مجاہد ملت‘‘ بنے ہوئے ہیں‘ ان میں عظیم الشان اکثریت آپ کو ایسے افراد کی نظر آئے گی‘ جو پاکستان بننے کے بعد ہر زاویے سے اس کی کشتی میں سوراخ کیے جا رہے ہیں۔ یہ رشوت خوریاں‘ یہ خیانتیں‘ یہ غبن‘ یہ قومی خرچ پر اقربا پر وریاں اور دوست نوازیاں‘ یہ فرائض سے غفلت‘ یہ ڈسپلن سے گریز‘ یہ غریب قوم کی دولت پر عیاشیاں‘ جن کا ایک طوفان سا ہمارے نظامِ حکومت کے ہر شعبے میں برپا ہے‘ اور جس میں بکثرت چھوٹے اہل کاروں سے لے کر بہت سے عالی مقام حکام اور وزرا تک آلودہ ہیں کیا یہ سب پاکستان کو مضبوط کرنے والی چیزیں ہیں؟ یہ دکانوں اور کارخانوں کی ناجائز تقسیم جس کی بدولت ملک کی صنعت وتجارت کا بڑا حصّہ نااہل اور ناتجربہ کار ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ کیا یہ پاکستان کی طاقت کو مستحکم کرنے والی چیز ہے؟ یہ پبلک کا بالعموم حکومت کے ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرنا اور ان سے بچنے کے لیے نیز دوسرے ناجائز فوائد حاصل کرنے کے لیے سرکاری ملازموں کو رشوتیں دینا‘ اور جہاں بھی قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی اُمید ہوپبلک فنڈ کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے میں بھی تامل نہ کرنا‘ کیا یہی وہ چیزیں ہیں‘ جن سے پاکستان مضبوط ہوسکتا ہے؟ ملک کے باشندوں کی اخلاقی حالت اس قدر گر چکی ہے‘ کہ ہندستان سے آنے والے مہاجرین کی لاشیں جب واہگہ اور لاہور کے درمیان پڑی سڑ رہی تھیں اور کیمپوں میں بھی موت کا بازار گرم تھا اس وقت ۱۲-۱۳ لاکھ مسلمانوں کے شہر میں سے چند ہزار نہیں‘ چند سو آدمی بھی ایسے نہ نکلے جو اپنے بھائیوں کو دفن کرنے کی زحمت اُٹھاتے۔ متعد مثالیں ہمارے علم میں ایسی ہیں‘ کہ کوئی مہاجر مر گیا ہے‘ اور اس کے عزیزوں کو نماز جنازہ پڑھنے کے لیے اُجرت پر آدمی فراہم کرنے پڑے ہیں‘ یہاں تک بھی نوبت پہنچی ہے‘ کہ سرحد کے قریب کسی گائوں میں مہاجرین کو زمینیں دی گئیں‘ اور مقامی مسلمانوں نے سرحد پار سے سکھوں کو بلا کر ان پر حملہ کر ا دیا‘ تاکہ یہ بھاگ جائیں‘ اور زمین ہمارے قبضہ میں رہ جائے۔ حد یہ ہے‘ کہ قوم کی جو بیٹیاں ہندستان کے ظالموں سے بچ کر آگئی تھیں‘ ان کی عصمتیں یہاں خود اپنے بھائیوں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہ سکیں اس قسم کے واقعات شاذ نہیں ہیں‘ بلکہ بکثرت ہمارے علم میں آئے ہیں‘ اور ان شرم ناک جرائم کے مرتکب صرف عام شہد ے{ FR 2563 } ہی نہیں تھے… کیا اتنے شدید اخلاقی تنزل کے ہوتے ہوئے ہم یہ اُمید کر سکتے ہیں‘ کہ کسی بڑی اندرونی یا بیرونی مصیبت کے مقابلے میں ہم مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوسکیں گے؟ اور کیا یہ اخلاقی تنزل اپنے ملک کی تعمیر کے لیے ہماری کسی اسکیم کو کامیابی کے ساتھ چلنے دے گا؟
تھوڑی دیر کے لیے ہم اس سوال کو جانے دیتے ہیں‘ کہ ہماری قیادت نے سیاسی تحریک کے ساتھ قوم کی اخلاقی طاقت کو سنبھالنے کی فکر کیوں نہ کی؟ ہم پوچھتے ہیں‘ کہ اب وہ اس کے لیے کیا کر رہی ہے؟ اخلاق بنانے اور سنوارنے کا کیا سرو سامان اس کے پاس ہے؟ کیا تدابیر اس کے پیشِ نظر ہیں؟ کیا لائحہ عمل اس نے بنایا ہے؟یہ ایک اہم سوال ہے‘ جس کا واضح جواب ہمیں ملنا چاہئے۔اگر اس کے جواب میں ان نصائح کی طرف اشارہ کیا جائے‘ جو کبھی کبھی ریڈیو اور سرکاری پریس اور تقریروں کے ذریعہ سے پبلک کو اور حکومت کے چھوٹے اہل کاروں کو کی جاتی رہتی ہیں‘ تو ہم پہلے ہی کہے دیتے ہیں‘ کہ اس طرح کی طفل تسلیوں سے ہمیں معاف رکھا جائے۔ اس لیے کہ بداخلاقی کے اصل سرچشمے تو خود قصرِ قیادت کے ستونوں میں شامل ہیں۔ کار فرمائی اور کار پردازی کی باگیں تو اس وقت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں‘ جن کی بڑی اکثریت ہی کے دم قدم سے بداخلاقی کا بازار گرم ہے۔ پھر بھلا خیانت کی زبان سے امانت کا سبق‘ خود غرضی کی زبان سے ایثار کا وعظ‘ اور گناہ کی زبان سے نیکی کا درس‘ انسانی فطرت نے کب قبول کیا ہے‘ کہ یہاں اس کے کارگر ہونے کی توقع کی جائے!
دوسرا مسئلہ جو پاکستان کی زندگی‘ اس کے بقا اور اس کے استحکام کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے‘ کہ پاکستان جن عناصر پر مشتمل ہے انہیں کس طرح جوڑ کر ایک بنیان مرصوص بنایا جائے؟یہ عناصر اس وقت شدت کے ساتھ مائل انتشار نظر آرہے ہیں‘ اور ظاہر ہے‘ کہ کسی چیز کے عناصر ترکیبی ہی اگر مجتمع اور باہم پیوستہ نہ ہوں‘ تو اس کے وجود کا بر قرار رہنا سخت دشوار ہوتا ہے۔ اس کے اجزائے وجود میں پراگندگی کا رُجحان یہ معنی رکھتا ہے‘ کہ اس کی اپنی تعمیر ہی میں خرابی کی صورت مضمر ہے۔ لہٰذا اگر یہ واقعہ ہے‘ اور کون ہے‘ جو اس کا انکار کر سکتا ہوکہ پاکستان کے ترکیبی عناصر میں جمع وتالیف کے بجائے کچھ انتشار وپراگندگی کے رُجحانات پائے جاتے ہیں‘ اور کچھ قوّتیں ان کو بڑھانے میں لگی ہوئی ہیں‘ تو ہمیں سمجھنا چاہئے‘ کہ ہمارے بند ِاستحکام‘ بلکہ عین ہماری بندشِ وجود ہی میں ایک خطر ناک رخنہ موجود ہے‘ جسے دور کیے بغیر ہم اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
پاکستان جن عناصر پر مشتمل ہے ان میں تین تفریقیں اس وقت بالکل نمایاں ہیں۔
پہلی تفریق مہاجرین اور غیر مہاجرین کے درمیان ہے۔ ہماری آبادی میں مہاجرین کی تعداد اس وقت ۷۰ لاکھ سے متجاوز ہوچکی ہے‘ اور یہ تعداد روزافزوں ہے‘ کیونکہ ہندستان کے ہر حصّہ سے مسلمان اکھڑا کھر کر برابر پاکستان کی طرف چلے آرہے ہیں۔ مشرقی ہند کے لوگوں کا رخ مشرقی پاکستان کی طرف ہے‘ اور باقی ہندستان کے لوگ مغربی پاکستان کی راہ لے رہے ہیں۔{ FR 2564 }یہ نیا عنصر اب ہماری آبادی کا ایک مستقل عنصر ہے‘ اور تعداد کے لحاظ سے کوئی معمولی عنصر نہیں ہے۔ لیکن متعدد اسباب ایسے ہیں‘ جو نئے اور پرانے عناصر کو مل کر‘ ایک قوم بننے سے روک رہے ہیں۔ کچھ تو زبان‘ تہذیب‘ معاشرت اور عادات وخصائل کے قدرتی اختلافات ہیں‘ جو بہرحال ایک مدّت تک یگانگت میں مانع ہوا ہی کرتے ہیں۔ مگر ان پر غیر معمولی اضافہ جس چیز نے کر دیا ہے وہ یہ ہے‘ کہ مہاجرین اور غیر مہاجرین دونوں میں جاہلیت کے تعصّبات اور نفسانی خود غرضیاں کار فرما ہیں۔ یہ چیز ہر جگہ ان دونوں عناصر کو پھاڑ رہی ہے‘ ان کو مخالف جتھوں کی شکل میں منظم کر رہی ہے ان کے درمیان آویزش کی صورتیں پیدا کر رہی ہے‘ اور دونوں طرف کے تنگ نظر اور خود غرض مفسدین ان کو باہم لڑا رہے ہیں۔{ FR 2565 }
دوسری تفریق جغرافی‘ نسلی اور لسانی ہے۔ پاکستان اوّل تو دو ایسے خطوں پر مشتمل ہے‘ جن کے درمیان ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ پھر یہ خطے بھی اپنی اپنی جگہ اندرونی وحدت نہیں رکھتے‘ بلکہ مختلف اجزا سے مرکب ہیں‘ اور ہر جُزو دوسرے جزوکے خلاف تعصّب رکھتا ہے۔ اس وقت درحقیقت ہم ایک قوم نہیں ہیں‘ پانچ مختلف قومیں ہیں‘ جو مصنوعی طور پر ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوگئی ہیں‘ یعنی سندھی‘ بلوچی‘ پٹھان‘ پنجابی اور بنگالی۔ ان میں سے ہر ایک قوم کے اندر علیحدگی کا رُجحان شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے‘ اور بعض نادان گروہ اس کو شدید تر کرنے کی پیہم جدوجہد کر رہے ہیں۔{ FR 2566 }
تیسری تفریق معاشی ہے۔ امیر اور غریب‘ زمیندار اور کاشت کار‘ مزدور اور سرمایہ دار‘ بڑی تنخواہیں پانے والے افسر اور چھوٹے اہل کار‘ یہ مختلف گروہ ہیں‘ جن کو معاشی بے انصافیوں نے ایک دوسرے سے پھاڑ دیا ہے۔ ان کے درمیان اخوت اور ہمدردی کا تعلق نہیں ہے‘ بلکہ حسد اور بغض کا تعلق ہے۔ یہ ایک دوسرے کے رفیق اور حامی و ناصر نہیں ہیں‘ بلکہ حریف اور مد مقابل ہیں۔ ان کی کش مکش بھی روز بروز بڑھ رہی ہے‘ اور ہمارے اندر ایک گروہ ایسا موجود ہے‘ جس کا مستقل فلسفہ ہی یہ ہے‘ کہ انہیں ملا کر ایک کر دینے کا خیال باطل ہے‘ اور حق صرف یہ ہے‘ کہ ان کو باہم لڑا دیا جائے۔{ FR 2567 }
سوال یہ ہے‘ کہ یہ مختلف تفریقیں جو ہماری قوم اور ریاست کو پارہ پارہ کردینے پر تلی ہوئی ہیں‘ جن کو نشو ونما دینے کے لیے گہرے داخلی اسباب بھی موجود ہیں‘ اور جنہیں بھڑکانے کے لیے خارجی محرکات کی بھی کمی نہیں‘ آخر کس طریقے سے مٹائی جا سکتی ہیں؟ طاقت کے ذریعہ سے ان کو دبا کر‘ ریاست کی سیاسی وحدت اور اس کے امن کو بر قرار رکھنا ایک حد تک ممکن ہے‘ مگر یہ چیز دلوںکو جوڑ کر‘ وہ قلبی وحدت تو ہر گز پیدا نہیں کر سکتی‘ جو ریاست کی اندرونی ترقی اور بیرونی خطرات کے مقابلہ میں اس کی متحدہ مدافعت کے لیے ضروری ہے۔ پھٹے ہوے دل اور کھنچے ہوئے ہاتھ نہ تعمیر میں تعاون کر سکتے ہیں‘ اور نہ مدافعت ہی میں بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہوسکتے ہیں۔قومیّت کا پرچا ر بھی اس معاملہ میں بے بس ہے۔ ہندستان میں ہم اس کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں مغربی تصوّرات کے مطابق قومیّت کی تبلیغ وتلقین وہاں جتنی بڑھتی گئی۔ اس نے ملک کی آبادی میں وحدت پیدا کرنے کے بجائے ان تمام گروہوں میں اپنے امتیازی وجود کا احساس جگا دیا‘ جو اپنے اندر قومیّت کے عناصر رکھتے تھے۔ پھر معاشی اغراض کا تصادم تو وہ چیز ہے‘ جس کے زہر کا تریا ق فراہم کرنے میں قومیّت جگہ جگہ ناکام ہوئی اور ہورہی ہے۔ اب ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں‘ کہ ہماری موجودہ قیادت کے پاس اس مسئلہ کا کیا حل ہے‘ اور وہ کہاں تک اس سے عہدہ بر آہونے کی اہلیت رکھتی ہے؟
کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ ہم ان دوسرے مسائل کی اہمیت سے غافل ہیں‘ جو اس وقت پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو درپیش ہیں۔ بلا شبہ وہ مالی‘ صنعتی‘ انتظامی‘ دفاعی اور خارجی مسائل بھی اپنی جگہ کا فی اہم ہیں‘ جن سے ہم اس مملکت کی پیدائش کے بعد دوچار ہوئے۔کوئی نہیں کہتاکہ ان کی طرف توجہ نہ کی جائے۔ نہ ان واقعی خدمات کا انکار کرنا قرین انصاف ہے‘ جو اس سلسلہ میں موجودہ قیادت نے انجام دیں۔ لیکن جہاں تک ہم سمجھتے ہیں مسلمانوں کی حیات قومی کے لیے‘ اس وقت سب سے بڑے مسئلے یہی تین ہیں‘ جن کا ذکر ہم نے کیا ہے‘ اور قیادت کا اصل محک امتحان یہ ہے‘ کہ وہ انہیں صحیح طور پر حل کرنے کی اہلیت‘ فکری اور اخلاقی حیثیت سے کہاں تک اپنے اندر رکھتی ہے۔ (ترجمان۔ القرآن۔ اگست ۱۹۴۸ء)
خ خ خ