Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام اور عدلِ اجتماعی
باطل حق کے بھیس میں
فریبِ اوّل: سرمایہ داری اور لادینی جمہوریت
فریبِ دُوُم… اجتماعی عدل اور اشتراکیت
تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ذہنی غلامی کی انتہا
عدالتِ اجتماعیہ کی حقیقت
اسلام ہی میں عدالتِ اجتماعیہ ہے
عدل ہی اسلام کا مقصود ہے
عدلِ اجتماعی
اِنسانی شخصیت کی نشوونما
انفرادی جواب دہی
اِنفرادی آزادی
اجتماعی ادارے اوراُن کا اقتدار
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی خامیاں
اشتراکیت ظُلمِ اجتماعی کی بدترین شکل ہے
عدلِ اسلامی
آزادیٔ فرد کے حدود
اِنتقالِ دولت کی شرائط
تصرُّفِ دولت پر پابندیاں
معاشرتی خدمت
استیصالِ ظلم
مصالح عامہ کے لیے قومی ملکیت کے حدود
بیت المال میں تصرُّف کی شرائط
ایک سوال

اسلام اور عدلِ اجتماعی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ذہنی غلامی کی انتہا

مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس خدا کی کتاب اور اُس کے رسُول کی سُنّت میں ایک دائمی وابدی ہدایت موجود ہے جو انھیں شیطانی وساوس پر متنبہ کرنے اور زندگی کے تمام معاملات میں ہدایت کی روشنی دکھانے کے لیے ابد تک کافی ہے، مگر یہ مساکین اپنے دین سے جاہل اور استعمار کی تہذیبی وفکری تاخت سے بُری طرح مغلوب ہیں۔ اس لیے ہر وُہ نعرہ جو دُنیا کی غالب قوموں کے کیمپ سے بلند ہوتا ہے، اس کی صدائے بازگشت فورًا ہی یہاں سے بلند ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جس زمانے میں انقلابِ فرانس کے اُٹھائے ہوئے افکار کا زور تھا، مسلمان ملکوں میں ہر تعلیم یافتہ آدمی اپنا فرض سمجھتا تھا کہ اِنھی افکار کا موقع و بے موقع اظہار کرے اور انھی کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالے۔ اس کے بغیر وُہ سمجھتا تھا کہ اس کی کوئی عزت قائم نہ ہو گی اور وُہ رجعت پسند سمجھ لیا جائے گا۔ یہ دَور جب گزر گیا تو ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی سَمتِ قبلہ بھی تبدیل ہونے لگی اور نیا دَور آتے ہی اجتماعی عدل اور اشتراکیت کے نعرے بلند کرنے والے ہمارے درمیان پیدا ہونے لگے۔ یہاں تک بھی بات قابلِ صبر تھی۔ لیکن غضب یہ ہے کہ ایک گروہ ہمارے اندر ایسا بھی اُٹھتا رہا ہے جو اپنے قبلے کی ہر تبدیلی کے ساتھ چاہتا ہے کہ اسلام بھی اپنا قبلہ تبدیل کرے۔ گویا اسلام کے بغیر یہ بے چارے جی نہیں سکتے۔ اس کا ان کے ساتھ رہنا ضروری ہے لیکن ان کی خواہش یہ ہے کہ جس کی پیروی کرکے یہ ترقی کرنا چاہتے ہیں اُسی کی پیروی سے اسلام بھی مشرف ہو جائے اور ’’دینِ رجعی‘‘ ہونے کے الزام سے بچ جائے۔ اِسی بِنا پر پہلے کوشش کی جاتی تھی کہ حریت فرد، فراخ دلی، سرمایہ داری اور بے دین جمہوریت (Secular Democracey) کے مغربی تصورات کو عین اسلامی ثابت کیا جائے، اور اسی بناپر اب یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں بھی اشتراکی تصور کی عدالتِ اجتماعیہ موجود ہے۔ یہ وُہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنی غلامی اور اُن کی جاہلیت کی طغیانی ذلت کی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔

شیئر کریں