مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت میں ایک دائمی و ابدی ہدایت موجود ہے جو انہیں شیطانی وساوس پر متنبہ کرنے اور زندگی کے تمام معاملات میں ہدایت کی روشنی دکھانے کے لیے ابد تک کافی ہے، مگر یہ مساکین اپنے دین سے جاہل اور استعمار کی تہذیبی و فکری تاخت سے بری طرح مغلوب ہیں۔ اس لیے ہر وہ نعرہ جو دنیا کی غالب قوموں کے کیمپ سے بلند ہوتا ہے، اس کی صدائے بازگشت فوراً ہی یہاں سے بلند ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ جس زمانے میں انقلابِ فرانس کے اٹھائے ہوئے افکار کا زور تھا، مسلمان ملکوں میں ہر تعلیم یافتہ آدمی اپنا فرض سمجھتا تھا کہ انہی افکار کا موقع و بے موقع اظہار کرے اور انھی کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالے۔ اس کے بغیر وہ سمجھتا تھا کہ اس کی کوئی عزت قائم نہ ہوگی اور وہ رجعت پسند سمجھ لیا جائے گا۔ یہ دور جب گزر گیا تو ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی سمتِ قبلہ میں بھی تبدیلی ہونے لگی اور نیا دور آتے ہی اجتماعی عدل اور اشتراکیت کے نعرے بلند کرنے والے ہمارے درمیان پیدا ہونے لگے۔ یہاں تک بھی بات قابل صبر تھی ۔ لیکن غضب یہ ہے کہ ایک گروہ ہمارے اندر ایسا بھی اٹھتا رہا ہے جو اپنے قبلے کی ہر تبدیلی کے ساتھ چاہتا ہے کہ اسلام بھی اپنا قبلہ تبدیل کرے ۔ گویا اسلام کے بغیر یہ بے چارے جی نہیں سکتے ۔ اس کا ان کے ساتھ رہنا ضروری ہے ۔ لیکن ان کی خواہش یہ ہے کہ جس کی پیروی کر کے یہ ترقی کرنا چاہتے ہیں اسی کی پیروی سے اسلام بھی مشرف ہو جائے اور ’’دینِ رجعی‘‘ ہونے کے الزام سے بچ جائے۔ اسی بناء پر پہلے کوشش کی جاتی تھی کہ حریت فرد اور فراخ دلی اور سرمایہ داری اور بے دین جمہوریت (secular democracy) کے مغربی تصورات کو عین اسلامی ثابت کیا جائے اور اسی بناء پر اب یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں بھی اشتراکی تصور کی عدالتِ اجتماعیہ موجود ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنی غلامی اور ان کی جاہلیت کی طغیانی ذلت کی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔