سوال
سورۂ النساء کی تیسری آیت جس میں تعددِ ازواج کی اجازت مذکور ہے،محکم ہے یا متشابہ؟ اگر وہ محکم ہے تو اس کے معنی میں اتنا اختلاف کیوں ہے اور اس کی۱ تنی مختلف تاویلیں کیوں کی جاتی ہیں ؟
جواب
سورۂ النساء کی آیت نمبر۳ متشابہ نہیں بلکہ محکم({ FR 1936 }) ہے۔ آپ کا یہ سوال کہ ’’اگر یہ محکم ہے تو اس کی تعبیر میں اتنا اختلاف کیوں ہے‘‘متعدد غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے۔ آپ کی پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ’’جو آیت محکم ہو ،اس میں تعبیرات کا اختلاف نہ ہونا چاہیے‘‘۔ اوریہ غلط فہمی آپ کو اس لیے ہوئی ہے کہ آپ محکم آیت کے معنی یہ سمجھے ہیں کہ وہ سرے سے محتاج تعبیر ہی نہیں ہوتی۔آپ کی دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ اس آیت کی تعبیر میں کچھ بہت اختلافات رونماہوئے ہیں اور بڑے وسیع اختلافات ہیں ۔ حالاں کہ علماے اسلام کے درمیان ۱۲ سو برس تک اس آیت کا یہ مفہوم متفق علیہ رہا ہے کہ یہ ایک مرد کو ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت دیتی ہے،اس کے لیے بیک وقت چار کی حد مقرر کرتی ہے، اس کے لیے عدل کی شرط لگاتی ہے، اور عدل سے مراد برتائو اور حقوق میں عدل ہے نہ کہ دلی لگائو میں برابری۔
اب رہیں وہ تعبیرات جو انیسویں صدی کے آخری دور سے بعض مسلمانوں نے کرنی شروع کردی ہیں ،اور جن کی بِنا پر آپ کو یہ غلط فہمی لاحق ہوئی ہے کہ اس آیت کی تعبیر میں وسیع اختلافات رونما ہوگئے ہیں ، تو میں یہ صاف کہوں گا کہ درحقیقت وہ تعبیرات نہیں بلکہ معنوی تحریفات ہیں جن کو قرآن کی جائزتفسیر کے حدود میں جگہ نہیں دی جا سکتی۔ یہ تعبیرات ایسے لوگوں نے کی ہیں جو قرآن سے نہیں بلکہ آپ لوگوں سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں اور پھر قرآن کومجبو رکرنا چاہتے ہیں کہ ضرور وہ اسی بات کو حق کہے جسے آپ لوگ حق کہتے ہیں ۔ اس طرح کسی چیز کو معنی پہنانے کی کوشش میرے نزدیک منافقت اور بے ایمانی ہے۔ میں اگر ایمان داری کے ساتھ یہ سمجھتا کہ اس معاملے میں یا کسی معاملے میں بھی قرآن کا نقطۂ نظر غلط اور اہل مغرب کا نقطۂ نظر صحیح ہے تو صاف صاف قرآن کا انکار کرکے آپ حضرات کے نظریے پر ایمان لانے کا اعلان کردیتا، اور یہ کہنے میں ہرگز تأمل نہ کرتا کہ میں مسلمان نہیں ہوں ۔ یہی رویہ ہر مخلص اور راست باز آدمی کا ہونا چاہیے۔مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ لوگ ہمارے اندر منافقین کی ہمت افزائی کرتے ہیں ، صرف اس لیے کہ وہ زندگی کے معاملات میں آپ کے ہم نوا ہیں ۔آپ کو ان کی ہم نوائی اچھی معلوم ہوتی ہے اور وہ منافقت بری نہیں معلوم ہوتی جو اس کے پیچھے کارفرما ہے۔({ FR 1937 })
( ترجمان القرآن ،اکتوبر ۱۹۵۵ء)