اوپر کے تیرہ فقروں میں ہم نے اپنی حد تک پوری کوشش کی ہے کہ فاضل جج کے تمام بنیادی نظریات کا ایک صحیح خلاصہ بیان کر دیں۔ ان کی زبان اور سلسلہ وار ترتیب میں بھی ہم نے موصوف کی اپنی زبان اور منطقی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے، تا کہ ناظرین کے سامنے ان خیالات کی صحیح صورت آ جائے جن پر آگے وہ اپنے فیصلے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ان بنیادی نظریات میں چند باتیں قابل غور اور لائق تنقید ہیں:
اولاً: فاضل جج کی نگاہ میں خدا کے قانون سے مراد صرف وہ قانون ہے جو قرآن میں بیان ہوا ہے۔ سُنّت جو احکام وہدایات دیتی ہے، انھیںوہ خدا کے قانون میں شمارنہیں کرتے۔ اوپر کے فقروں میں یہ بات مخفی ہے، لیکن آگے چل کر اپنے فیصلے میں وہ اس کی صراحت کرتے ہیں اور اسی مقام پر ہم اس نقطۂ نظر کی غلطی واضح کریں گے۔
ثانیاً: وہ جب کہتے ہیں کہ کسی انسان کو بھی دوسرے انسانوں پر برتری حاصل نہیں ہے، اور یہ کہ قرآن کو سمجھنا اور اس کی تعبیر کرنا چند انسانوں کا مخصوص حق نہیں ہے تو اس میں وہ نبیﷺ کو بھی شامل سمجھتے ہیں۔ یہ چیز بھی مذکورۂ بالا فقرات میں نمایاں نہیں ہے لیکن آگے چل کر اس کی تصریح انھوں نے خود کر دی ہے، لہٰذا ان کا یہ قاعدہ ٔ کلیہ بھی محتاجِ تنقید ہے۔
ثالثاً: انھوں نے رسول اللّٰہ ﷺ اور خلفائے راشدین کو ایک درجے میں رکھ کر یہ فرمایا ہے کہ ’’جو کچھ وہ کرتے تھے مسلمانوں کے مشورے سے کرتے تھے۔‘‘ یہ بات قطعًا خلاف واقعہ ہے۔ رسولﷺ کی حیثیت اپنی نوعیت میں خلفائے راشدین سمیت تمام امرا مسلمین کی حیثیت سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ حضورﷺ کو ان کے زمرے میں رکھنا خود اس قرآن کے خلاف ہے جسے فاضل جج نے خدا کا قانون تسلیم کیا ہے۔ پھر ان کا یہ دعوٰی بھی صحیح نہیں ہے کہ خلفائے راشدین کی طرح حضورﷺ بھی جو کچھ کرتے تھے مسلمانوں کے مشورے سے کرتے تھے۔ جن امور میں حضورﷺ کو خدا کی طرف سے ہدایت ملتی تھی، ان میں آپ کا کام صرف حکم دینا اور مسلمانوں کا کام صرف اطاعت کرنا تھا۔ ان کے اندر مشورے کا کیا سوال، کسی مسلمان کو بولنے کا حق بھی نہ تھا اور خدا کی ہدایات حضورؐ کے پاس لازمًا صرف قرآنی آیات ہی کی شکل میں نہیں آتی تھیں، بلکہ وہ وحی غیر متلو کی شکل میں بھی آتی تھیں۔
رابعاً: فاضل جج نے عام مسلمانوں کے حق اجتہاد پر زور دینے کے بعد خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک منظم معاشرے میں انفرادی اجتہاد نہیں چل سکتا۔ قانون صرف وہی اجتہاد بنے گا جو اکثریت کے نمایندوں نے کیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اکثریت کا چند آدمیوں کو منتخب کرکے اجتہاد کا اختیار دینا، اور اس کا چند آدمیوں پراعتماد کرکے ان کے اجتہاد کو قبول کر لینا، ان دونوں میں آخر اصولاً کیا فرق ہے؟ اس ملک کی عظیم اکثریت نے اگر فقہائے حنفیہ پر اعتماد کرکے ان کی تعبیر قرآن وسُنّت اور ان کے اجتہاد کو اِسلامی قانون مانا ہے تو فاضل جج خود اپنے بیان کردہ اصول کی رو سے اس پر کیا اعتراض کر سکتے ہیں اور کیسے کر سکتے ہیں؟ ان پر تو مسلمانوں کے اعتماد کا یہ حال رہا ہے کہ جب اس قانون کو نافذ کرنے والی کوئی طاقت نہ رہی تھی اور غیر مسلم برسر اقتدار آ چکے تھے، اس وقت بھی مسلمان اپنے گھروں میں اور اپنی شخصی ومعاشرتی زندگی کے معاملات میں ان کے بیان کردہ قانون ہی کی پیروی کرتے رہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عام مسلمان کسی جبر کے بغیر خلوص دل کے ساتھ اور قلب وضمیر کے پورے اطمینان کے ساتھ اس کو صحیح قانون سمجھتے ہیں۔ کیا دُنیا کی کسی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو اس قدر زبردست جمہوری تائید حاصل ہونے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ اس کے مقابلے میں کسی ایک شخص کا، خواہ وہ ایک فاضل جج ہی کیوں نہ ہو، یہ استدلال کیا وزن رکھتا ہے کہ ان فقہا کی تعبیریں آج کے زمانے میں نہیں مانی جا سکتیں؟ جسٹس محمد شفیع صاحب خود فرماتے ہیں کہ قانون وہ ہے جسے اکثریت مانے۔ سو اکثریت اس قانون کو مان رہی ہے۔ آخر کس دلیل سے ان کی انفرادی رائے اسے رد کر سکتی ہے؟
خامسًا: فاضل جج ایک طرف خود تسلیم کرتے ہیں کہ قانون بنانا اور اس میں ردوبدل کرنا اکثریت کے نمایندوں کا کام ہے، افراد کا کام نہیں ہے، خواہ وہ بجائے خود کیسے ہی طاقتور اور ذہین ہوں، لیکن دوسری طرف انھوں نے خود ہی اکثریت کے تسلیم کردہ اصول قانون میں ترمیم بھی کی ہے، اور حضانت کے متعلق اکثریت کے مُسَلّمہ قانون کو رد بھی کیا ہے۔ اگر یہ تضاد نہیں ہے تو ہمیں یہ معلوم کرکے بڑی مسرت ہو گی کہ ان دونوں باتوں میں کس طرح تطبیق دی جا سکتی ہے۔