اب اگر ہم یہاں پھر اسلامی قانون جاری کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے بھی انگریزی حکومت کے صدسالہ نقوش کو کھرچ دینا اور نئے نقوش ثبت کر دینا محض ایک جنبش قلم سے ممکن نہیں ہے۔ ہمارا پرانا نظام تعلیم زندگی اور اس کے عملی مسائل سے ایک مدت دراز تک بے تعلق رہنے کے باعث اس قدر جان ہو چکا ہے کہ اس کے فارغ التحصیل لوگوں میں ایک فی ہزار کے اوسط سے بھی ایسے آدمی نہیں نکل سکتے جو ایک جدید ترقی یافتہ ریاست کے جج اور مجسٹریٹ بنائے جاسکیں۔ دوسری طرف موجودہ نظامِ تعلیم نے جو آدمی تیار کیے ہیں وہ اسلام اور اس کے قوانین سے بالکل بے بہرہ ہیں اور ان میں ایسے افراد بھی خال خال ہی پائے جاتے ہیں جن کی ذہنیت ہی کم از کم اس تعلیم کے زہریلے اثرات سے محفوظ رہ گئی ہو۔ پھر سو ڈیڑھ سو برس تک معطل رہنے کی وجہ سے ہمارا قانونی ذخیرہ بھی زمانے کی رفتار سے اچھا خاصا پیچھے رہ گیا ہے اور اسے موجودہ دَور کی عدالتی ضروریات کے لیے کار آمد بنانا کافی محنت چاہتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک طویل مدت تک اسلامی اثر سے آزاد اور انگریزی حکومت کے تابع رہتے رہتے ہمارے اخلاق، تمدن، معاشرت، معیشت اور سیاست کا نقشہ اصل اسلامی نقشے سے بہت مختلف ہو چکا ہے۔ اس حالت میں ملک کے قانونی نظام یک لخت بدل دینا … اگر ایسا کرنا ممکن بھی ہو… نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس صورت میں زندگی کا نظام اور قانونی تغیر کا وہی حشر ہوگا جو ایک پودے کو ایسی آب و ہوا اور ایسی زمین میں لگا دینے سے ہوا کرتا ہے جو اس کے مزاج سے کوئی مناسبت نہ رکھتی ہو۔ لہٰذا یہ بالکل ناگزیر ہے کہ جس اصلاح و تغیر کے ہم طالب ہیں وہ تدریج کے ساتھ ہو اور قانونی تبدیلیاں اخلاق، تعلیم، معاشرت، تمدن، معیشت اور سیاست کی تبدیلیوں کے ساتھ متوازن طریقہ سے کی جائیں۔