مذکورہ بالا قواعد کو ذہنی نشین کرلینے کے بعد غور کیجئے کہ موجودہو حالات میں سود کے مسئلے میں احکامِ شریعت کے اندر کس حد تک تخفیف کی جاسکتی ہے۔
(۱) سود لینے اور سود دینے کی نوعیت یکساں نہیں ہے ۔ سود پر قرض لینے کے لیے تو انسان بعض حالات میں مجبور ہوسکتا ہے۔ لیکن سود کھانے کے لیے درحقیقت کوئی مجبوری پیش نہیں آسکتی۔ سود تو وہی لے گا جو مالدار ہو، اور مالدار کو ایسی کیا مجبوری پیش آسکتی ہے جس میں اس کے لیے حرام حلال ہو جائے؟
(۲) سودی قرض لینے کے لیے بھی ہر ضرورت مجبور ی کی تعریف میں نہیں آتی۔ شادی بیاہ اور خوشی و غمی کی رسموں میں فضول خرچی کرنا کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہے۔ موٹر خریدنا یا مکان بنانا کوئی واقعی مجبوری نہیں ہے۔ عیش و عشرت کے سامان فراہم کرنا، یا کاروبار کو ترقی دینے کے لیے روپیہ فراہم کرنا کوئی ضروری امر نہیں ہے یہ اور ایسے ہی دوسرے امور جن کو ’’ضرورت‘‘ اور ’’مجبوری‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جن کے لیے مہاجنوں اور بینکوں سے ہزاروں روپے قرض لیے جاتے ہیں، شریعت کی نگاہ میں ان کی قطعاً کوئی وقعت نہیں اور ان اغراض کے لیے جو لوگ سود دیتے ہیں وہ سخت گناہ گار ہیں۔ شریعت اگر کسی مجبوری پر سودی قرض لینے کی اجازت دے سکتی ہے تو وہ اس قسم کی مجبوری ہے جس میں حرام حلال ہوسکتا ہے۔ یعنی کوئی سخت مصیبت جس میں سود پر قرض لیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، جان یا عزت پر آفت آگئی ہو، یا کسی ناقابلِ برداشت مشقت یا ضرر کا حقیقی اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں ایک مجبور مسلمان کے لیے سودی قرض لینا جائز ہوگا۔ مگر وہ تمام ذی استطاعت مسلمان گناہگار ہوںگے جنھوں نے اس مصیبت میں اپنے اس بھائی کی مدد نہ کی اور اس کو فعل حرام کے ارتکاب پر مجبور کر دیا۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اس گناہ کا وبال پوری قوم پر ہوگا، کیوں کہ اس نے زکوٰۃ و صدقات اور اوقاف کی تنظیم سے غفلت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے افراد بے سہارا ہو گئے اور ان کے لیے اپنی ضرورتوں کے وقت ساہوکاروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے سوا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ اور اگر مسلمانوں کی کوئی حکومت موجود ہو اور اس نے یہ حالات پیدا کر رکھے ہوں تو وہ پوری حکومت گناہ گار ہوگی۔
(۳) شدید مجبوری کی حالت میں بھی صرف بقدرِ ضرورت قرض لیا جاسکتا ہے اور لازم ہے کہ استطاعت بہم پہنچتے ہی سب سے پہلے اس سے سبکدوشی حاصل کی جائے، کیوں کہ ضرورت رفع ہو جانے کے بعد سود کا ایک پیسہ دینا بھی حرام مطلق ہے۔ یہ سوال کہ آیا ضرورت شدید ہے کہ نہیں، اور اگر شدید ہے تو کس قدرہے اور کس وقت وہ رفع ہوگئی، اس کا تعلق اس شخص کی عقل اور احساس دینداری سے ہے جو اس حالت میں مبتلا ہوا ہو۔ وہ جتنا زیادہ دین دار اور خدا ترس ہوگا، اور اس کا ایمان جتنا زیادہ قوی ہوگا، اتنا ہی زیادہ وہ اس باب میں محتاط ہوگا۔
(۴) جو لوگ تجارتی مجبوریوں کی بنا پر، یا اپنے مال کی حفاظت یا موجودہ انتشارِ قومی کی وجہ سے اپنے مستقبل کی طمانیت کے لیے بینکوں میں روپیہ جمع کرائیں، یا انشورنس کمپنی میں بیمہ کرائیں، یا جن کو کس قاعدہ کے تحت پراویڈنٹ فنڈ میں حصہ لینا پڑے، ان کے لیے لازم ہے کہ صرف اپنے راس المال ہی کو اپنا مال سمجھیں اور اس راس المال میں سے بھی ڈھائی فیصدی سالانہ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کریں، کیوں کہ اس کے بغیر وہ جمع شدہ رقم ان کے لیے ایک نجاست ہوگی، بشرطیکہ وہ خدا پرست ہوں، زرپرست نہ ہوں۔
(۵) بینک یا انشورنس کمپنی یا پراویڈنٹ فنڈ سے سود کی جو رقم ان کے حساب میں نکلتی ہو اس کو سرمایہ داروں کے پاس چھوڑنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ ان مفسدوں کے لیے مزید تقویت کی موجب ہوگی۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس رقم کو لے کر ان مفلس لوگوں پر خرچ کر دیا جائے جن کی حالت قریب قریب وہی ہے جس میں حرام کھانا انسان کے لیے جائز ہو جاتا ہے۔( اس تجویز کو میں اس لیے بھی صحیح سمجھتا ہوں کہ حقیقت میں سود غریبوں کی جیب ہی سے آتا ہے۔ حکومت کا خزانہ ہو یا بینک، یا انشورنس کمپنی، سب کے سود کا اصل منبع غریب کی جیب ہی ہے۔ (حاشیہ از مصنف)
)
(۶) مالی لین دین اور تجارتی کاروبار میں جتنے منافع سود کی تعریف میں آتے ہوں، یا جن میں سود کا اشتباہ ہو، ان سب سے حتی الامکان احتراز ممکن نہ ہوتو وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو نمبر ۵ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ایک ایماندار مسلمان کی نظر جلبِ منفعت پر نہیں بلکہ دفعِ مفاسد پر ہونی چاہیے۔ اگر وہ خدا سے ڈرتا ہے اور یوم آخر پر اعتقاد رکھتا ہے تو حرام سے بچنا اور خدا کی پکڑ سے محفوظ رہنا اس کے لیے کاروبار کی ترقی اور مالی فوائد کے حصول سے زیادہ عزیز ہونا چاہیے۔
یہ تخفیفات صرف افراد کے لیے ہیں اور بدرجۂ آخر ان کو ایک قوم تک بھی اس حالت میں وسیع کیا جاسکتا ہے جبکہ وہ غیروں کی محکوم ہو اور اپنا نظامِ مالیات و معیشت خود بنانے پر قادر نہ ہو۔ لیکن ایک آزاد و خود مختار مسلمان قوم ، جو اپنے مسائل خود حل کرنے کے لیے اختیارات رکھتی ہو، سود کے معاملے میں کسی تخفیف کا مطالبہ اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ سود کے بغیر مالیات اور بینکنگ اور تجارت و صنعت وغیرہ کا کوئی معاملہ چل ہی نہیں سکتا اور اس کا کوئی بدل ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ چیزیں علمی اور عملی حیثیت سے غلط ہے اور فی الواقع ایک نظامِ مالیات سود کے بغیر نہایت کامیابی کے ساتھ بنایا اور چلایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا مغربی سرمایہ داری کے طریقوں پر اصرار کیے چلے جانا بجز اس کے کوئی معنی نہیں رکھتا کہ خدا سے بغاوت کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔