رفقاوحاضرین! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، ہماری جدوجہد کا آخری مقصود ’’انقلابِ امامت‘‘ ہے۔ یعنی دُنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فُسّاق وفجّار کی امامت وقیادت ختم ہو کر امامتِ صالحہ کا نظام قائم ہو۔ اسی مقصدِ عظیم کے لیے سعی وجہد(کوشش) کو ہم دُنیا وآخرت میں رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
یہ چیز جسے ہم نے اپنا مقصد قرار دیا ہے افسوس ہے کہ آج اس کی اہمیت سے مسلم اور غیر مسلم سبھی غافل ہیں۔ مسلمان اسے محض سیاسی مقصد سمجھتے ہیں اور انھیں کچھ احساس نہیں ہے کہ دین میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ غیر مسلم کچھ تعصب کی بنا پر اورکچھ ناواقفیت کی وجہ سے اس حقیقت کو جانتے ہی نہیں کہ دراصل فُسّاق وفجّار کی قیادت ہی نوعِ انسانی کے مصائب کی جڑ ہے اور انسان کی بھلائی کا سارا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ دُنیا کے معاملات کی سربراہ کاری صالح لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔ آج دُنیا میں جو فسادِ عظیم برپا ہے، جو ظلم اور طغیان ہو رہا ہے، انسانی اَخلاق میں جو عالم گیر بگاڑ رُونما ہے، انسانی تمدن ومعیشت وسیاست کی رگ رگ میں جو زہر سرایت کر گئے ہیں، زمین کے تمام وسائل اور انسانی علوم کی دریافت کردہ ساری قوتیں جس طرح انسان کی فلاح وبہبود کے بجائے اُس کی تباہی کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، ان سب کی ذمہ داری اگر کسی چیز پر ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ دُنیا میں چاہے نیک لوگوں اور شریف انسانوں کی کمی نہ ہو، مگر دُنیا کے معاملات اُن کے ہاتھ میں نہیں ہیں، بلکہ خدا سے پھرے ہوئے اور مادّہ پرستی وبداَخلاقی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ اب اگر کوئی شخص دُنیا کی اصلاح چاہتا ہو اورفساد کو صلاح سے، اضطراب کو امن سے، بداَخلاقیوں کو اَخلاقِ صالحہ سے اور برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے محض نیکیوں کا وعظ اور خدا پرستی کی تلقین اور حُسنِ اَخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کا فرض ہے کہ نوعِ انسانی میں جتنے صالح عناصر اسے مل سکیں انھیں ملا کر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے جس سے تمدّن کی زمام کار( قیادت (۲) تبدیلی (۳) باغی (۴) وفادار) فاسقوں سے چھینی جا سکے اورامامت کے نظام میں تغیر(۲) کیا جا سکے۔