ایک اور تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ سورۂ نساء کی آیت ۳ تعددِ ازواج کو زیادہ سے زیادہ بس مباح ہی قرار دیتی ہے، اُسے لازم تو نہیں کرتی۔ اب اگر کوئی اسلامی حکومت یہ دیکھے کہ اس اجازت سے عام طور پر لوگ ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور وہ اس مباح فعل سے لوگوں کو روک دے تو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ بہت سے مباح افعال ایسے ہیں جن پر حکومت پابندیاں عائد کرتی رہتی ہے اور آپ اسے دین میں مداخلت نہیں کہتے۔ مثلاً سڑک پر دائیں اور بائیں چلنا دونوں مباح ہیں۔ حکومت یہ پابندی عائد کر دیتی ہے کہ دائیں نہ چلو اور صرف بائیں چلو۔ کیا یہ دین میں مداخلت ہے؟ گوشت ہر روز ہر وقت کھانا مباح ہے۔ حکومت کسی مصلحت سے ایک دن یا دو دن گوشت کھانے سے روک دیتی ہے۔ کیا یہ بھی دین میں مداخلت ہے؟ پھر آخر تعددِ ازواج ہی ایک ایسا مباح فعل کیوں ہو کہ اس پر پابندیاں عائد کرنا دین میں مداخلت قرار پائے۔
بظاہر یہ تاویل بڑی معقول نظر آتی ہے، مگر درحقیقت یہ ایک کھلا مغالطہ ہے۔ ایک قسم کے معاملات وہ ہیں جن کے متعلق شریعت نے بالکل سکوت اختیار کیا ہے۔ نہ ان کو منع کیا ہے، نہ ان کی اجازت دی ہے، نہ ان کا حکم دیا ہے۔ ایسے معاملات میں حکومت پوری طرح آزاد ہے کہ اجتماعی مصالح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے بارے میں جیسا قانون چاہے بنائے۔ دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جن میں شریعت نے قانون سازی خود اپنے ہاتھ میں لی ہے اور منع کرنے، یا اجازت دینے، یا حکم دینے کی صورت میں ان کے متعلق ایک ضابطہ بنا دیا ہے۔ ایسے معاملات میں اگر شریعت کے حکم کو بدل کر کوئی حکومت ممنوع کو جائز، یا جائز کو ممنوع کرتی ہے تو وہ خدا کے قانون میں ترمیم کی مرتکب ہوتی ہے۔ اس لیے کہ یہاں ایک نص صریح نے ایک فعل کو منع کیا ہے، یا مباح قرار دیا ہے۔ اس ممانعت کو اجازت سے یا اجازت کو ممانعت سے بدلنا مداخلت فی الدین، بلکہ تحریف دین نہیں تو اور کیا ہے۔ قرآن مجید ایک فعل کے متعلق صاف طور پر کہتا ہے کہ تم اسے کرنے کے مجاز ہو۔ آپ اس کے مقابلے میں کہتے ہیں کہ تم یہ فعل کرنے کے مجاز نہیں ہو۔ کیا یہ قرآن کی کھلی مخالفت نہیں ہے؟
بعینہٖ یہی آئینی نوعیت اُس صورت میں بھی ہوگی جب کہ کوئی شخص تعددِ ازواج کو ممنوع قرار دینے کے بجائے اُس پر وہ پابندیاں لگائے جو قرآن کی لگائی ہوئی پابندیوں سے مختلف ہوں۔ قرآن اس فعل کو مباح قرار دینے کے بعد اس پر صرف دو پابندیاں لگاتا ہے۔ ایک یہ کہ آدمی بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں نہ رکھے۔ دوسرے یہ کہ جب اس کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان نفقے اور ازدواجی تعلق میں مساوات برتے۔ ان دونوں پابندیوں کو اگر کوئی حکومت پُوری طاقت کے ساتھ نافذ کرے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ وہ چار کی حد سے تجاوز کرنے والے کو سخت سزا دے سکتی ہے۔ وہ بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنے والے کو عدل پر مجبور کرسکتی ہے۔ اسے پورا حق ہے کہ جو شخص عدل نہ کرے اس کے لیے سزا تجویز کردے۔ لیکن اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس اباحت پر جو پابندیاں قرآن نے نہیں لگائی ہیں وہ اپنی طرف سے لگا دے۔ مثلاً قرآن مجید ایک سے زائد بیویاں کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ فرد کے اپنے اختیارِ تمیزی (Discretion)پر چھوڑتا ہے۔ حکومت اگر اس اختیارِ تمیزی کو فرد سے سلب کرکے کسی پنچایت یا عدالت کی طرف منتقل کر دے تو یہ قرآن کے قانون میں کھلی ترمیم ہوگی۔ قرآن یہ رائے قائم کرنے کا ذمہ دار فرد کو قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو عدل پر قادر پاتا ہے یا نہیں۔ حکومت اگر یہ اختیار کسی دوسرے شخص یا ادارے کو سونپتی ہے کہ وہ کسی شخص کے نکاح ثانی سے پہلے اس کے عدل پر قادر ہونے یا نہ ہونے کا حکم لگائے تو یہ بھی قرآن کے قانون میں ترمیم ہی ہے۔ قرآن ایک بالغ مسلمان مرد کو اپنے نکاح کے معاملے میں (خواہ وہ پہلا نکاح ہو یا دوسرا یا تیسرا یا چوتھا) کسی سے اجازت لینے کا پابند نہیں کرتا۔ حکومت اگر اس کو کسی کی اجازت کا بھی پابند کرتی ہے تو قرآن کے قانون میں ترمیم کرتی ہے۔ قرآن تعددِ ازواج کی اباحت کو ضرورت کے ساتھ مشروط نہیں کرتا۔ جو حکومت اسے خاص ضرورتوں کے ساتھ مشروط کرتی ہے اور فرد کو اس کا پابند کرتی ہے کہ نکاح ثانی سے پہلے کسی شخص یا ادارے کو اس بات پر مطمئن کرے کہ اسے ان خاص ضرورتوں میں سے کوئی ضرورت فی الواقع لاحق ہے، وہ یقینا قرآن کے قانون میں ترمیم کا ارتکاب کرتی ہے۔