Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ تعدد ازواج
اصل قانون
غلط مفروضہ
تاویل نمبر ۱
تاویل نمبر۲
تاویل نمبر ۳
تاویل نمبر۴
تاویل نمبر ۵
تاویل نمبر ۶
غلط تاویلات کی اصل وجہ
نئی نئی شرطیں
آخری سہارا
دو ٹوک بات

مسئلہ تعدد ازواج

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تاویل نمبر۲

دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ:
’’ایک سے زائد نکاح اگر کیے بھی جائیں تو ان کو لازمًا یتیموں کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے، کیونکہ اسی غرض کے لیے تعددِ ازواج کی اجازت دی گئی ہے۔‘‘
یہ تاویل اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ آیت میں ’’اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ دوسری شادی کی اجازت صرف یتیموں کے ساتھ انصاف کرنے کی خاطر دی گئی ہے۔ لہٰذا وہ لازماً کسی ایسی عورت ہی سے ہونی چاہیے جو کسی یتیم بچے کی ماں ہو اور اس سے شادی کرنے والے کا اصل مقصد اس یتیم کے ساتھ انصاف کرنا ہو۔
لیکن اس تاویل کی یہ بنیاد ہی سرے سے غلط ہے کہ ’’یتیموں کے ساتھ انصاف‘‘ کے معاملے کو تعددِ ازدواج کی اجازت کے لیے شرط سمجھ لیا گیا ہے۔ قرآن مجید کو جس شخص نے بھی سمجھ کر پڑھا ہو وہ اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اس کتاب پاک میں بہت سے احکام کسی خاص موقع پر دیے گئے ہیں اور حکم دیتے وقت متعدد مواقع پر اس طرح کے الفاظ آئے ہیں کہ ’’اگر ایسی صورت پیش آگئی ہے تو اس کا یہ حکم ہے۔‘‘ ان تمام مقامات پر شرطیہ الفاظ کو اگر شرطِ حکم قرار دے لیا جائے تو اس سے شریعت کی صورت ہی مسخ ہو کر رہ جائے گی۔ مثال کے طور پر دیکھیے، عرب کے لوگ اپنی لونڈیوں کو پیشہ کمانے پر زبردستی مجبور کرتے تھے۔ اس کی ممانعت ان الفاظ میں فرمائی گئی ہے:
لَا تکْرِھُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا۔ (النور: ۳۳)
’’اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ بچی رہنا چاہتی ہوں‘‘۔
کیا اس آیت کا یہ مطلب لینا صحیح ہوگا کہ یہ حکم صرف لونڈیوں سے متعلق ہے، اور یہ کہ لونڈی اگر خود زنا سے نہ بچنا چاہتی ہو تو اس سے پیشہ کرایا جاسکتا ہے؟
دوسری غلطی اس تاویل میں یہ کی گئی ہے کہ سورۂ نساء کی زیر بحث آیت کے متعلق یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وہ دراصل تعددِ ازواج کی اجازت دینے کے لیے نازل ہوئی تھی، حالانکہ یہ مفروضہ بجائے خود بے بنیاد ہے۔ عرب میں اور قدیم زمانے کی پوری سوسائٹی میں ہزارہا برس سے تعددِ ازواج مطلقاً مباح تھا۔ انبیائے سابقین میں سے اکثر متعدد بیویاں رکھتے تھے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس آیت کے نزول سے پہلے تین بیویاں موجود تھیں اور صحابہ کرامؓ بھی اس پر عامل تھے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو طریقہ پہلے سے رائج چلا آرہا ہو اس کے لیے نئے سرے سے اجازت دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ قرآن کا کسی رواج سے منع نہ کرنا خود ہی اس رواج کی اجازت کا ہم معنی تھا۔ اس لیے یہ بات سرے سے غلط ہے کہ یہ آیت تعددِ ازواج کی اجازت دینے کے لیے نازل ہوئی تھی۔ دراصل یہ جنگ اُحد کے بعد نازل ہوئی تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ جو بہت سی عورتیں کئی کئی بچوں کے ساتھ بیوہ رہ گئی تھیں، ان کے مسئلے کو حل کرنے کا مناسب طریقہ بتایا جائے۔ اس میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ اگر تمہیں شہدائے اُحد کے یتیم بچوں کے ساتھ بے انصافی کا خطرہ ہے تو تمہارے لیے ایک سے زائد بیویاں کرنے کا دروازہ پہلے ہی کھلا ہوا ہے، شہدا کی بیوہ عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں ان کے ساتھ نکاح کرلو، تاکہ ان کے بچے تمہارے اپنے بچے بن جائیں اور تمہیں ان کے مفاد سے ذاتی دل چسپی پیدا ہو جائے۔ اس سے یہ نتیجہ کسی منطق کی رُو سے بھی نہیں نکالا جاسکتا کہ تعددِ ازواج صرف اُسی حالت میں جائز ہے جب کہ یتیم بچوں کی پرورش کا مسئلہ در پیش ہو۔ اس آیت نے اگر کوئی نیا قانون بنایا ہے تو وہ تعددِ ازواج کی اجازت دینا نہیں ہے، کیونکہ اس کی اجازت تو پہلے ہی تھی اور معاشرے میں ہزاروں برس سے اس کا رواج موجود تھا، بلکہ دراصل اس میں جو نیا قانون دیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ بیویوں کی تعداد پر چار کی قید لگا دی گئی ہے جو پہلے نہ تھی، اور ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اباحت کو عدل کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے جس کو پہلے ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا۔
اس تاویل کی غلطی بالکل کھل جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیے اور آپ کے کسی نکاح کا بھی اصل محرک یہ امر نہ تھا کہ آپ کچھ یتیم بچوں کی پرورش کے لیے کسی خاتون کو نکاح میں لانا چاہتے تھے۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ نے بھی حضورؐ کے عہد میں اور آپ کے بعد بیویوں پر بیویاں کیں جن میں کنواریاں بھی تھیں اور بے اولاد مطلقہ یا بیوائیں بھی۔ اُس دَور سے لے کر آج تک فقہائے اسلام میں سے کسی نے بھی اِنْ خِفْتُمْ اَلاّ َتُقْسِطُوْا کا مطلب یہ نہیں سمجھا ہے کہ تعدُّدِ ازواج کی اجازت صرف یتیم بچوں کی پرورش کے لیے ہے اور دوسری بیوی لازماً کسی یتیم بچے کی ماں ہی ہونی چاہیے۔

شیئر کریں