(۱) ۱۸۸۰ء تا ۱۸۸۸ء : اس دور میں مرزا صاحب محض ایک مبلغ اسلام اور غیر مسلم حملہ آوروں کے مقابلے میں اسلام کی مدافعت کرنے والے مناظرتھے۔ ان کو پورا اصرار تھاکہ ان کے عقائد تمام مسائل میں وہی ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں۔ اگرچہ ان کی تحریروں میں طرح طرح کے مخفی دعوے دیکھ کر مسلمان کھٹکتے تھے ، مگر مرزا صاحب اپنے اقوال کی توجیہات کرکے مسلمانوں کو مطمئن کردیتے تھے۔
(۲) دسمبر ۱۸۸۸ء میں انھوںنے بیعت کے لیے اشتہار دیا اور ۱۸۸۹ء کے آغاز سے بیعت لینی شروع کی ۔ اس وقت انھوںنے صرف ’’مجدد وقت‘‘ اور ’’مامور من اللہ ‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا اور مسیح علیہ السلام سے اس بنا پر اپنی مماثلت ظاہر کی کہ جس فروتنی اور مسکینی کی حالت میں وہ تھے، اسی حالت میں مرزا صاحب بھی دعوت وتبلیغ کا کام کررہے ہیں۔ اس زمانہ میں عام مسلمان مرزا صاحب کے متعلق اچھے خیالات رکھتے تھے ۔ البتہ یہ دیکھ کر کھٹکتے تھے کہ مرزا صاحب اپنے آپ کو تمام اولیائے اُمت سے افضل کہتے تھے ۔
(سیرۃ المہدی مصنف صاحب زادہ بشیر احمد صاحب حصہ اول صفحہ ۱۴۔۳۱۔۸۹ ، تبلیغ رسالت جلد اول ص۱۱۔۱۲و۱۵)
(۳) ۱۸۹۱ء میں انھوںنے مسیح علیہ السلام کی موت کا اعلان اور خود مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا جس سے مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ (سیرۃ المہدی صفحہ ۳۱،۸۹) اس دورکے آغاز میں مرزا صاحب خود لکھتے ہیں کہ ’’پھر میں تقریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے ، بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہاکہ خدا نے مجھے بڑی شد و مد سے براہین (یعنی براہین احمدیہ) میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے رسمی عقیدے پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے۔ تب تواتر سے اس بارے میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے ۔ ‘‘ (اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح صفحہ ۷) دوسری جگہ لکھتے ہیں :’’اگرچہ خدا نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھااور یہ بھی مجھے فرمایاکہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسولﷺ نے دی تھی مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہواتھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھاکہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے اس لیے میں نے خدا کی وحی کے ظاہر پر عمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کاتھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شامل کیا۔ لیکن بعد اس کے اس بارے میں بارش کی طرح وحی نازل ہوتی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والاہے تو ہی ہے۔ ‘‘ (حقیقتہ الوحی،ص ۱۴۹)
(۴) ۱۹۰۰ء میں مرزا صاحب کے خاص خاص مریدوں نے ان کو صاف صاف نبی کہنا شروع کیا اور ان کو وہی حیثیت دینی شروع کردی جو قرآن کی رو سے انبیا علیہم السلام کی ہے۔ مرزا صاحب کبھی ان کے اس قول کی تصدیق و تائید کرتے تھے اور کبھی نبوت کے الفاظ کی توجیہ ناقص نبی ، جزوی نبی ، محدث وغیرہ الفاظ سے کرکے ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے تھے جو نبوت کے دعوے پر ایمان لانے میں متامل تھے۔اس دور میں ۷ / اگست ۱۹۰۰ء کو مرزا صاحب کے ایک مرید خاص مولوی عبدالکریم صاحب نے خود مرزا صاحب کی موجودگی میں ایک خطبہ جمعہ پڑھا جس میں انھوںنے احمدیوں کو مخاطب کرکے کہاکہ ’’اگر تم مسیح موعود کو ہرایک امر میں حکم نہیں ٹھہرائو گے اور اس پر ایمان نہیں لائو گے جیساکہ صحابہ نبی اکرمﷺ پر ایمان لائے تو تم بھی ایک گونہ غیر احمدیوں کی طرح اللہ کے رسولوں میں تفریق کرنے والے ہوگے ۔ ‘‘مرزا صاحب نے جمعہ کے بعد ان الفاظ میںاس کی توثیق کی کہ ’’یہ بالکل میرا مذہب ہے جو آپ نے بیان کیا۔ ‘‘ (کلمۃ الفصل ، صاحبزادہ بشیر احمد صاحب ، صفحہ ۱۶۷) مگر اس توثیق کے باوجود مرزا صاحب خود نبوت کے صریح دعوے سے مجتنب رہے ۔ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کے بقول اس زمانہ میں مرزا صاحب کاعقیدہ یہ تھاکہ آپ کو حضرت مسیح پر جزوی فضیلت ہے اور آپ کو جو نبی کہا جاتاہے تو یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے اور ناقص نبوت ۔ (القول الفصل ،ص ۲۴)۔ نیز مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو۔ (منکرین خلافت کاانجام از جلال الدین صاحب شمس ،ص ۱۹)
(۵) ۱۹۰۱ ء میں مرزا صاحب نے اپنے نبی اور رسول ہونے کا صاف صاف اعلان کیا اور اپنی اکثر تحریروں میں اس نبوت و رسالت کو ’’ناقص‘‘ ، ’’جزوی ‘‘ اور ’’محدثیت‘‘ وغیرہ الفاظ سے محدود کرنا ترک کردیا۔ (سیرۃ المہدی حصہ اول، ص ۳۱) جلال الدین شمس اپنی کتاب ’’منکرین خلافت کا انجام ‘‘ میں اس کے متعلق یہ تشریح کرتے ہیں کہ ’’۱۹۰۱ ء سے پہلے کی بعض تحریرات میں حضرت اقدس (یعنی مرزا صاحب) نے اپنے نبی ہونے سے انکار کیا اور لکھاکہ آپ نبی نہیں بلکہ محدث ہیں لیکن ۱۹۰۱ء کے بعد کی تحریرات میں آپ نے اپنی نبوت کو نہ جزئی قرار دیا نہ ناقص، نہ محدثیت والی نبوت، بلکہ صاف الفاظ میں اپنے آپ کو نبی لکھتے رہے۔ ‘‘(صفحہ ۱۹) اسی کے متعلق مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب فرماتے ہیں ’’۱۹۰۱ء میں اپنے عقیدے میں تبدیلی کی ہے اور ۱۹۰۰ ء ایک درمیانی عرصہ ہے جو دونوں خیالات کے درمیان برزخ کے طور پر حد فاصل ہے …پس یہ ثابت ہے کہ ۱۹۰۱ ء سے پہلے کے حوالے ، جن میں آپ نے نبی ہونے سے انکار کیاہے ، اب منسوخ ہیں اور ان سے حجت پکڑنی غلط ہے۔ ‘‘ (حقیقۃالنبوت ،ص ۱۲۱)
(۶) ۱۹۰۴ء میں مرزا صاحب نے منجملہ اور دعاوی کے ایک دعویٰ یہ بھی کیا کہ وہ کرشن ہیں۔ (لیکچر سیالکوٹ از مرزا صاحب ،مورخہ ۲ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۳۴)
ان مختلف مراحل میں مرزا صاحب نے ان مسائل کے متعلق جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان مابہ النزاع رہے ہیں ، کیا بیانات دئیے اور ان کی جماعت کاکیا موقف رہا، اس کو ہم علیحدہ علیحدہ عنوانات کے تحت ذیل میں درج کرتے ہیں۔