اس تنقید سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادی النظر میں سود کہ ایک معقول چیز قرار دینے کے لیے جو دلائل کافی سمجھ لیے جاتے ہیں، ذرا گہرائی میں جاتے ہی ان کی کمزوری کھلنی شروع ہو جاتی ہے۔ جہاں تک اس قرض کا تعلق ہے جو شخصی حاجات کے لیے لیا جاتا ہے، اس پر سود عائد ہونے کے لیے تو سرے سے کوئی عقلی دلیل موجود ہی نہیں ہے، حتیٰ کہ حامیانِ سود نے خود ہی اس کمزور مقدمے سے ہاتھ اٹھالیا ہے۔ رہا وہ قرض جو کاروباری اغراض کے لیے لیا جاتا ہے، تو اس کے بارے میں بھی حامیانِ سود کو اس پیچیدہ سوال سے سابقہ پیش آتا ہے کہ سود آخر کس چیز کی قیمت ہے؟ ایک دائن اپنے سرمایہ کے ساتھ مدیون کو وہ کون سی جوہری (substantial) چیز دیتا ہے جس کی ایک مالی قیمت، اور وہ بھی ماہ بماہ اور سال بسال ادا شدنی قیمت مانگنے کا اسے حق پہنچتا ہو؟ اس چیز کے مشخص کرنے میں حامیانِ سود کو خاصی پریشانی پیش آتی ہے۔
ایک گروہ نے کہا کہ وہ ’’فائدہ اٹھانے کا موقع‘‘ ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر کی تنقید سے آپ کو معلوم ہو چکا ہے، یہ ’’موقع‘‘ کسی متعین اور یقینی اور روز افزوں قیمت کا استحقاق پیدا نہیں کرتا، بلکہ صرف اس صورت میں ایک متناسب نفع کا استحقا ق پیدا کرتا ہے جب کہ فی الواقع روپیہ لینے والے کو نفع ہو۔
دوسرا گروہ تھوڑی سی پوزیشن تبدیل کر کے کہتا ہے کہ وہ چیز ’’مہلت‘‘ ہے جو دائن اپنے سرمایہ کے ساتھ اس کے استعمال کے لیے مدیون کو دیتا ہے۔ یہ مہلت بجائے خود اپنی ایک قیمت رکھتی ہے اور جس قدر یہ دراز ہوتی جائے اس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس رو ز آدمی روپیہ لے کر کام میں لگاتا ہے اس روز سے لے کر اس دن تک جب کہ اس سرمایہ کے ذریعے سے تیار کیا ہوا مال بازار میں پہنچے اور قیمت لائے، ایک ایک لمحہ کاروباری آدمی کے لیے قیمتی ہے۔ یہ مہلت اگر اسے نہ ملے اور بیچ ہی میں سرمایہ اس سے واپس لے لیا جائے تو سرے سے اس کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا یہ وقت روپیہ لے کر لگانے والے کے لیے یقیناً ایک قیمت رکھتا ہے جس سے وہ فائدہ اٹھا رہا ہے، پھر کیوں نہ روپیہ دینے والا اس فائدہ میں سے حصہ لے؟ اور اس وقت کی کمی بیشی کے ساتھ مدیون کے لیے نفع کے امکانات بھی لامحالہ کم و بیش ہوتے ہیں، پھر کیوں نہ دائن وقت ہی کی درازی و کوتاہی کے لحاظ سے اس کی قیمت مشخص کرے؟
مگر یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر روپیہ دینے والے کو کس ذریعۂ علم سے یہ معلوم ہوگیا کہ جو شخص کام میں لگانے کے لیے اس سے روپیہ لے رہا ہے وہ ضرور نفع ہی حاصل کرے گا، نقصان سے دوچار نہ ہوگا؟ اور پھر یہ اس نے کیسے جانا کہ اس کا نفع بھی لازماً اس قدر فی صدی رہے گا لہٰذا ضرور اتنے فی صدی اس کو روپیہ دینے والے کا حصہ ادا کرنا چاہیے؟ اور پھر اس کے پاس یہ حساب لگانے کا آخر کیا ذریعہ ہے کہ وہ وقت جس کے دوران میں وہ مدیون کو اپنے روپے کے استعمال کی مہلت دے رہا ہے لازماً ہر مہینے اور ہر سال اتنا نفع لاتا رہے گا، لہٰذا ضرور اس کی ماہوار یا سالانہ قیمت یہ قرار پانی چاہیے؟ ان سوالات کا کوئی معقول جواب حامیانِ سود کے پاس نہیں ہے ، اس لیے بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ کاروباری معاملات میں اگر کوئی چیز معقول ہے تو وہ صرف نفع و نقصان کی شرکت اور متناسب حصہ داری ہے نہ کہ سود جو ایک متعین شرح کے ساتھ عائد کر دیا جائے۔