(۸) مرزا صاحب کی جن تحریرات سے مسلمانوں کے دلوں میں یہ شبہ پیداہواتھا کہ وہ نبوت کے مدعی ہیں یا دعویٰ کرنے والے ہیں ، ان کی حسب ذیل توجیہات کرکے ابتداً وہ مسلمانوں کو مطمئن کرتے رہے۔‘‘
۱۔ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کے قائل ہیں اور آنحضرت ؐ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیںاور وحی نبوت نہیں بلکہ وہ وحی ولایت، جو زیرسایہ نبوت محمدیہ اور باتباع آں حضرت محمد ؐ اولیاء اللہ کو ملتی ہے ، اس کے ہم قائل ہیں… غرض نبوت کا دعویٰ اس طرف بھی نہیں صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے۔
(اشتہار از مرزا غلام احمد صاحب، مندرجہ تبلیغ رسالت جلد ۶،ص ۳۰۲)
۲۔’’یہ عاجزنہ نبی ہے اور نہ رسول ہے ، صرف اپنے نبی معصوم محمد مصطفی ﷺکا ایک ادنیٰ خادم اور پیرو ہے۔ ‘‘
(ارشاد مرزا غلام احمد صاحب مندرجہ قمر الہدیٰ ، مولفہ قمر الدین صاحب جہلمی ، ص۵۸)
۳۔’’یہ سچ ہے کہ وہ الہام جو خدا نے اس بندے پر نازل فرمایااس میں اس بندے کی نسبت نبی اور رسول اور مرسل کے لفظ بکثرت موجود ہیں۔ سو یہ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں …ہم اس بات کے قائل اور معترف ہیں کہ نبوت کے حقیقی معنوں کی رو سے بعد آنحضرت ؐ نہ کوئی نیا نبی آسکتاہے اور نہ پرانا۔ قرآن ایسے نبیوں کے ظہور سے مانع ہے ۔ مگر مجازی معنوں کی رو سے خدا کا اختیار ہے کہ کسی ملہم کو نبی کے لفظ سے یا رسول کے لفظ سے یاد کرے۔
(سراج منیر، مرزا غلام احمد صاحب ،ص ۳۰۲)
۴۔ ’’اگرچہ عرصہ بیس سال سے متواتر اس عاجز کو الہام ہواہے اکثر دفعہ ان میں رسول یانبی کا لفظ آگیاہے ، لیکن وہ شخص غلطی کرتاہے جو ایسا سمجھتاہے کہ اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت ہے …سو چونکہ ایسے لفظوں سے جو محض استعارے کے رنگ میں ہیں، اسلام میں فتنہ پڑتاہے اور اس کانتیجہ سخت بدنکلتاہے ، اس لیے اپنی جماعت کی معمولی بول چال اور دن رات کے محاورات میں یہ لفظ نہیں آنے چاہییں۔
مرزا صاحب کا خط مندرجہ اخبار ۔ الحکم قادیان ، مورخہ ۱۷ / اگست ۱۸۹۹ء ۔منقول از مسیح موعود اور ختم نبوت، مولوی محمد علی صاحب ایم اے ، ص ۴)
۵۔ ’’میں نبی نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے محدث اور اللہ کا کلیم ہوں۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، مرزا غلام احمد صاحب ، ص ۳۸۳)
۶۔ میں نے ہرگز نبوت کادعویٰ نہیں کیا اور نہ میں نے انہیں کہاہے کہ میں نبی ہوں لیکن ان لوگوں نے جلدی کی اور میرے قول کے سمجھنے میں غلطی کی …میں نے لوگوں سے سوائے اس کے جو میں نے اپنی کتابوں میں لکھاہے اور کچھ نہیں کہاکہ میں محدث ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے اسی طرح کلام کرتاہے جس طرح محدثین سے ۔
(حمامتہ البشریٰ ،مرزا غلام احمد صاحب، ص ۹۶)
۷۔ ’’محدث جو مرسلین میں سے اُمتی بھی ہوتاہے اور ناقص طور پر نبی بھی۔ ‘‘
(ازالہ اوہام ، مرزا غلام احمد صاحب، ص ۵۶۹)
۸۔ ’’محدث بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتاہے ، گواس کے لیے نبوت تامہ نہیں، مگر جزئی طور پر وہ ایک نبی ہی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا ایک شرف رکھتاہے۔ امور غیبیہ اس پر ظاہر کیے جاتے ہیں اور نبیوں کی وحی کی طرح اس کی وحی کو بھی دخل شیطان سے منزہ کیاجاتاہے۔ ‘‘ (توضیح مرام، مرزا غلام احمد صاحب، ص ۱۸)
۹۔ ’’اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت بھی حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیرحقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اورلغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں ،مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے۔ ‘‘ (انجام آتھم ، مرزا غلام احمد صاحب ، ص ۲۷)
۱۰۔ ’’پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی ، یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں، اس کی کثرت کانام بموجب حکم الٰہی نبوت رکھتاہوں ، ولکل ان یصطلع ‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی، مرزا غلام احمد ، ص ۶۸)
۱۱۔ ’’تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام و توضیح المرام وازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے ، یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے ، یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں میں محمول نہیں ہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کیے گئے ہیں ، ورنہ حاشاوَکَلاَّ مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں ہے …سو میں تمام مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں پر یہ الفاظ شاق ہیں تو وہ ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرماکر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں ، کیونکہ کسی طرح مجھ کو مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق ڈالنا منظور نہیں ہے …بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اس کو یعنی لفظ نبی کو کاٹاہوا خیال فرمالیں ۔ ‘‘
(تحریری بیان مورخہ ۳ فروری ۱۸۹۲ء جو جلسہ عام میں پڑھا گیا ۔ مندرجہ تبلیغ رسالت، جلد ۲ ، ص ۹۵)