(۱۴)مئی ۱۹۵۲ء کے بعدسے مسلسل کئی مہینے تک پنجاب اوربہاول پورکے (جہاں کا درحقیقت یہ معاشرتی اورمعاشی مسئلہ تھا)ہرحصے میںاس مسئلے کے متعلق بلامبالغہ ہزاروں جلسے ہوئے۔مسلم پبلک کے مطالبات قراردادوں کی شکل میںپاس ہوئے۔حکومت کے پاس وفودبھی گئے جنھوںنے براہ راست یہ مطالبات وزیراعظم کے سامنے پیش کیے۔مگران ساری کوششوںکاجونتیجہ نکلاوہ یہ تھاکہ۲۲/دسمبر۱۹۵۲ء کو جو (basic principles committees repot)شائع ہوئی اس میںسرے سے قادیانی مسئلہ کاکوئی حل پیش نہیںکیاگیاتھا۔اس چیزنے مسلم عوام کے اندرآئینی طریق کارسے عام مایوسی پیدا کردی اوردرحقیقت اسی چیزنے اس غیرآئینی طریق کارکے لیے زمین ہموارکی جو بعد میںاحرارنے ڈائریکٹ ایکشن کی شکل میںتجویزکیا۔میںاپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بناپریہ جانتاہوںکہ مسلمان فطرتاًشورش پسندنہیںہیںاورپاکستان کے مسلم عوام تو خصوصیت کے ساتھ یہ احساس رکھتے ہیںکہ خطرات کے درمیان گھرے ہوئے اس ملک میںامن و انتظام کودرہم برہم کرنے والی کوئی تحریک مناسب نہیں ہے۔ اس لیے میںیہ پورے وثوق کے ساتھ کہتاہوںکہ اگر ایک پبلک مطالبہ کوجس کے بارے میںلوگوںکے اندرتلخ احساسات موجودتھے یوں حقارت کے ساتھ مسلسل نہ ٹھکرایا جاتا اور لوگوںکوآئینی طریقہ کارسے مایوس نہ کردیا جاتا تو کوئی جماعت بھی یہاںکے عوام کو ڈائریکٹ ایکشن اورقانون شکنی پرآمادہ کرنے میں کامیاب نہیںہوسکتی تھی۔