اب رہے بین الاقوامی قرضے، تو اس معاملہ میں یہ تو بالکل ظاہر ہی ہے کہ موجودہ سود خور دنیا میں ہم اپنی قومی ضرورت کے موقع پر کہیں سے ایک پیسہ بلاسود قرض پانے کی توقع نہیں کرسکتے۔ اس پہلو میں تو ہم کو تمام تر کوشش یہی کرنی ہوگی کہ ہم بیرونی قوموں سے کوئی قرض نہ لیں، کم از کم اس وقت تک تو ہر گز نہ لیں جب تک کہ ہم خود دوسروں کو اس امر کا نمونہ نہ دکھا دیں کہ ایک قوم اپنے ہمسایوں کو کس طرح بلاسود قرض دے سکتی ہے۔ رہا قرض دینے کا معاملہ تو جو بحث اس سے پہلے ہم کر چکے ہیں اس کے بعد شاید کسی صاحبِ نظر آدمی کو بھی یہ تسلیم کرنے میں تامل نہ ہوگا کہ اگر ایک دفعہ ہم نے ہمت کر کے اپنے ملک میں ایک صالح مالی نظام بندشِ سود اور تنظیم زکوٰۃ کی بنیاد پر قائم کرلیا تو یقیناً بہت جلدی ہماری مالی حالت اتنی اچھی ہو جائے گی کہ ہمیں نہ صرف خود باہر سے قرض لینے کی حاجت نہ ہوگی بلکہ ہم اپنے گرد و پیش کی حاجت مند قوموں کو بلاسود قرض دینے کے قابل ہو جائیں گے اور جس روز ہم یہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے وہ دن دور جدید کی تاریخ میں صرف مالی اور معاشی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور تمدنی اور اخلاقی حیثیت سے بھی ایک انقلاب انگیز دن ہوگا۔ اس وقت یہ امکان پیدا ہو جائے گا کہ ہمارا اور دوسری قوموں کا تمام لین دین غیر سودی بنیاد پر ہو۔ یہ بھی ممکن ہوگا کہ دنیا کی قومیں یکے بعد دیگرے باہم ایسے معاہدات طے کرنے شروع کر دیں کہ وہ ایک دوسر ے سے سود نہیں لیں گے اور بعید نہیں کہ وہ دن بھی ہم دیکھ سکیں جب بین الاقوامی رائے عام سود خوری کے خلاف بالاتفاق اسی نفرت کا اظہار کرنے لگے جس کا اظہار ۱۹۴۵ء میں بریٹن ووڈس کے معاملے پر انگلستان میں کیا گیا تھا۔یہ محض ایک خیالی پلائو نہیں ہے ، بلکہ فی الواقع آج بھی دنیا کے سوچنے والے دماغ پر سوچ رہے ہیں کہ بین الاقوامی قرضوں پر سود لگنے سے دنیا کی سیاست اور معیشت، دونوں پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس طریقے کو چھوڑ کر اگر خوش حال ممالک اپنی فاضل دولت کے ذریعے سے خستہ حال اور آفت رسیدہ ممالک کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانے کی مخلصانہ و ہمدردانہ کوشش کریں تو اس کا دوہرا فائدہ ہوگا۔ سیاسی و تمدنی حیثیت سے بین الاقوامی بدمزگی بڑھنے کے بجائے محبت اور دوستی بڑھے گی۔ اور معاشی حیثیت سے ایک خستہ حال دیوالیہ ملک کا خون چوسنے کی بہ نسبت ایک خوش حال اور مال دار ملک کے ساتھ کاروبار کرنا بدر جہا زیادہ نافع ثابت ہوگا۔ یہ حکمت کی باتیں سوچنے والے سوچ رہے ہیں اور کہنے والے کہہ رہے ہیں، لیکن ساری کسر بس اس بات کی ہے کہ دنیا میں کوئی حکیم قوم ایسی ہو جو پہلے اپنے گھر سے سود خوری کو مٹائے اور آگے بڑھ کر بین الاقوامی لین دین سے اس لعنت کو خارج کرنے کی عملاً ابتدا کر دے۔