بینکنگ کے متعلق جو بحث ہم اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں کر چکے ہیں اس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کام سرے سے ہی غلط یا ناجائز نہیں ہے۔ دراصل بینکنگ بھی موجودہ، تہذیب کی پرورش کی ہوئی بہت سی چیزوں کی طرح ایک ایسی اہم اور مفید چیز ہے جس کو صرف ایک شیطانی عنصر کی شمولیت نے گندہ کر رکھا ہے۔ اول تو وہ بہت سی ایسی جائز خدمات انجام دیتا ہے جو موجودہ زمانے کی تمدنی زندگی اور کاروباری ضروریات کے لیے مفید بھی ہیں اور ناگزیر بھی۔ مثلاً رقموں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنا اور ادائیگی کا انتظام کرنا، بیرونی ممالک سے لین دین کی سہولتیں بہم پہنچانا، قیمتی اشیاء کی حفاظت کرنا، اعتماد نامے (letters of credit) ، سفری چک اور گشتی نوٹ جاری کرنا، کمپنیوں کے حصص کی فروخت کا انتظام کرنا، اور بہت سی وکیلانہ خدمات (agency services) جنہیں تھوڑے سے کمیشن پر بینک کے سپرد کر کے آج ایک مصروف آدمی بہت سے جھنجھٹوں سے خلاصی پالیتا ہے۔ یہ وہ کام ہیں جنہیں بہرحال جاری رہنا چاہیے اوران کے لیے ایک مستقل ادارے کا ہونا ضروری ہے۔ پھر یہ بات بھی بجائے خود تجارت ، صنعت، زراعت اور ہر شعبۂ تمدن و معیشت کے لیے نہایت مفید اور آج کے حالات کے لحاظ سے نہایت ضروری ہے کہ معاشرے کا فاضل سرمایہ بکھرا ہوا رہنے کے بجائے ایک مرکزی ذخیرہ (reservoir) میں مجتمع ہو اور وہاں سے زندگی کے ہر شعبے کو آسانی کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ بہم پہنچ سکے۔ اس کے ساتھ عام افراد کے لیے بھی اس میں بڑی سہولت ہے کہ جو تھوڑا بہت سرمایہ ان کی ضرورت سے بچ رہتا ہے اسے وہ کسی نفع بخش کام میں لگانے کے مواقع الگ الگ بطور خود ڈھونڈتے پھرنے کے بجائے سب اس کو ایک مرکزی ذخیرے میں جمع کرا دیا کریں اور وہاں ایک قابل اطمینان طریقے سے اجتماعی طور پر ان سب کے سرمائے کو کام پر لگانے اور حاصل شدہ منافع کو ان پر تقسیم کرنے کا انتظام ہوتا رہے۔ ان سب پر مزید یہ کہ مستقل طور پر مالیات (finance) ہی کا کام کرتے رہنے کی وجہ سے بینک کے منتظمین اور کارکنوں کو اس شعبۂ فن میں ایک ایسی مہارت اور بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جو تاجروں، صناعوں اور دوسرے معاشی کارکنوں کو نصیب نہیں ہوتی ۔ یہ ماہرانہ بصیرت بجائے خود ایک نہایت قیمتی چیز ہے اور بڑی مفید ثابت ہوسکتی ہے بشرطیکہ یہ محض ساہوکار کی خود غرضی کا ہتھیار بن کر نہ رہے بلکہ کاروباری لوگوں کے ساتھ تعاون میں استعمال ہو۔ لیکن بینکنگ کی ان ساری خوبیوں اور منفعتوں کو جس چیز نے الٹ کر پورے تمدن کے لیے برائیوں اور مضرتوں سے بدل دیا ہے وہ سود ہے اور اس کے ساتھ دوسری بنائے فاسد یہ بھی شامل ہو گئی ہے کہ سود کی کشش سے جو سرمایہ کھچ کھچ کر بینکوں میں مرتکز ہوتا ہے وہ عملاً چند خود غرض سرمایہ داروں کی دولت بن کر رہ جاتا ہے جسے وہ نہایت دشمنِ اجتماع (anti social) طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ ان دو خرابیوں کو اگر دور کر دیا جائے تو بینکنگ ایک پاکیزہ کام بھی ہو جائے گا، تمدن کے لیے موجودہ حالت کی بہ نسبت بدرِ جہا زیادہ نافع بھی ہوگا اور عجب نہیں کہ خود ساہوکاروں کے لیے بھی سود خوری کی بہ نسبت یہ دوسرا پاکیزہ طریقِ کار مالی حیثیت سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو۔
جولوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ انسدادِ سود کے بعد بینکوں میں سرمایہ اکٹھا ہونا ہی بند ہو جائے گا وہ غلطی پر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب سود ملنے کی توقع ہی نہ ہوگی تو لوگ کیوں اپنی فاضل آمدنیاں بینک میں رکھوائیں گے۔ حالانکہ اس وقت سود کی نہ سہی، نفع ملنے کی توقع تو ضرور ہوگی، اور چونکہ نفع کا امکان غیر متعین اور غیر محدود ہو گا، اس لیے عام شرح سود کی بہ نسبت کم نفع حاصل ہونے کا جس قدر امکان ہوگا اسی قدر اچھا خاصا زیادہ نفع ملنے کا امکان بھی ہوگا ۔ اس کے ساتھ بینک وہ تمام خدمات بدستور انجام دیتے رہیں گے جن کی خاطر اب لوگ بینکوں کی طرف رجوع کیا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بالکل ایک یقینی بات ہے کہ جس مقدار میں اب سرمایہ بینکوں کے پاس آتا ہے اسی مقدار میں انسداد سود کے بعد بھی آتا رہے گا، بلکہ اس وقت چونکہ ہر طرح کے کاروبار کو زیادہ فروغ حاصل ہوگا ، روزگار بڑھ جائے گا، اور آمدنیاں بھی بڑھ جائیں گی، اس لیے موجودہ حالت کی بہ نسبت کہیں بڑھ چڑھ کر فاضل آمدنیاں بینکوں میں جمع ہوں گی۔
اس جمع شدہ سرمایہ کا جس قدر حصہ چالو کھاتے یا عند الطلب کھاتے میں ہوگا اس کو تو بینک کسی نفع بخش کام میں نہ لگا سکیں گے، جس طرح اب بھی نہیں لگا سکتے ۔ اس لیے وہ زیادہ تر دو بڑے کاموں میں استعمال ہوگا۔ ایک روز مرہ کا نقد لین دین۔ دوسرے کاروباری لوگوں کو قلیل المدت قرضے بلا سود دینا، اور ہنڈیاں بلا سود بھُنانا۔
رہا وہ سرمایہ جو لمبی مدت کے لیے بینکوں میں رکھا جائے گا تو وہ لازماً دو ہی قسم کا ہوگا۔ ایک وہ جس کے مالک صرف اپنے مال کی حفاظت چاہتے ہوں۔ ایسے لوگوں کے مال کو بینک قرض کے طور پر لے کر خود کاروبار میں استعمال کرسکیں گے، جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ دوسرا وہ جس کے مالک اپنے مال کو بینکوں کے توسط سے کاروبار میں لگانا چاہتے ہوں۔ ان کے مال کو امانت میں رکھنے کے بجائے ہر بینک کو ان کے ساتھ ایک شراکت نامۂ عام طے کرنا ہوگا ۔ پھر بینک اس سرمایہ کو اپنے دوسرے سرمایوں سمیت مضاربت کے اصول پر تجارتی کاروبار میں، صنعتی اسکیموں میں، زراعتی کاموں میں، اور پبلک اداروں اور حکومتوں کے نفع آور کاموں میں لگا سکیں گے، اور اس سے بحیثیت مجموعی دو عظیم الشان فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ ساہوکار کا مفاد کاروبار کے مفاد کے ساتھ متحد ہو جائے گا، اس لیے کاروبار کی ضرورت کے مطابق سرمایہ اس کی پشتیبانی کرتا رہے گا اور وہ اسباب قریب قریب ختم ہو جائیں گے جن کی بنا پر موجودہ سود خور دنیا میں کساد بازاری کے دورے پڑا کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ساہوکار کی مالیاتی بصیرت اور کاروباری لوگوں کی تجارتی و صنعتی بصیرت، جو آج باہم نبرد آزمائی کرتی رہتی ہیں، اس وقت ایک دوسرے کے ساتھ دستیاری اور تعاون کریں گے اور یہ سب ہی کے لیے مفید ہوگا۔ پھر جو منافع ان ذرائع سے بینکوں کو حاصل ہوں گے ان کو وہ اپنے انتظامی مصارف نکالنے کے بعد، ایک مقرر تناسب کے مطابق اپنے حصے داروں اور کھاتہ داروں میں تقسیم کر دیں گے۔ اس معاملے میں فرق صرف یہ ہوگا کہ بحالتِ موجودہ منافع (dividends) بینکوں کے حصے داروں میں تقسیم ہوتے ہیں اور کھاتہ داروں کو سود دے دیا جاتا ہے۔ اس وقت دونوں میں منافع ہی تقسیم ہوں گے۔ اب کھاتہ داروں کو ایک متعین شرح کے مطابق سود ملا کرتا ہے۔ اس وقت شرح کا تعین نہ ہوگا بلکہ جتنے بھی منافع ہوں گے، خواہ کم ہوں یا زیادہ، وہ سب ایک تناسب کے ساتھ تقسیم ہو جائیں گے۔ نقصان اور دیوالہ کا جتنا خطرہ اب ہے اتنا ہی اس وقت بھی ہوگا۔ اب خطرہ اور اس کے بالمقابل غیر محدود نفع کا امکان، دونوں صرف بینک کے حصہ داروں کے لیے مخصوص ہیں۔ اس وقت یہ دونوں چیزیں کھاتہ داروں اور حصہ داروں میں مشترک ہو جائیں گی۔
رہ گیا بینکنگ کا یہ نقصان کہ نفع کی کشش سے جو سرمایہ ان کے پاس اکٹھا ہوتا ہے اس کی مجتمع طاقت پر عملاً صرف چند ساہوکار قابض و متصرف ہوتے ہیں، تو اس کے تدارک کے لیے ہم کو یہ کرنا ہوگا کہ مرکزی ساہوکاری (central banking) کا سارا کام بیت المال یا اسٹیٹ بینک خود اپنے ہاتھ میں رکھے اور قوانین کے ذریعے سے تمام پرائیویٹ بینکوں پر حکومت کا اقتدار اور دخل و ضبط اس حد تک قائم کر دیا جائے کہ ساہوکار اپنی مالیاتی طاقت کا بیجا استعمال نہ کرسکیں۔
غیر سودی مالیات کا یہ مجمل نقشہ جو ہم نے پیش کیا ہے، کیا اسے دیکھنے کے بعد بھی اس شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہ جاتی ہے کہ سود کا انسداد قابلِ عمل نہیں ہے؟