Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
شہادتِ حق اُمّتِ مُسلمہ کا فرض اور مقصدِ وجود
اجتماعات کا حصہ
ہماری دعوت
مسلمانوں کی ذِمّہ داریاں
اُمّتِ مسلمہ کا مقصدِ وجود
شہادتِ حق
شہادت کی اہمیت
اُمّت پر اِتمامِ حجت
کوتاہی پر مواخذہ
طریقۂ شہادت
قولی شہادت
عملی شہادت
تکمیلِ شہادت
ہماری قولی شہادت کا جائزہ
ہماری عملی شہادت کا جائزہ
کِتمانِ حق کی سزا
آخرت کی پکڑ
مسلمانوں کے مسائل و حقوق اور اس کا حل
اصل مسئلہ
ہمارا مقصد
ہمارا طریقۂ کار
نظمِ جماعت
کام کے تین راستے
مختلف دینی جماعتیں
شرکاسے ہمارا مطالبہ
مطلوب کام
اعتراضات اور ان کے جوابات
نیافرقہ
اجتہادی مسائل میں ہمارا مسلک
غلو سے پرہیز
امارت میں غلو
اُصولی تحریک
انتخابِ امیر
علیحدہ جماعت بنانے کی ضرورت
امیر یا لیڈر
اسلام کا مزاج
وصولیٔ زکوٰۃ کا حق
بیت المال

شہادتِ حق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

بیت المال

اس سے بھی زیادہ ایک نرالا اعتراض یہ سننے میں آیا کہ ’’ تم نے بیت المال کیوں بنایا؟‘‘ اس قسم کے اعتراضات سن کر معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو شاید اسلام کی اصطلاحات ہی سے کچھ بغض ہو گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ہر جماعت اور ہر انجمن، اپنا ایک خزانہ ضرور رکھتی ہے، تاکہ اجتماعی کاموں میں مال صَرف کر سکے۔ ہماری جماعت کا بھی ایک خزانہ ہے اور اسے ہم ’’بیت المال‘‘ کہتے ہیں، کیوں کہ یہی اسلامی اصطلاح ہے۔ اگر ہم اس کا نام خزانہ رکھتے تو انھیں کوئی اعتراض نہ تھا۔ اگر اسے ہم treasury (انجمن کا سرمایہ) کہتے تب بھی یہ خوش ہوتے، مگر جب ہم نے اس کے لیے، ایک اسلامی اصطلاح استعمال کی، تو اسے یہ برداشت نہ کر سکے۔
اِن اعتراضات میں سے اکثر اتنے مہمل تھے کہ مَیں ان کا ذکر کر کے اور اُن کا جواب دے کر، حاضرین کا وقت ضائع کرنا کبھی پسند نہ کرتا، مگر مَیں نے یہ چند چیزیں نمونے کے طور پر، صرف اس لیے پیش کی ہیں کہ جو لوگ نہ خود اپنا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں، نہ کسی دُوسرے کو ادا کرنے دینا چاہتے ہیں وہ کس قسم کے حیلے بہانے اور اعتراضات و شبہات ڈھونڈ کر نکالتے ہیں اور کس طرح خدا کے راستے سے خود رکتے ہیں اور دُوسروں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارا طریقہ جھگڑے اور مناظرے کرنے کا نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص ہماری بات کو سیدھی طرح سمجھنا چاہے تو ہم ہر وقت اُسے سمجھانے کے لیے حاضر ہیں،اور اگر کوئی ہماری غلطی، ہمیں معقول طریقے سے سمجھانا چاہے تو ہم سمجھنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن اگر کسی کے پیش نظر محض اُلجھنا اور اُلجھانا ہی ہو، تو اس سے ہم کوئی تعرض کرنا پسند نہیں کرتے۔ اسے اختیار ہے کہ جب تک چاہے، اپنا یہ شغل جاری رکھے۔

٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں