اس وقت ہمارے ملک میں جو معاشی نظام رائج ہے وہ صرف انگریزی دورِ حکومت ہی کی یادگار نہیں ہے بلکہ انگریزوں سے بھی پہلے سے اس نظام کی خرابیاں واضح تھیں۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی لوگ چیخ رہے تھے اور ایک ظالمانہ معاشی نظام سے سخت نالاں و پریشان تھے ۔ جب انگریز آئے تو انہوں نے اس وقت کی خرابیوں پر بے شمار نئی خرابیوں کا اضافہ کر دیا اور پہلے سے کہیں بدتر نظام ملک پر مسلط کر دیا۔
انگریزی دور میں خرابیوں کے اضافے کی وجہ یہ تھی کہ اول تو وہ ایک خالص مادہ پرستانہ تہذیب کے علمبردار تھے۔ دوسرے وہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے عروج کا زمانہ تھا جس میں سرمایہ دار کو مکمل آزادی حاصل تھی اور اس پر کوئی قدغن نہ تھی۔ اس پر مزید یہ کہ انگریز اپنے ساتھ استعماری اغراض لے کر آئے تھے اور یہاں کے باشندوں کو لوٹ کر اپنے قومی مفاد کی خدمت کرنا ان کے پیشِ نظر تھا۔ ان تین چیزوں کی وجہ سے ان کا مسلط کردہ نظام ظلم کا مجموعہ بن گیا۔
اس کے بعد ہمیں ان کی غلامی سے تو نجات مل گئی مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کے چلے جانے پر بھی یہاں کے معاشی نظام میں کسی تبدیلی کے آثار رونما نہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سیاسی انقلاب کسی اخلاقی اور فکری انقلاب کی جدوجہد کے نتیجے میں رونما نہیں ہوا تھا بلکہ یہ ایک مصنوعی انقلاب تھا جو محض ایک سیاسی کشاکش کے نتیجے میں رونما ہوگیا تھا۔ حصولِ آزادی سے ایک روز پہلے بھی کسی کے پاس آئندہ کے لیے کوئی نقشۂ کار نہیں تھا ۔ کسی نظامِ زندگی کا واضح تصور موجود نہ تھا۔ ملت کے سامنے کوئی پروگرام نہ تھا جسے لے کر چلنا مقصود ہوتا۔ آزادی ملنے کے بعد سے آج تک ہمارے ہاں کسی خرابی میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ انگریز نے سرمایہ داری، استعماریت اور مادہ پرستی کی بنیاد پر جو نظام قائم کیا تھا وہ آج بھی جوں کا توں قائم ہے۔ اسے بدلنے کے بجائے الٹی اس کو ترقی دی جا رہی ہے۔ جو قوانین اس نظام کی حفاظت کے لیے بنائے گئے تھے ، ان میں پاکستان بننے کے بعد کسی تبدیلی اور ترمیم کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی۔ انگریزوں نے اپنی استعماری طاقت کے استحکام کے لیے جو ضوابط بنائے تھے وہ اسی طرح قائم ہیں۔ وہی انتظامی پالیسی کار فرما ہے اور وہی تعلیمی نظام رائج ہے۔
اگر ہماری آزادی کسی اخلاقی اور اصولی جدوجہد کا فطری نتیجہ ہوتی تو ہمارے سامنے اول روز سے کوئی نقشہ ہوتا جس پر اس ملک کو چلایا جاتا۔ یہ نقشہ بہت پہلے بنالیا گیا ہوتا اور آزادی ملنے کے بعد ایک دن بھی ضائع کیے بغیر ہم ایک متعین راہ پر چل پڑتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آج ہمارے دورِ غلامی کی خرابیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں۔ بلکہ انگریزی دور کی خرابیوں میں ہمارے ہاں اب بہت کچھ اضافہ ہو چکا ہے اور ان کو نشوونما نصیب ہو رہی ہے۔