اب ہم اصل بحث کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پیرا گراف ۲۶ میں فاضل جج یکے بعد دیگرے ۹ حدیثیں نقل کرتے چلے گئے ہیں اور کسی جگہ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کس حدیث کے مضمون پر انھیں کیا اعتراض ہے، البتہ پیرا گراف ۲۷ میں وہ اختصار کے ساتھ اس خیال کا اظہار فرماتے ہیں کہ ان احادیث میں جو ’’عریانی‘‘ پائی جاتی ہے اس کی بِنا پر وہ یہ باور نہیں کر سکتے کہ واقعی یہ احادیث سچی ہوں گی۔ غالباً ان کا خیال یہ ہے کہ نبی ﷺ اور خواتین کے درمیان اور پھر ازواج مطہرات اور ان کے شاگردوں کے درمیان ایسی کھلی کھلی گفتگو آخر کیسے ہو سکتی تھی۔ اس سلسلے میں فاضل جج کی پیش کردہ احادیث پر فردًا فردًا کلام کرنے سے پہلے چند اصولی باتیں بیان کر دینی ضروری ہیں، کیوں کہ موجودہ زمانے کے ’’تعلیم یافتہ‘‘ اصحاب بالعموم انھی باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اس طرح کی احادیث پر الجھتے ہیں۔
اول: یہ کہ انسان کی داخلی زندگی کے چند گوشے ایسے ہیں جن کے متعلق اسی کو ضروری تعلیم وتربیت اور ہدایات دینے میں شرم کا بے جا احساس اکثر مانع ہوتا رہا ہے، اور اسی وجہ سے اعلیٰ ترقی یافتہ قومیں تک ان کے بارے میں طہارت ونظافت کے ابتدائی اصولوں تک سے ناواقف رہی ہیں۔ شریعتِ الٰہی کا یہ احسان ہے کہ اس نے ان گوشوں کے بارے میں بھی ہم کو ہدایات دیں اور ان کے متعلق قواعد و ضوابط بتا کر ہمیں غلطیوں سے بچایا۔ غیر قوموں کے صاحبِ فکر لوگ اس چیز کی قدر کرتے ہیں، کیوں کہ ان کی قومیں اس خاص شعبۂ زندگی کی تعلیم وتربیت سے محروم ہیں، مگر مسلمان جن کو گھر بیٹھے یہ ضابطے مل گئے، آج اس تعلیم کی ناقدری کر رہے ہیں، اور عجیب لطیفہ ہے کہ اس ناقدری کے اظہار میں وہ لوگ بھی شریک ہو جاتے ہیں جو اہلِ مغرب کی تقلید میں (sex education) تک مدارس میں رائج کرنے کے قائل ہیں۔
دوم: یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جس نبی پاکﷺ کو ہماری تعلیم کے لیے مامور فرمایا تھا، اسی کے ذمے یہ خدمت بھی کی تھی کہ اس خاص شعبۂ زندگی کی تعلیم وتربیت بھی ہمیں دے۔ اہل عرب اس معاملے میں ابتدائی ضابطوں تک سے ناواقف تھے۔ نبیﷺ نے ان کو….. ان کے مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی ….. طہارت، استنجا، اور غسل وغیرہ کے مسائل، نیز ایسے ہی دوسرے مسائل نہ صرف زبان سے سمجھائے، بلکہ اپنی ازواج مطہرات کو بھی اجازت دی کہ آپﷺ کی خانگی زندگی کے ان گوشوں کو بے نقاب کریں اور عام لوگوں کو بتائیں کہ حضورﷺ خود کن ضابطوں پر عمل فرماتے تھے۔
سوم: یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اسی ضروت کی خاطر حضورﷺ کی ازواج مطہرات کو مومنین کے لیے ماں کا درجہ عطا فرمایا تھا، تاکہ مسلمان اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر زندگی کے ان گوشوں کے متعلق راہ نُمائی حاصل کر سکیں اور جانِبَین میں ان مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کسی قسم کے ناپاک جذبے کی دخل اندازی کا خطرہ نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے پورے ذخیرے میں کوئی ایک نظیر بھی اس بات کی نہیں ملتی کہ جو باتیں امہات المومنین سے پوچھی گئی ہیں وہ خلفائے راشدین یا دوسرے صحابیوں کی بیگمات سے بھی کبھی پوچھی گئی ہوں اور انھوں نے مردوں سے اس نوعیت کی گفتگو کی ہو۔
چہارم: یہ کہ لوگ اپنے گمان سے، یا یہودونصاریٰ کے اثر سے جن چیزوں کو حرام یا مکرو ہ اور اور ناپسندیدہ سمجھ بیٹھے تھے، ان کے متعلق صرف یہ سن کر ان کا اطمینان نہیں ہوتا تھا کہ شریعت میں وہ جائز ہیں۔ حکمِ جواز کے باوجود ان کے دلوں میں یہ شک باقی رہ جاتا تھا کہ شاید یہ کراہت سے خالی نہ ہو، اس لیے وہ اپنے اطمینان کی خاطر یہ معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے کہ حضورﷺ کا اپنا طرز عمل کیا تھا۔ جب وہ یہ جان لیتے تھے کہ حضورﷺ نے خود فلاں عمل کیا ہے، تب ان کے دلوں سے کراہت کا خیال نکل جاتا تھا، کیوں کہ وہ حضورﷺ کو ایک مثالی انسان سمجھتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ جو کام آپؐ نے کیا ہو وہ مکروہ یا پایۂ ثقاہت سے گرا ہوا نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک اہم وجہ ہے جس کی بِنا پرازواج مطہرات کو حضورﷺ کی خانگی زندگی کے بعض ایسے معاملات کو بیان کرنا پڑا جو دوسری خواتین نہ بیان کر سکتی ہیں، نہ ان کو بیان کرنا چاہیے۔
پنجم: یہ کہ احادیث کا یہ حصہ درحقیقت محمدﷺ کی عظمت اور ان کی نبوت کے بڑے اہم شواہد میں شمار کرنے کے لائق ہے۔ محمد رسول اللّٰہﷺ کے سوا دُنیا میں کون یہ ہمت کر سکتا تھا، اور پوری تاریخ انسانی میں کس نے یہ ہمت کی ہے کہ ۲۳ سال تک شب وروز کے ہر لمحے اپنے آپ کو منظر عام پر رکھ دے، اپنی پرائیویٹ زندگی کو بھی پبلک بنا دے، اور اپنی بیویوں تک کو اجازت دے دے کہ میری گھر کی زندگی کا حال بھی لوگوں کو صاف صاف بتا دو۔