(۶)’’مہدی‘‘کے مسئلے کی نوعیت نزول مسیح کے مسئلے سے بہت مختلف ہے۔اس مسئلے میںدوقسم کی احادیث پائی جاتی ہیں۔ایک وہ جن میںلفظ ’’مہدی‘‘کی تصریح ہے۔دوسری وہ جن میںصرف ایک ایسے خلیفہ کی خبردی گئی ہے جوآخرزمانے میں پیدا ہوگا اور اسلام کوغالب کردے گا۔ان دونوںقسم کی روایات میںسے کسی ایک کابھی بلحاظ سندیہ پایہ نہیںہے کہ امام بخاریؒکے معیارتنقیدپرپورااترتا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے مجموعہ حدیث میںکسی کوبھی درج نہیںکیا۔مسلم نے صرف ایک روایت درج کی ہے جولفظ مہدی سے خالی ہے۔(ملاحظہ ہوضمیمہ۲‘روایت نمبر۱۶)دوسری کتابوںمیںجس قدر روایات موجود ہیں، قریب قریب ان سب کوہم نے ضمیمہ ۲میںجمع کردیاہے۔ان روایات میں‘سند سے قطع نظرکرتے ہوئے‘کمزوری کے متعددپہلوہیں:
(الف)ان کے نفس مضمون میںصریح اختلافات ہیں۔روایات نمبر۲‘ ۳‘ ۱۰‘۱۴ اور ۱۵کہتی ہیںکہ وہ خاندان اہل بیت سے ہوگا۔نمبر۱۸ اور ۱۹کہتی ہیںکہ اس کاظہور عباسی خاندان میںہوگا۔نمبر۴ / اس کے ظہورکادائرہ تمام اولادعبدالمطلب تک پھیلادیتی ہے۔ نمبر ۵ / اس دائرے کوپھیلاکرتمام امت تک وسیع کردیتی ہے اور نمبر۱۷ / کہتی ہے کہ وہ اہل مدینہ میںسے ایک شخص ہوگا۔پھرروایت نمبر۱۱ اور۳ا کہتی ہیںکہ اس کانام محمدﷺ کے نام پرہوگااورنمبر۱۴ / کہتی ہے اس کانام اوراس کے باپ کانام، دونوں آنحضرت ﷺ کے اسم گرامی اورآپﷺ کے والدکے نام پرہوںگے۔ان سب کے برعکس نمبر۱۲کی روسے اس کانام حارث ہوگااوروہ آل محمدﷺ کی فرماںروائی کے لیے زمین ہموارکرے گا۔
(ب)متعددروایات میںاس امرکی اندرونی شہادت موجودہے کہ ابتدائے اسلام میںجن مختلف پارٹیوںکے درمیان سیاسی کشمکش برپاتھی‘انھوںنے اپنے مفادکے مطابق اس پیشین گوئی کوڈھالنے کی کوشش کی ہے اوریہ روایات ان کے سیاسی کھیل کاکھلونابننے سے محفوظ نہیںرہ سکی ہیں۔مثلاًروایت نمبرایک میںخراسان کی طرف آنے والے سیاہ جھنڈوںکاذکرہے جوصاف بتاتاہے کہ عباسیوںنے اس روایت میںاپنے مطلب کی بات داخل کی ہے،کیونکہ سیاہ رنگ عباسیوںکاشعارتھااورابومسلم خراسانی نے عباسی سلطنت کے لیے زمین ہموارکی تھی۔اسی طرح روایات نمبر۲‘۳‘۱۰‘ ۱۴ور۱۵کو اگر نمبر۴‘ ۱۸اور۱۹کے مقابلہ میںرکھ کردیکھاجائے توصاف معلوم ہوتاہے کہ ایک طرف اس پیشین گوئی کوبنی فاطمہ نے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی ہے تودوسری طرف بنی عباس اسے اپنی جانب کھینچ لے گئے ہیں۔
(۷)تاہم یہ کہنامشکل ہے کہ یہ تمام روایات بالکل ہی بے اصل ہیں۔تمام آمیزشوںسے الگ کرکے ایک بنیادی حقیقت ان سب میںمشترک ہے اوروہی اصل حقیقت ہے کہ نبی ﷺ نے آخرزمانے میںایک ایسے لیڈرکے ظہورکی پیشین گوئی فرمائی ہے جوزمین کوعدل وانصاف سے بھردے گا‘ظلم وستم مٹادے گا‘سنت نبیﷺ پرعمل کرے گا،اسلام کوغالب کردے گااورخلق خدامیںعام خوش حالی پیداکردے گا۔
(۸)مہدی کے ظہورکاخیال بہرحال انہی روایات پرمبنی ہے اوریہ روایات اس تخیل سے بالکل خالی ہیںکہ مہدی ‘نبوت کے منصب کی طرح کسی دینی منصب کانام ہے جسے ماننا اورتسلیم کرناکسی درجے میںبھی شرعاًضروری ہو۔نبی ﷺ نے اگریہ لفظ استعمال کیاہے توشخص موعودکے لیے بطورایک اسم صفت کے استعمال کیاہے کہ وہ ایک ’’ہدایت یافتہ‘‘شخص ہوگا۔اورایک روایت (نمبر۱۲)میںصرف اتناکہاگیاہے کہ ’’ہرمومن پراس کی مددواجب ہے‘‘۔یہ بات اگرفی الواقع حضور(ﷺ ) نے فرمائی ہے تواس کا مطلب زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہے کہ جس طرح ہرمجاہدفی سبیل اللہ اورحامی حق کی مدد کرنا اورراہ خدامیںاس کاساتھ دینامسلمانوںکے لیے واجب ہے اسی طرح شخص موعودکی مدد کرنابھی واجب ہوگا۔اس کو کسی کھینچ تان سے بھی یہ معنی نہیںپہنائے جاسکتے کہ ’’منصب مہدویت‘‘کے نام سے اسلام میں کوئی دینی منصب پایاجاتاہے جس کوماننایاجس پرایمان لانا واجب ہواورجس کونہ ماننے سے دنیاوآخرت میںکچھ مخصوص اعتقادی ومعاشرتی نتائج پیدا ہوتے ہوں۔پھراحادیث میںکہیںاس عجیب وغریب حرکت کے لیے بھی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ کوئی آدمی اناالمہدی کے نعرے سے ہی دین کاکام کرنے اٹھے اورپھراپنی طاقت کا بڑا حصہ صرف اپنے آپ کومہدی منوانے ہی پرصرف کردے۔
(۹)یہ امربھی قابل ذکرہے کہ مہدی کے متعلق کوئی خاص عقیدہ اسلامی عقائد میں شامل نہیںہے۔اہل سنت کی کتب عقائداس سے بالکل خالی ہیںاورتاریخ کے دوران میںجتنے لوگوںنے بھی مہدویت کادعویٰ کرکے اپنے نہ ماننے والوںکوکافریاگمراہ یا دائرۂ دین سے خارج ٹھہراکراپنے ماننے والوںکی الگ جماعت بندی کی ہے۔علمائے اسلام نے ان سب کی مخالفت کی اورامت کی عظیم اکثریت نے ان کوردکردیا۔