(۱۷)آٹھویںنکتے کومحترم عدالت نے جن الفاظ میںبیان فرمایاہے اس سے یہ بات واضح نہیںہوتی کہ آیاڈائریکٹ ایکشن کے جوازوعدم جوازپراصولی حیثیت سے بحث مطلوب ہے یاصرف وہ خاص ڈائریکٹ ایکشن زیربحث ہے جوختم نبوت کے سلسلے میں کیا گیاتھا۔ہم یہ فرض کرتے ہوئے کہ محترم عدالت کامنشادونوںپہلوئوںپرحاوی ہے۔اس مسئلہ پردونوںحیثیتوںسے گفتگوکریںگے۔
(۱۸)ڈائریکٹ ایکشن سے مرادہمارے نزدیک (civil disobedience) ہے یعنی ’’پرامن نافرمانی‘‘یا’’نافرمانی بلاتشدد‘‘یا’’غیرمسلح نافرمانی ‘‘ہندوستان وپاکستان کی تاریخ میںیہ لفظ آج تک انہی معنوںمیںاستعمال ہواہے اوریہاںکے عوام وخواص اس کایہی مفہوم سمجھتے ہیں۔
اس میںکوئی شک نہیںکہ یہ ایک غیرآئینی طریق کارہے‘کیونکہ آئین ملکی حکومت کی پالیسی پراثراندازہونے یااس سے مطالبات تسلیم کرانے کے جوطریقے مقرر کرتا یا جائزرکھتا ہے‘یہ طریقہ ان میںشامل نہیںہے اورکوئی آئین احکام کی نافرمانی یاقوانین کی خلاف ورزی کوجائزنہیںرکھتالیکن صرف یہ بات کہ یہ ایک غیرآئینی طریق کارہے‘اس کوحق اور انصاف کے خلاف کردینے کے لیے کافی نہیںہے۔انسانی عقل عام حق اور انصاف کے جن تصورات کوہمیشہ سے قبول کرتی رہی ہے اورآج بھی قبول کرتی ہے‘ان کی روسے ایک حکومت‘قطع نظراس سے کہ وہ جمہوری ہویاشخصی یاکسی اورقسم کی‘اطاعت کاغیرمشروط اور غیر محدودرہناچاہیے کہ اس کے احکام ‘ساتھ قوانین‘نظریات اورحکمت عملی معقولیت پر مبنی ہوںاورملک کے عام باشندے ان پرمطمئن ہوں۔کسی حکومت کویہ حق نہیںپہنچتا کہ لوگوں پران کی مرضی کے خلاف ایک نظام یانظریہ یاحکم مسلط کردے جودلیل سے معقول اورجائزثابت نہ کیاجاسکتاہواورجس کا برا اثر لوگوںکے مذہب، یااخلاق یانظم تمدن و معاشرت یامادی مفاد پر پڑتا ہو۔آئین کااحترام اوراس کی پابندی بلاشبہ ملک کے امن و امان کے لیے ضروری ہے اورامن و امان نہایت قیمتی چیزہے مگرایک حکومت غیرمعقول رویہ اختیارکرکے اورعوام کی مرضی کے خلاف ان پراپنی مرضی زبردستی ٹھونس کراوران کے جائزمطالبات اوراظہارناراضی کو ٹھکراکرخودآئین کے بے احترامی کادروازہ کھولتی ہے اورایسارویہ اختیارکرنے کے بعداسے یہ مطالبہ کرنے کاحق باقی نہیںرہتاکہ لوگ اس کے آئین کااحترام کریں۔اس معاملہ میںحکمرانوںکانقطہ نظربالعموم یہ رہاہے کہ لوگوں کو بہرحال اطاعت امرکرنی چاہیے خواہ حکومت معقول رویہ اختیارکرے یاغیرمعقول اورخواہ وہ ظلم کرے یا انصاف۔ نمرودیت اورفرعونیت ہمیشہ اسی اصول کاسہارالیتی رہی ہے مگرانسانیت کے ضمیرنے کبھی اس اصول کوتسلیم نہیںکیاہے اوراسی بناپرانسانیت نے ہمیشہ ان لوگوںکو سراہاہے جنھوںنے ظلم اورجبراورناروااستبدادکامقابلہ کیاہے۔انسان کی حس انصاف نے ’’پرامن نافرمانی‘‘ہی نہیںبلکہ مسلح بغاوت تک کی ایسے حالات میںحمایت کی ہے جب کہ حکمراں(خواہ وہ ملکی ہوںیاغیرملکی)باشندوںکی مرضی پراپنی اورغیرمعقول مرضی زبردستی ٹھونسنے پرمصررہیںاوراصلاح کی معقول اورپرامن تدبیروںکااثرقبول کرنے سے انکار کیے چلے جائیں۔
اس مختصربحث سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ کسی’’پرامن نافرمانی‘‘کے جائزیاناجائزہونے کافیصلہ کرنے کے لیے اصولاًیہ دیکھناضروری ہے کہ:
(الف)مطالبات بجائے خودمعقول ہیںیانامعقول اوران کے مقابلے میں حکومت کارویہ کسی معقول دلیل پرمبنی ہے یانہیں۔
(ب) مطالبات کی پشت پر ان لوگوں کی بڑی اکثریت ہے یا نہیں جن کے اخلاقی و روحانی یا مادی مفاد سے وہ مطالبات متعلق ہیں اور
(ج) ان کو تسلیم کرانے کے لیے جائز، پرامن، آئینی تدابیر کا حق پوری طرح ادا کیا جاچکاہے یا نہیں۔
ان تینوں حیثیتوں سے جو نا فرمانی جواز کی تمام شرائط پوری کرچکی ہو اسے حق اور انصاف کے انسانی تصورات بہرحال سند جواز دیں گے ، خواہ وقت کے قانون کا فتویٰ اس کے معاملے میںکچھ ہی ہو۔
(۱۹)جوکچھ پیراگراف نمبر۱۸میںعرض کیاگیاہے‘وہی اس معاملے میںاسلام کانقطہ نظرہے۔اسلام بدنظمی اوربدامنی کونہایت ناپسندکرتاہے۔وہ امن اورنظم کی حمایت میںیہاںتک جاتاہے کہ اس کے نزدیک ایک برانظام بھی قابل برداشت ہے،بہ نسبت اس کے کہ اس کی جگہ بدنظمی لے لے۔مگراس کے ساتھ وہ یہ اصول بھی مقررکرتاہے کہ خدا کی نافرمانی میںکسی کے لیے اطاعت نہیںہے۔معصیت کاحکم بہرحال نہیںمانا جا سکتا اور دین کے اصولوںمیںترمیم یامنصوص احکام میںتغیرکی بہرحال مزاحمت کی جائے گی۔ قرآن مجیدمیںخودرسول اللہﷺ تک کی اطاعت کو’’فی المعروف‘‘کی شرط سے مشروط کیا گیا ہے چنانچہ سورہ ممتحنہ میںرسولﷺ سے بیعت کاجوفارمولابیان ہواہے اس میںیہ الفاظ ہیں:
وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ الممتحنہ 12:60
اور وہ ’’معروف ‘‘ میں تیری نا فرمانی نہ کریں ۔
اگرچہ نبی اکرم ﷺ سے کبھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ آپ کا حکم ’’منکر ‘‘ پر بھی مبنی ہوسکتاہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اصول حق کی توضیح کے لیے خود آپ کی بیعت کو بھی ’’معروف‘‘ سے مشروط کرکے یہ ظاہر کردیا کہ ’’اطاعت فی المنکر ‘‘ کسی کے لیے بھی نہیں ہے۔
اسی بات کونبی اکرمﷺ نے اپنے بکثرت ارشادات میںواضح فرمایاہے‘جنانچہ بخاری ومسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
السمع والطاعتہ علی المرء المسلم فی مااحب وکرہ مالم یومر بمعصیۃ فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعتہ۔
مسلمان پر واجب ہے کہ حکم سنے اور اطاعت کرے، خواہ حکم اسے پسند ہو یا نا پسند ،جب تک کہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے ، مگر جب معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سنا جائے اور نہ مانا جائے۔
ایک اور حدیث میں آپﷺ کا ارشاد ہے :
لاطاعۃ فی معصیۃ انما الطاعتہ فی المعروف۔ (بخاری ومسلم)
معصیت میں کوئی اطاعت نہیں ہے اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔
یہی بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کی پہلی تقریر میں فرمائی تھی:
اطیعونی مااطعت اللّٰہ ورسولہ فان عصیت اللّٰہ ورسولہ فلا طاعۃ لی علیکم (الصدیق۔ محمد حسین ہیکل صفحہ ۶۷)
میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کرتارہوں۔ لیکن اگر میں اللہ اوررسول کی نا فرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔
(۲۰) یہی اصول ہے جسے دنیا کی ان تمام بڑی بڑی شخصیتوں نے ہمیشہ اختیار کیاہے جن کو انسانی تاریخ عظیم الشان لیڈروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے ۔ دور کیوں جائیے خود پاکستان کے بانی مسٹر جناح مرحوم ، جو متحدہ ہندوستان کے سب سے بڑے آئین پسند (constitutionalised)لیڈر سمجھے جاتے تھے ، آخر کار اس کے قائل ہوئے۔ ان کی صدارت میں مسلم لیگ نے جولائی ۱۹۴۶ء میں ڈائریکٹ ایکشن کاریزولیوشن پاس کیا اور چاہے آج مسلم لیگ کے لیڈر لارڈ ریڈنگ اور سرمیلکم ہیلی کی زبان بولنے لگے ہوں مگر ۱۹۴۷ء میں اس وقت جب کہ مسٹر جناح مرحوم اس جماعت کے لیڈر تھے۔ میاں ممتاز ، محمد خاں دولتانہ اور ملک فیروز خان نون اور نواب صاحب ممدوٹ ایک آئینی طور پر قائم شدہ وزارت کو توڑنے کے لیے ڈائریکٹ ایکشن کرچکے ہیں اور خواجہ ناظم الدین صاحب اس کی حمایت کرچکے ہیں ۔ اس وقت ان میں سے کوئی صاحب بھی اس اصول کے قائل نہ تھے کہ ’’مطالبات کے اوصاف ‘‘ (merit)خواہ کچھ بھی ہوں، مگر کسی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ سول نا فرمانی اور غیر قانونی کارروائی کی دھمکی کے آگے جھک جائے گی اور کسی حکومت کو اس کے آگے نہ جھکنا چاہیے۔ ‘‘
(۲۱) کسی عوامی مطالبے کے جواب میں حکمرانوں کامحض یہ کہہ دینا کہ یہ مطالبات غیر معقول ہیں ، یا یہ کہ ان کو قبول کرنا ملک کے لیے نقصان دہ ہے ، کوئی وزن نہیں رکھتا، الا یہ کہ وہ سامنے آکر تفصیلی دلائل کے ساتھ یہ بتائیں کہ مطالبات کیوں نا معقول ہیں اور ان سے ملک کو کیا نقصان پہنچتاہے؟ ایک جمہوری نظام میں لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ حکمرانوں کے مبہم ارشادات پر ایمان بالغیب لے آئیں گے اور ان کو ایسا عقل کل مان لیں گے کہ ان کاکسی بات کو غیر معقول کہہ دینا بجائے خود اس کو غیر معقول تسلیم کرلینے کے لیے کافی ہو۔ نیز ایک جمہوری نظام میں یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ قوم خود اپنے مفاد کی دشمن ہے اور اس کے مفاد کو چند وزرا یا سیکریٹریٹ کے چند عہدہ دار یا پولیس کے چند افسر زیادہ جانتے ہیں۔ جمہوریت کا تو تقاضا ہی یہ ہے کہ جس بات کو قوم کی اکثریت چاہتی ہے ، عمل اسی پر ہونا چاہیے اور جو لوگ اپنے نزدیک اس ملک کے لیے نقصان دہ سمجھ کر اس پر عمل نہ کرنا چاہتے ہوں ، وہ پہلے استعفیٰ دے کر حکومت کی کرسیاں چھوڑیں ، پھر قوم کی رائے کو اپنے نقطۂ نظر کے مطابق ہموار کرنے کی کوشش فرمائیں۔ لیکن اگر وہ کرسیاں نہ چھوڑنا چاہتے ہوں تو یا قوم کی بات مانیں یا پھر اس کو اپنی پالیسی پر مطمئن کریں۔
(۲۲)اصولی بحث کوختم کرکے آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس بات کوبھی واضح کر دینا چاہتے ہیںکہ جماعت اسلامی نے اپنے دستورکی دفعہ۱۰شق(۳) میںاپنے آپ کوآئینی طریق کارکاپابندکیاہے کیونکہ وہ یہ امیدرکھتی ہے کہ یہاںکی حکومت جس جمہوریت کی مدعی ہے۔ اس کے بنیادی اصولوںاورتقاضوںکی وہ بھی پابندرہے گی اورملک کے نظام میںکسی ایسے تغیرکولاناغیرممکن نہ بنادے گی جس کی ضرورت معقول دلائل سے ثابت کردی جائے۔ جس کوباشندوںکی اکثریت چاہتی ہواورجس کے لیے آئینی تدابیر ایک جمہوری نظام میں بہرحال کافی ہونی چاہئیں۔ مگر ہم حکومت کی ’’ظل الٰہی ‘‘پر ایمان نہیں رکھتے کہ اپنے اوپر اس کے خدائی حقوق مان لیں اور خداوند عالم کی قہاری کی طرح اس کی قہاری کو بھی برحق تسلیم کرلیں۔
(۲۳)اب ہم اس خاص ڈائریکٹ ایکشن کو لیتے ہیں جو ختم نبوت کے سلسلے میں کیا گیا۔ اس کے متعلق ہماری راے یہ ہے کہ :
الف) یہ ڈائریکٹ ایکشن حق بجانب نہ تھا۔
(ب) مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اس معاملے میں حق حکومت کی جانب تھا۔
اس راے کے دونوں اجزا ایک دوسرے کے ساتھ منطقی ربط رکھتے ہیں اور محترم عدالت کو ایک منصفانہ اور متوازن رائے قائم کرنے میں مدد دینے کے لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ان دونوں اجزا کو پوری وضاحت کے ساتھ پیش کردیں ۔ یہ توضیح خصوصیت کے ساتھ اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کا گہر ا تعلق فسادات کے اسباب سے ہے اور فسادات کے اسباب کاگہراتعلق ذمہ داری کی تشخیص کے ساتھ ہے۔ لہٰذا اگر اس مسئلے کے متعلق کوئی متوازن اور جامع اور مبنی برحقیقت رائے قائم نہ کی گئی تو ذمہ داری کی تشخیص میں غلطی ہوجانے کااندیشہ ہے جو لامحالہ انصاف پر اثر انداز ہوگی۔
(۲۳)ہم جن وجوہ سے اس ڈائریکٹ ایکشن کو حق بجانب نہیں سمجھتے، وہ یہ ہے کہ اس میں وہ شرائط تمام و کمال پوری نہیں ہوئی تھیں جو ہمارے نزدیک ایک حق بجانب ڈائریکٹ ایکشن میں پوری ہونی چاہئیں ۔ جیساکہ ہم پیرا گراف نمبر۸ کے آخری حصے میں بیان کرچکے ہیں۔ ’’تمام و کمال ‘‘ کے لفظ کو خاص طور پر نوٹ فرمایا جائے ، اس سے ہمارا منشا یہ ہے کہ وہ شرائط اس میں جزوی طور پر تو ضرورپوری ہوئی ہیں مگر جیساکہ ان کے پورے ہونے کا حق ہے اس طرح پوری نہ ہوئی تھیں۔ ہم سمجھتے ہیںکہ اگر جوشیلی اور جذباتی تقریروں اور تحریروں سے کام لینے کے بجائے دلائل کی طاقت سے حکومت کو پوری طرح غیر مسلح کردیا جاتا ، اور اگر پنجاب کی طرح پاکستان کے دوسرے صوبوں کی ، خصوصاً بنگال کی راے عام کو مطالبات کی تائید میں متحرک کردیا جاتا اور اگر آئینی تدابیر کو محض وزیراعظم سے وفود کی ملاقاتوں تک محدود نہ رکھاجاتا بلکہ دوسری تدابیر بھی اختیار کی جاتیں ، تو اغلب یہی تھاکہ ڈائریکٹ ایکشن کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ یہی بات تھی جو میں اس تحریک کے لیڈروں کو سمجھانا چاہتاتھا۔ اسی غرض کے لیے میں نے جنوری ۱۹۵۳ء کے کنونشن کے آخری اجلاس میں ایک مرکزی مجلس عمل کے سپرد سارا معاملہ کردینے کی تجویز پیش کی تھی ۔ میرے پیش نظر یہ تھاکہ جو بات کنونشن کے گرم ماحول میں عام لوگ نہیں سمجھ سکتے، اسے مرکزی مجلس عمل کے چند معاملہ فہم ارکان بآسانی سمجھ لیں گے اور ان کو ڈائریکٹ ایکشن سے باز رہنے پر آمادہ کیاجاسکے گا۔ مگر افسوس ہے کہ اس مجلس کااجلاس ہی منعقد نہ ہوا۔
(۲۵) دوسری طرف ہم جن وجوہ سے یہ راے رکھتے ہیں کہ حکومت اس پورے قضیے میں حق بجانب نہ تھی وہ حسب ذیل ہیں :
الف۔ اس وقت کی حکومت کے ذمہ دار لوگوں نے صاف اس امر کا اعتراف کیاہے کہ ان مطالبات کو عوام کی بہت بڑی اکثریت کی تائید حاصل تھی۔ اس موضوع پر متعدد صریح شہادتیں اس محترم عدالت کے سامنے آچکی ہیں ۔ مثال کے طور پر چند شہادتوں کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں۔