(۱۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی مختلف طریقوںسے آتی تھی۔اس کی تفصیل علامہ ابن قیم نے زادالمعادمیںاس طرح کی ہے:
۱۔سچاخواب، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کی ابتدائی صورت تھی۔آپ جوخواب بھی دیکھتے تھے وہ اس طرح صاف صاف آتاتھاجیسے سپیدۂ صبح ۔
۲۔فرشتہ آپ کے ذہن وقلب میںایک بات ڈالتاتھابغیراس کے کہ وہ آپ کو نظر آئے۔اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میںنبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ روح القدس (جبریلؑ)نے میرے ذہن میںیہ بات ڈالی ہے(یاپھونکی ہے)کہ کوئی متنفس ہرگزنہ مرے گاجب تک کہ اپنے حصے کاپورا رزق نہ پالے‘لہٰذااللہ سے ڈرکرکام کرواورطلب رزق کااچھاطریقہ اختیارکرواوررزق میںتاخیرتم کواس بات پرآمادہ نہ کرے کہ تم اسے اللہ کی نافرمانی کے ساتھ طلب کرنے لگو‘کیونکہ جوکچھ اللہ کے پاس ہے(یعنی اس کاانعام)وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل ہوتاہے۔
۳۔فرشتہ آپ کے سامنے بصورت انسان نمودارہوکربات کرتاتھااوراس وقت تک مخاطب رہتاتھاجب کہ آپ اس کی بات پوری طرح ذہن نشین نہ کرلیں۔اس صورت میںکبھی کبھی ایسابھی ہواہے کہ صحابہؓ نے بھی اس کودیکھاہے۔
۴۔وحی سے پہلے آپﷺ کے کان میںایک گھنٹی سی بجنی شروع ہوتی تھی اوراس کے ساتھ پھرفرشتہ بات کرتاتھا۔یہ وحی کی شدیدترین شکل تھی جس سے سخت جاڑے میںبھی آپﷺ پسینہ پسینہ ہوجاتے تھے۔اگرآپﷺ اونٹ پرسوارہوتے تھے تووہ بوجھ کے مارے بیٹھ جاتاتھا۔ایک دفعہ اس حال میںوحی آئی کہ آپﷺ زیدبن ثابت کے زانوپرسررکھے لیٹے تھے۔اس وقت ا ن پر اتنا بوجھ پڑاکہ ان کی ران ٹوٹنے لگی تھی۔
۵۔آپ فرشتے کواس کی اصلی صورت میںدیکھتے تھے جس میںاللہ نے اسے پیدا کیا ہے‘ پھرجوکچھ اللہ کاحکم ہوتا‘اسے وہ آپ پروحی کرتاتھا۔یہ شکل دومرتبہ پیش آئی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نجم میںبیان کیاہے۔
۶۔براہ راست اللہ تعالیٰ نے آپ پروحی کی جب کہ آپ معراج میں آسمانوں پر تھے اوروہاںنمازفرض کی اوردوسری باتیںارشادفرمائیں۔
۷۔اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے توسط کے بغیرآپ سے گفتگوکی جس طرح موسیٰ علیہ السلام سے کی تھی۔حضرت موسیٰ ؑکے لیے تویہ مرتبہ قرآن سے ثابت ہے۔رہے نبیﷺ‘ توآپ کے حق میںاس کاذکرمعراج کی حدیث میںآیاہے۔
ان کے علاوہ بعض لوگوںنے ایک آٹھویںشکل بھی بیان کی ہے اوروہ یہ کہ اللہ نے بے پردہ ہوکرآپ سے گفتگوکی۔یہ ان لوگوںکامذہب ہے جواس بات کے قائل ہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خداکودیکھامگراس مسئلے میںسلف اورخلف کے درمیان اختلاف ہے‘‘۔ (زادالمعاد‘جلد اول‘ص ۲۴۔۲۵)
سیوطی نے اتقان جلداول میںایک پوری فصل اسی مضمون پرلکھی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے۔
’’چالیس سال کی عمرمیںجب آپﷺ نبی ہوئے توابتدائی تین سال تک اسرافیلؑ آپﷺ کی تعلیم وتربیت پرماموررہے اوران کے ذریعہ سے قرآن کاکوئی حصہ نازل نہیں ہوا۔ پھر جبرائیل وحی لانے پرمقررہوئے اوروہ ۲۰ سال تک قرآن لاتے رہے۔وحی کی صورتیں حسب ذیل تھیں:
۱۔کان میںگھنٹی بجنی شروع ہوتی اورپھرفرشتے کی آوازآتی۔
اس میںحکمت یہ تھی کہ پہلے آپ سب طرف سے توجہ ہٹاکراس آوازکوسننے کے لیے ہمہ تن متوجہ ہوجائیں۔حضورﷺ کابیان ہے کہ یہ شکل آپ کے لیے سب سے زیادہ شدیدتھی۔
۲۔آپﷺ کے ذہن وقلب میںایک بات ڈالی جاتی تھی‘جیساکہ آپ نے خودبیان فرمایاہے۔
۳۔فرشتہ آپ سے انسانی شکل میںآکربات کرتاتھا۔نبی ﷺ فرماتے ہیںکہ وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ ہلکی ہوتی ہے۔
۴۔فرشتہ خواب میںآکرآپﷺ سے بات کرتا۔
۵۔اللہ تعالیٰ آپ سے براہ راست کلام کرتا‘خواہ بیداری میںیاخواب میں۔