(۱) مسیح علیہ السلام کانزول ثانی مسلمانوں کے درمیان ایک متفق علیہ مسئلہ ہے اور اس کی بنیادقرآن، حدیث اور اجماع اُمت پر ہے۔ قرآن میں اگرچہ اس کی تصریح نہیں ہے مگر دو آیتیں ایسی ہیں جن سے اس کا اشارہ نکلتاہے اور بکثرت مفسرین نے ان کا یہی مطلب لیا ہے کہ مسیح علیہ السلام آخری زمانے میں دوبارہ آئیں گے ۔ پہلی آیت سورۂ نساء میں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ج وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا النسآئ159:4
اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے روز ان پر وہ گواہ ہوگا۔
اگرچہ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتاہے اور لیا بھی گیاہے کہ ’’اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے ۔ ‘‘ لیکن اس کا وہ مطلب بھی ہوسکتاہے اور لیا گیاہے جو ہم نے ترجمہ میں بیان کیا ہے۔
دوسری آیت سورۂ زخرف (سورہ نمبر۴۳) میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں :
وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ الزخرف 61:43
اور درحقیقت وہ قیامت کی ایک نشانی ہے۔
اس کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ مسیح علیہ السلام کی پیدائش ان نشانیوں میں سے ایک ہے جو آخرت کے امکان پر دلالت کرتی ہیں ۔ دوسرا یہ کہ وہ قیامت سے پہلے قرب قیامت کی علامات میں سے ایک ہے ۔ مفسرین کی بہت بڑی اکثریت نے ان دونوں مفہومات میں سے دوسرے کو ترجیح دی ہے۔
بہرحال جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ صریح الفاظ میں اس مضمون کی تصریح نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہاجاسکتاہے کہ وہ اس کی طرف اشارہ کررہاہے۔
بخلاف اس کے حدیث سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے مسیح ؑ کے نزول کی خبر دی ہے۔ اس باب میں ۷۰ سے زیادہ حدیثیں تقریباً ۲۴ صحابیوں نے نبیﷺ سے روایت کی ہیں۔ جن راویوں نے یہ احادیث صحابہ ؓ سے سنیں اور پھر بیچ کے جو راوی انہیں کتب حدیث کے مصنفین تک پہنچانے والے ہیں ، ان کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے ۔ ان میں بکثرت ثقہ لوگ ہیں ۔ وہ یمن سے لے کر آذر بائیجان تک اور مصر سے لے کر ماوراء ُالنہر اور سیستان تک مختلف علاقوں کے لوگ ہیں۔ اور بکثرت روایتوں کی سند کتب حدیث کے مصنفین سے لے کر نبی ﷺ تک بالکل متصل ہے جس میں کوئی کڑی چھوٹی ہوئی نہیں ہے۔ اتنے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ، اس قدر کثیر التعداد انسانوں کے متعلق یہ باور کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے کہ ان سب نے کسی وقت کوئی کانفرنس کرکے باہم یہ قرار داد منظور کرلی ہو گی کہ نزول مسیح ؑ کی ایک داستان گھڑ کر خدا کے رسولﷺ کی طرف منسوب کرنی ہے۔ اور اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں تو ان کی تصنیف کردہ داستانوں میںوہ مطابقت اور مناسبت پیداہونی محال تھی جو نزول مسیح کی احادیث میں ہم کو نظر آ رہی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان روایتوں کے مضمون میں دو تین فروعی اختلافات کے سوا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سب روایتیں مل کر ایک مربوط اور مسلسل قصہ بناتی ہیں جس کے تمام اجزا ایک دوسرے کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ ہم نے ضمیمہ نمبر(۱) میں ۲۰ معتبر ترین احادیث لفظ بلفظ نقل کردی ہیں جو ۱۳صحابیوں سے مروی ہیں۔ ان کو دیکھ کر محترم عدالت خود معلوم کرسکتی ہے کہ ان مختلف صحابیوں کی روایات قصے کے تمام ضروری اجزا میں بالکل متفق ہیں (صرف ایک معاملہ میں روایت نمبر۴ و ۲۰دوسری روایتوں کے خلاف یہ کہتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ مسلمانوں کی نماز کے امام ہوں گے اور روایات نمبر۲،۶،۸،۱۴،۱۵یہ کہتی ہیں کہ امام جماعت مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا اور حضرت عیسیٰ ؑ اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔ اسی وجہ سے مفسرین و محدثین نے بالاتفاق اس بات کو تسلیم کیاہے جو روایات کی اکثریت سے ثابت ہے۔ ) اس بنا پر یہ بات یقینی ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی ضرورخبر دی ہے۔ یہ بات خواہ کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، مگر یہ امر واقعہ کہ حضور ؐ نے ایسی خبر دی ہے ، ناقابل تردید شہادتوں سے ثابت ہے۔ اگر ایسی شہادتوں کو بھی رد کیاجاسکتاہے تو پھر دنیاکا کوئی تاریخی واقعہ بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح پہلی صدی ہجری سے آج تک اُمت کے تمام علما اور فقہا اور مفسرین و محدثین کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ مسیح ؑ کی آمدثانی کی خبر صحیح ہے۔ ضمیمہ نمبر۳ اور ۵ میں اکابر علما کے اقوال ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔ صرف معتزلہ اور جہینیہ اور بعض ایسے ہی دوسرے فرقوں کے چند لوگوں نے اس کو ختم نبوت کے منافی سمجھ کر ردکیاہے۔
(۲) جو کچھ احادیث سے ثابت ہے اور جس پر اُمت کا اجماع ہے وہ کسی مثیل مسیح کی ’’پیدائش ‘‘ نہیں ہے بلکہ عیسیٰ ؑ ابن مریم کا ’’نزول ‘‘ہے۔ تمام احادیث بلااستثنا اس امرکی تصریح کرتی ہیں کہ آنے والے وہی ہیں۔ کسی حدیث میں عیسیٰ ؑ کسی میں ابن مریم ، کسی میں مسیح ابن مریم ، اور کسی میں عیسیٰ ابن مریم کے الفاظ ہیں۔ ظاہر ہے کہ عیسیٰ ابن مریم ایک شخص خاص کا ذاتی نام ہے اور اس کے نزول کی خبر لا محالہ اس کی ذات کے نزول کی خبر ہی ہوسکتی ہے ۔ اگر کوئی اس خبر کو قبول کرے تو اسے یہ قبول کرنا ہوگاکہ وہی شخص خاص دوبارہ آئے گا جو اب سے دو ہزار برس پہلے بنی اسرائیل میں مریم علیہا السلام کے بطن سے پیداہوا تھا۔ اور اگر کوئی اس کو رد کرے تو اسے سرے سے اس ’’مسیح موعود ‘‘ کے تخیل ہی کو رد کردیناہوگا۔ بہرحال یہ بالکل ایک لغو بات ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کے نزول کی خبروںکو بنیاد بنا کر ایک مثیل مسیح کے ظہور کو ثابت کیا جائے اور اس سے زیادہ لغو بات یہ ہے کہ ان خبروں کی بنیاد پر مسیح کے ’’بروز ‘‘ (incarnation)کا خیال پیش کیاجائے جو سراسر ایک ہندوانہ تخیل ہے اور ان سب سے زیادہ لغو بات یہ ہے کہ کوئی شخص خود تمثیلی رنگ میں اپنے بطن سے پیداہوکر یہ اعلان کرے کہ جس عیسیٰ ابن مریم کے ’’نزول ‘‘ کی خبر دی گئی تھی ، وہ پیداہوگیاہے۔ (ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۷،پیرا گراف نمبر۱۲۔ اقتباس نمبر۷)
(۳)احادیث میں نزول مسیح کی غرض اور وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آخر زمانے میں ایک عظیم الشان دجال (فریبی و جعل سازآدمی ) اپنے آپ کو مسیح کی حیثیت سے پیش کرے گا اور یہودی اس کے پیچھے لگ جائیں گے اور اس کا فتنہ دنیامیں بہت بڑی گمراہی اور ظلم و ستم کا موجب بن جائے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اصلی مسیح کو دنیا میں واپس بھیجے گا تاکہ اس فتنے کا قلع قمع کرے (ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۱،روایات نمبر۵ ، ۸،۱۴،۲۰)۔ نبی ﷺ نے اپنی اُمت کو یہ خبر اس لیے دی تھی کہ مسلمان دجال کو مسیح ماننے سے بچیں اور اس کے زمانے میں اصلی مسیح کی آمد کاانتظار کریں اور ان کی آمد پر فتنہ دجال کے استیصال میں ان کا ساتھ دیں۔ یہ خبر آپ نے اس لیے نہیں دی تھی کہ آپ کی ان پیشین گوئیوں کا سہارا لے کر کوئی ’’مثیل مسیح ‘‘یا ’’بروز مسیح ‘‘ اُٹھ کر آپ کی اُمت میں اپنی ایک اُمت آسانی کے ساتھ بنالے۔
(۴) احادیث اس امر کی بھی تصریح کرتی ہیں کہ نزول کے نتیجے میں تمام ملتیں ختم ہوجائیں گی اور صرف ملت اسلام باقی رہ جائے گی (ملاحظہ ہو ضمیمہ ۱،روایت نمبر۵،۱۴) ۔ روایت نمبر۱،۲،۵ضمیمہ اول میں صلیب کو توڑ دینے یا محو کردینے یا پاش پاش کردینے اور خنزیر کو ہلاک کردینے کا مطلب تمام محدثین نے یہ لیا ہے کہ عیسائیت اور اسلام کا جھگڑا ختم ہوجائے گا اور دونوں ملتیں ایک ہوجائیں گی۔ روایات نمبر۸، ۱۴اور ۲۰ سے معلوم ہوتاہے کہ یہودیت دجال کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی اور مذکورہ بالا روایات میں ’’جنگ ‘‘ اور ’’جزیے‘‘اور ’’خراج ‘‘ کو ساقط کردینے کا مطلب بالاتفاق یہ سمجھا گیا ہے کہ تمام ملتوں کے ختم ہوجانے اور صرف ملت اسلام کے باقی رہ جانے کی وجہ سے جنگ بھی ختم ہوجائے گی اور جزیہ و خراج کسی پر عائد کرنے کا سوال ہی باقی نہ رہے گا۔
(۵)یہ امر خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ نزول مسیح کا عقیدہ ، جس طرح کہ وہ احادیث میں بیان ہواہے اور جس طرح کہ علمائے اُمت نے اس کو سمجھا ہے ، کسی طرح عقیدہ ختم نبوت سے متصادم نہیں ہوتا (ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۳) اور اس کے برعکس ’’مسیح موعود ‘‘کا قادیانی تخیل قطعی طور پر اس سے متصادم ہوتاہے۔ اس کے وجوہ حسب ذیل ہیں :
(الف) عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایمان لائے ، تمام مسلمان ہمیشہ سے ان پر ایمان لاتے رہے اور آئندہ بھی جو مسلمان ہوگا وہ ان پر ضرور ایمان لائے گا، اب بھی جو ان کو نہ مانے وہ بالاتفاق کافراور خارج از ملت ہے۔ اس لیے ا ن کی آمد ثانی پر کسی نئے کفر وایمان کامسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔ امکان عقلی کی حد تک اگر کوئی اختلاف ہوسکتاہے تو اس واقعہ میں ہوسکتاہے کہ جو صاحب نازل ہوئے ہیں وہ عیسیٰ ابن مریم ہیں یا نہیں ، لیکن اس امر میں نہیں ہوسکتا کہ اگر یہ ابن مریم ہیں تو ماننے کے قابل ہیں یا نہیں۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کی آمد سے مسلمانوں میں کفر وایمان کی کوئی نئی تفریق رونما نہیں ہوسکتی ۔ اس کے برعکس جو شخص ’’نازل ‘‘ نہ ہو بلکہ ہمارے درمیان ’’پیدا ‘‘ ہو کر یہ دعویٰ کرے کہ میں مسیح ہوں ، میرے اوپر ایمان لائو ، اس کا دعویٰ لازماً اُمت میں کفر وایمان کی ایک نئی تقریق برپا کرتاہے اور اس کے انکار پر نئے سرے سے ان لوگوں کے خارج از ملت قرار پا جانے کاامکان پیداہوجاتاہے جنھیں ختم نبوت کے عقیدے نے ہمیشہ کے لیے ایک ملت بنا کر بنیادی تفرقے سے محفوظ کردیا ہے۔ قادیانی ’’مسیح ‘‘ کے دعوے سے یہ امکان اب واقعہ کی صورت اختیار کرچکاہے۔
(ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۷۔ پیراگراف نمبر۱۴،اقتباس نمبر۵تا۲۲)
(ب) احادیث میں صراحتاً یا اشارتاً کہیں بھی آنے والے مسیح ابن مریم کو اس حیثیت سے پیش نہیں کیاگیاہے کہ وہ آکر اپنی نبوت کا دعویٰ پیش کرے گا، لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دے گا ، اپنے ماننے والوں کو ایک اُمت یا جماعت بنائے گا اور نہ ماننے والوں کو مسلمانوں میں سے الگ کردے گا ۔احادیث اس کو ایک نیا اور مستقل مشن لے کر آنے والے شخص کی حیثیت سے پیش نہیں کرتیں بلکہ اس حیثیت سے پیش کرتی ہیں کہ وہ آکر مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوجائے گا، اس کے زمانے میں مسلمانوں کا جو بھی امیر یا امام یا سردار جماعت ہوگا اس کی قیادت تسلیم کرے گا اور صرف فتنہ دجال کو ختم کرنے کی وہ خدمت انجام دے گا جو اس کے سپرد کی گئی ہوگی۔ اسی لیے وہ احتیاطاً نماز میں بھی مسلمانوں کی امامت نہ کرے گا بلکہ انہی کے اما م کااقتداکرے گا تاکہ اس شبہ کی گنجائش بھی نہ رہے کہ وہ اپنی سابق حیثیت (یعنی محمد ﷺ کی حیثیت ) میں واپس آیا ہے ۔ ضمیمہ نمبر۱ کی روایات نمبر۲،۶،۸،۱۴،۱۵اور ضمیمہ نمبر۳ کے پیرا گراف ۵،۶اس مسئلے میں ناطق ہیں۔ مگر ’’مسیح موعود ‘‘ کا قادیانی عقیدہ اس کے بالکل برعکس ہے اور برعکس نتائج پیدا کرتا ہے۔
(ملاحظہ ہو، ضمیمہ نمبر۷،پیرا گراف نمبر۹،۱۲،۱۴)
(ج) مسلمان جس حیثیت سے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے نزول کو مانتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ اپنی پہلی بعثت میں نبی کی حیثیت سے آئے تھے اور اگرچہ نبوت کا فضل و شرف ان سے سلب نہیں ہوگیاہے ، لیکن چونکہ محمدﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی ان کا (عیسیٰ علیہ السلام کا ) زمانہ نبوت ختم ہوگیاہے اور اب قیامت تک آنحضرت ﷺ کا عہد نبوت ہے ، اس لیے عیسیٰ علیہ السلام اب نبی کی حیثیت میں نہیں آئیں گے بلکہ آنحضرتﷺکے پیرو اور آپ ہی کی شریعت کے منبع ہوں گے اور ان کا کام اپنی رسالت کو پیش کرنا، یا نئے احکام دینا، یا پچھلے احکام میںردوبدل کرنا نہ ہوگا بلکہ شریعت محمدیہ کے مطابق اس خدمت خاص کو انجام دیناہوگا جس کے لیے وہ نازل کیے جائیں گے۔ اس مسئلے میں امام رازی ، امام نووی ، علامہ تفتازانی ، شیخ اسماعیل حنفی اور علامہ آلوسی کی تصریحات خاص طور پر قابل غور ہیں ۔
(ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۳،پیرا گراف ۲،۳،۵،۱۳اور ضمیمہ نمبر ۵پیرا گراف ۱۰)
اس تخیل کو اس مثال سے بآسانی سمجھا جاسکتاہے کہ خواجہ ناظم الدین اگرچہ اپنے وقت میں پاکستان کے گورنر جنرل تھے ، اور سابق گورنر جنرل ہونے کااعزاز ان سے چھن نہیںگیاہے ، مگر مسٹر غلام محمد کے دور میں وہ ہمارے درمیان گورنر جنرل کی حیثیت میں نہیں بلکہ رعیت دولت پاکستان کے ایک فرد کی حیثیت میں ہیں۔ اس طرح مسیح ابن مریم کا نزول عقیدۂ ختم نبوت کے ساتھ بالکل ہموار ہوجاتاہے اور اس امر کا شبہ تک باقی نہیں رہتا کہ ان کی آمد سے ایک نئے پیشوا کے اتباع کا سوال پیدا ہوگا جسے قبول کرنے پر کسی شخص کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کاانحصار ہو۔ بخلاف اس کے ’’مسیح موعود ‘‘ کا قادیانی تخیل ایک نئے پیشوا کو ہمارے سامنے لاتاہے جو نبوت کے تمام اعتقادی اور شرعی حقوق کا ہم سے مطالبہ کرتاہے اور وہ تمام دعوے لے کر اٹھتاہے جو ایک مستقل رسالت کے ساتھ آنے والے شخص کے سوا کوئی دوسرا انسان پیش نہیں کرسکتا۔ (ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۷ ، پیرا گراف ۹،اقتباس نمبر۳ ، ۴۔ پیرا گراف ۱۱،اقتباس نمبر۹،۱۰،۱۱۔ پیراگراف نمبر۱۳۔ پیراگراف نمبر۱۴،اقتباس نمبر۵تا۲۲)۔ ان دعوئوں کی نوعیت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مدعی اپنے آپ کو ’’اُمتی ‘‘ اور ’’تابع شرع محمدی ‘‘ کی حیثیت میں رکھتاہے یا کسی اور حیثیت میں اصل چیز جو اس کے دعوئوں کی نوعیت کو نزول مسیح کے اسلامی عقیدہ سے اساسی طور پر قطعی مختلف کردیتی ہے وہ یہ ہے کہ نزول مسیح کااسلامی عقیدہ، ایک نئے پیشوا کی اطاعت و اتباع کو کفر وایمان کامدار نہیں بناتا اور مسیح موعود کا قادیانی عقیدہ اس کو مدار کفر وایمان بناتاہے۔