سوال
علماے احناف اور علماے اہل حدیث کے درمیان نکاح بالغہ بلا ولی کے مسئلے میں عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے۔احناف اس کے قائل ہیں کہ بالغہ عورت اپنا نکاح اولیا کے اذن کے بغیر یا ان کی خواہش کے علی الرغم جہاں چاہے کرسکتی ہے اور اس نکاح پر اولیا کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔اس کے برعکس اہل حدیث حضرات ایسے نکاح کو باطل اور کالعدم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نکاح بلاولی کی صورت میں بلاتأمل دوسرا نکاح کیا جاسکتا ہے۔فریقین کے دلائل، جہاں تک میرے سامنے ہیں ، مختصراً پیش کرتا ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ آپ اس بارے میں اپنی تحقیق واضح فرمائیں ۔
جواب
اس سوال کے ساتھ سائل نے پوری تفصیل کے ساتھ فریقین کے دلائل جمع کردیے ہیں ، لہٰذا پہلے ہم ان دلائل کو یہاں نقل کردیتے ہیں :
(۱) حنفیہ کا استدلال حسب ذیل آیات اور احادیث سے ہے:
وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا۰ۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۭ ( البقرہ:۲۳۴)
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں ،پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو جو کچھ وہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے کریں ،اُس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ۔‘‘
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہٗ۰ۭ )البقرہ:۲۳۰)
’’پھر اگر (تیسری بار شوہر نے بیوی کو) طلاق دے دی،تو وہ عورت اُس کے لیے حلال نہ ہوگی،الا یہ کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے۔‘‘
……فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۭ (البقرہ:۲۳۲)
’’…پھر تم ان عورتوں کو اس سے مت روکو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ بھلے طریقے سے باہم رضا مند ہوجائیں ۔‘‘
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْفَضْلِ، سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ، يُخْبِرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْمَرُ، وَإِذْنُهَا سُكُوتُهَا…({ FR 1943 }) ’’ نافع ابن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حق دار ہے،اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اُس کی خاموشی ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حق دار ہے۔‘‘
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةٌ إلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إنَّ أَبِي أَنْكَحَنِي رَجُلًا، وَأَنَا كَارِهَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِيهَا: "لَا نِكَاحَ لَك، اِذْهَبِي، فَانْكِحِي مَنْ شِئْتِ({ FR 1944 }) ’’ابی سلمہ ابن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اﷲ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرے باپ نے میرا نکاح ایک مرد سے کردیا ہے اور میں اُسے ناپسند کرتی ہوں ۔آپ نے باپ سے فرمایا کہ نکاح کا اختیار تمھیں نہیں ہے، اور لڑکی سے فرمایا کہ جائو جس سے تمھارا جی چاہے نکاح کرلو۔‘‘
رُوِيَ مِنْ طَرِيقِ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا زَوَّجَتْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مِنْ الْمُنْذِرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ غَائِبٌ بِالشَّامِ، فَلَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ: وَمِثْلِي يُفْتَاتُ عَلَيْهِ؟! فَكَلَّمَتْ عَائِشَةُ الْمُنْذِرَ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: إنَّ ذَلِكَ بِيَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: مَا كُنْت لِأَرُدَّ أَمْرًا قَضَيْتِه، فَاسْتَقَرَّتْ حَفْصَةُ عِنْدَ الْمُنْذِرِ، وَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ طَلَاقًا({ FR 1945 }) ’’مالک نے عبدالرحمٰن سے،انھوں نے اپنے باپ سے اور انھوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے حفصہ بنت عبدالرحمٰن کا منذر ابن زبیر سے نکاح کردیا۔اُس وقت عبدالرحمن شام میں تھے۔جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے کہ کیا میری راے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟تب حضرت عائشہؓ نے منذر ابن زبیر سے بات کی۔انھوں نے کہا کہ فیصلہ عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں ہے۔اس پر عبدالرحمٰن نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ جس معاملے کو آپ نے طے کردیا ہے،میں اُس کی تردید نہیں کرنا چاہتا۔چنانچہ حفصہ منذر کے پاس ہی رہیں اور یہ طلاق نہ تھی۔‘‘
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’ لَيْسَ لِلْوَلِيِّ مَعَ الثَّيِّبِ أَمْرٌ‘‘({ FR 1946 })
ابو دائود اور نسائی نے ’’ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: شوہر دیدہ عورت پر ولی کو کچھ اختیار حاصل نہیں ہے۔‘‘
عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: جَاءَتْ فَتَاةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ لِيَرْفَعَ مِنْ خَسِيسَتِهِ ، قَالَ: فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهَا. فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي، وَلَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَيْسَ إِلَى الْآ بَاءِ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ({ FR 1947 }) ’’نسائی اور احمد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی: اے اﷲ کے رسول!میرے باپ نے اپنے بھتیجے کے ساتھ میرا بیاہ صرف اس لیے کردیا ہے کہ میرے ذریعے سے اُسے ذلت سے نکالے۔آپؐ نے نکاح (کی تنسیخ و استقرار) کا حق لڑکی کو دے دیا۔لڑکی نے کہا:میرے والد نے جو کچھ کیا ہے،میں اُسے جائز قرار دیتی ہوں ،میری خواہش صرف یہ تھی کہ عورتیں جان لیں کہ باپوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔‘‘
(۲) اہل حدیث حضرات اپنی تائید میں مندرجہ ذیل احادیث پیش کرتے ہیں :
عَنِ عَائِشَۃَ رَضِی اللّٰہ عَنْہَا اَخَبَرَتْہُ اَنَّ النَّبیَّ صلّیِ اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم قال: ’’اَیَّما اِمْرأۃٍ نَکَحَتِ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیّہِاَ فَنِکَاحُھَا باَطِلٌ… فَاِنِ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِّیٌ مَنْ لاَ وَلیَّ لَھَا ۔‘‘({ FR 2070 }) ’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے،اُس کا نکاح باطل ہے…پس اگر جھگڑا ہو تو جس عورت کا ولی نہ ہو تو سلطان اُس کا ولی ہے۔‘‘
عن ابی موسیٰ اَنَّ النَبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نِکاَحَ إِلَّا بِوَلِیِّ ۔({ FR 2071 })
’’ ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:ولی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں ہے۔‘‘
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا({ FR 2072 }) ’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت دوسری عورت کی(ولی بن کر) نکاح نہ کرے،اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے۔‘‘
قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ لَمْ يُنْكِحْهَا الْوَلِيُّ، أَوِ الْوُلَاةُ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ({ FR 2073 })
’’حضرت عمرؓ نے فرمایا: جس عورت کا نکاح ولی یا حکام نہ کریں ،اُس کا نکاح باطل ہے۔‘‘
عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: جَمَعْتُ الطَّرِيقَ رَكْبًا، فَجَعَلَتِ امْرَأَةٌ ثَيِّبٌ أَمْرَهَا بِيَدِ رَجُلٍ غَيْرِ وَلِيٍّ فَأَنْكَحَهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَجَلَدَ النَّاكِحَ وَالْمُنْكِحَ، وَرَدَّ نِكَاحَهَا ({ FR 2074 }) ’’عکرمہ ابن خالد سے روایت ہے کہ ایک شوہر دید ہ عورت نے اپنا معاملہ ایک ایسے شخص کے سپرد کردیا جو اُس کا ولی نہ تھا، اور اُس شخص نے عورت کا نکاح کردیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے نکاح کرنے اور کرانے والوں کو کوڑوں کی سزا دی اور نکاح منسوخ کردیا۔‘‘
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذَنْ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، لَا نِكَاحَ إِلَّا بِإِذْنِ وَلِيٍّ ({ FR 2075 })
’’حضرت علیؓ نے فرمایا: جس عورت نے بھی اپنے ولی کے اذن کے بغیر نکاح کیا،اُس کا نکاح باطل ہے۔بلا اجازت ولی کوئی نکاح نہیں ۔‘‘
عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ عُمَرَ، وَعَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا وَشُرَيْحًا، وَمَسْرُوقًا رَحِمَهُمَا اللهُ، قَالُوا: ” لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ ({ FR 2076 })
’’اما م شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ،حضرت عمرؓ، شریح اور مسروق نے فرمایا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔‘‘
ان دلائل پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف کافی وزن ہے اور یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فریقین میں سے کسی کا مسلک بالکل غلط ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شارع نے فی الواقع دو متضاد حکم دیے ہیں ؟ یا ایک حکم دوسرے حکم کو منسوخ کرتاہے؟ یا دونوں حکموں کو ملا کر شارع کا منشا ٹھیک طور پر متحقق ہوسکتا ہے؟پہلی شق تو صریحاًباطل ہے، کیوں کہ شریعت کا پورا نظام شارع کی حکمت کاملہ پر دلالت کررہا ہے اور حکیم سے متضاد احکام کا صدور ممکن نہیں ہے۔دوسری شق بھی باطل ہے، کیوں کہ نسخ کا کوئی ثبوت یا قرینہ موجود نہیں ہے۔اب صرف تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور ہمیں اسی کی تحقیق کرنی چاہیے۔ میں دونوں طرف کے دلائل جمع کرکے شارع کا جو منشا سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے:
۱۔ نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیاے عورت۔ اسی بِنا پر ایجاب وقبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے۔
۲۔ بالغہ عورت(باکرہ ہو یا ثیبہ) کا نکاح اُس کی رضا مندی کے بغیر یا اُس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہوسکتا،خواہ وہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضا نہ ہو،اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہوسکے۔
۳۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہوجائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں ،اپنے اولیا کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں ۔ اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے،شارع نے اس کے نکاح کے لیے اُس کی اپنی مرضی کے ساتھ اُس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرلے،اور نہ ولی کے لیے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اُس کا نکاح جہاں چاہے کردے۔
۴۔ اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کردے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا، وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا،نامنظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ یہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں ۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کو نکاح نامنظور ہے تو عدالت اُسے باطل قرار دے گی۔
۵۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے تو اُس کا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا۔ولی منظور کرلے تو نکاح برقرار رہے گا،نا منظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے۔عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض و انکار کی بنیاد کیا ہے۔اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بِنا پر اُس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہیں کرتا تو یہ نکاح فسخ کیا جائے گا، اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اُس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا، یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آکر اپنا نکاح خود کرلیا، تو پھر ایسے ولی کو سئی الاختیار ٹھیرا دیا جائے گااور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی۔ ھذاما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب۔