انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اس کے عجیب کرشموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عریاں فساد اور بے نقاب فتنے کی طرف کم ہی راغب ہوتا ہے اور اس بناء پر شیطان اکثر مجبور ہوتا ہے کہ اپنے فتنہ و فساد کو کسی نہ کسی طرح صلاح و خیر کا دھوکا دینے والا لباس پہنا کر اس کے سامنے لائے۔ جنت میں آدم علیہ السلام کو یہ کہہ کر شیطان ہر گز دھوکا نہ دے سکتا تھا کہ میں تم سے خدا کی نافرمانی کرانا چاہتا ہوں تا کہ تم جنت سے نکال دیے جائو۔ بلکہ اس نے یہ کہہ کر انہیں دھوکا دیا کہ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰىo (کیا میں تمہیں وہ درخت بتائوں جو حیاتِ ابدی اور لازوال بادشاہی کا درخت ہے۔ سورہ طٰہٰ 120:20)۔ یہی انسان کی فطرت آج تک چل رہی ہے، آج بھی جتنی غلطیوں اور حماقتوں میں شیطان اس کو مبتلا کر رہا ہے وہ سب کسی نہ کسی پر فریب نعرے اور کسی نہ کسی جھوٹے لباس کے سہارے مقبول ہو رہی ہیں۔