فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص

مسلمانوں کے سامنے ’’آزادی‘‘ کا نام لے کر توقع کی جاتی ہے‘ کہ وہ اس دل فریب نام کو سن کر بے خود ہو جائیں گے‘ اور حقائق سے آنکھیں بند کرکے ہر اس راستہ پر چل کھڑے ہوں گے جسے ’’آزادی کا راستہ‘‘ کہہ دیا جائے۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمان بھی آزادی کے اتنے ہی خواہش مند ہیں جتنے ہندستان کے دوسرے لوگ، بلکہ مسلمانوں میں اس چیز کی تڑپ دوسروں سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ان میں ایک قلیل جماعت ایسی ضرور ہو سکتی ہے‘ جو اپنی اغراض کے لیے ہندستان میں غیر ملکی اقتدار چاہتی ہو۔ ہندوؤں، سکھوں، پارسیوں اور ہندستان کی دوسری قوموں میں بھی ایسی قلیل التعداد جماعتیں موجود ہیں۔ لیکن جمہور مسلمین میں شائد کوئی ایک شخص بھی آپ کو نہ ملے گا جو ہندستان کو انگریزوںکا غلام دیکھنا چاہتا ہو۔ بلکہ اوسطاً ایک مسلمان دوسری تمام قوموں کی بہ نسبت انگریزیت اور اس کے اقتدار کو زیادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کا مذہب ہی اسے یہ سکھاتا ہے‘ کہ مادہ پرستی، شہوات کی بندگی اور ظلم و جور پر جس تہذیب اور جس سیاست کی بنا قائم ہو اس سے نفرت کرے۔ پھر اس کے دل میں آج تک یہ زخم تازہ ہے‘ کہ اس ملک کی حکومت اس سے چھینی گئی ہے‘ اور اسی کو سب سے زیادہ پامال کیا گیا ہے، اس لیے نہ صرف فطرتاً بلکہ تاریخی لحاظ سے بھی مسلمان سب سے بڑھ کر آزادی وطن کا خواہش مند ہے۔
آزادی کیوں؟
لیکن سوال یہ ہے‘ کہ آزادی وطن سے مراد کیا ہے؟ کوئی قوم آزادی کیوں چاہتی ہے؟ یہ چیز فی نفسہٖ مطلوب ہے، یا کسی غرض کے لیے ناگزیر وسیلہ ہونے کی حیثیت سے مطلوب ہے؟ اگر وہ غرض حاصل ہونے کے بجائے الٹی فوت ہوئی جاتی ہو تو کیا پھر بھی کسی قوم سے یہ توقع کی جا سکتی ہے‘ کہ وہ ’’آزادی‘‘کے نام پر دیوانہ وار دوڑی چلی آئے گی؟ کیا ایسی ’’آزادی‘‘ کو وہ قوم بھی اپنے لیے آزادی سمجھ سکتی ہے‘ جس کو حقیقت میں آزادی نہ مل رہی ہو؟ اور کیا اس قسم کی آزادی کے لیے جنگ اور قربانی کرنا عقل، فطرت، دین، کسی چیز کی رو سے بھی کسی قوم کا فرض ہو سکتا ہے؟ یہ سوالات ہیں‘ جن پر میدان جنگ میں قدم رکھنے سے پہلے ہر ذی عقل انسان غور کرنے پر مجبور ہے، اور مسلمان آخر ذوی العقول سے خارج تو نہیں ہے‘ کہ ان بنیادی سوالات کو نظر انداز کرکے خواہ مخواہ اس بگل کی آوازپر لفٹ رائٹ شروع کر دے جو شیو گاؤں یا سوراج بھون سے پھونکا جائے۔
یہ ظاہر ہے‘ کہ ’’آزادیٔ وطن‘‘ سے مراد ہمالیہ و گنگا جمنا اور مشرقی و مغربی گھاٹوں کی آزادی نہیںہے۔ یہ پہاڑ اور یہ دریا دس ہزار برس پہلے جیسے آزاد تھے ویسے ہی آج بھی ہیں‘ اور قیامت تک رہیں گے۔ دراصل غلام یہ پہاڑ اور یہ دریا نہیں‘ بلکہ ہندستان کے باشندے ہیں، اور آزادی وطن سے مراد حقیقت میں وطن کے باشندوں ہی کی آزادی ہو سکتی ہے۔
پھر یہ بھی ظاہر ہے‘ کہ وطن جب{ FR 2923 } ۳۵ کروڑ باشندوں سے آباد ہے‘ تو صحیح معنوں میں آزادی وطن، صرف اسی آزادی کو کہا جا سکتا ہے‘ جو ان پورے ۳۵ کروڑ باشندوں کے لیے آزادی ہو۔ اہلِ وطن میںسے بعض کی آزادی اور بعض کی غلامی کو پورے وطن کی آزادی سے ہرگز تعبیر نہیںکیا جا سکتا۔ عموماً لوگ محض سہولت پسندی کی بنا پر بہت سے ایسے ملکوں کو ’’آزاد‘‘ کہہ دیا کرتے ہیں‘ جن کے باشندوں کا ایک حصہ آزاد اور دوسرا حصہ خود اہلِ وطن کا غلام ہوتا ہے۔ مثلاً جس دور کے متعلق کہا جاتا ہے‘ کہ ہندستان آزاد تھا اس میں درحقیقت ’’ہندستان‘‘ آزاد نہ تھا بلکہ ہندستان کا آریہ آزاد تھا۔ شودر کی غلامی اس ملک کے باشندوں کی غلامی سے بھی ہزار درجہ زیادہ بد تر تھی جسے سے اصطلاحاً ہم غلام کہتے ہیں۔ آج امریکہ کو آزاد ملک کہا جاتا ہے۔ حالانکہ امریکہ کی آزادی محض اس کے سفید فام باشندوں کی آزادی ہے، سیاہ فام باشندے کسی آزادی سے متمتع نہیں۔ اسی طرح روس کی آزادی صرف اس کے کمیونسٹ باشندوں تک محدود ہے۔ مسلمان، عیسائی اور تمام غیر اشتراکی بلکہ غیر اسٹالینی باشندوں کے لیے قطعاً کوئی آزادی نہیں، بلکہ ہماری غلامی سے بھی بد تر غلامی ہے۔ جنوبی افریقہ کی آزادی محض اس کے فرنگی باشندوں کے حصہ میں آئی ہے۔وہاں کی دیسی آبادی‘ اور ہندستانی آبادی اس درجہ غلام ہے‘ کہ ہم اپنے آپ کو نسبتاً ان کے مقابلہ میں آزاد کہہ سکتے ہیں۔ جرمنی کی آزادی صرف آرین نسل کے لیے ہے، سامیوں کے لیے نہیں۔ چیکوسلواکیہ کی آزادی چند روز پہلے تک صرف چیک اور سلواک باشندوں کے لیے مخصوص تھی، دوسروں کے لیے نہیں۔{ FR 2924 } ایسے ممالک کو اگر عرف عام میں آزاد کہا جاتاہے ‘تو اس سے وہ تلخ حقیقت شیرینی نہیں بن جاتی جو ان کے غلام باشندوںکو رات دن زہر کے گھونٹوں کی طرح حلق کے نیچے اتارنی پڑتی ہے۔
یہ ایک عام غلط فہمی ہے‘ کہ محض غیر ملکی اقتدار سے آزاد ہو جانے کا نام ’’آزادی‘‘ رکھ دیا گیا ہے، حالانکہ یہ آزادی کی تمام حقیقت نہیں ہے، بلکہ صرف اس کا مقدّمہ ہے۔ آزادی کا اصلی جوہر تو حکومت خود اختیاری سے متمتع ہونا اور اپنی اجتماعی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے پر آپ قادر ہونا ہے۔ یہ چیز اگر ملک کے کسی گروہ کو حاصل نہ ہو، اگر اس کی نکیل اپنے ہی وطن کے کسی دوسرے گروہ کے ہاتھ میں رہے‘ کہ جس طرح وہ چاہے اسے اٹھائے اور جس طرف چاہے اسے چلائے اور جو کچھ چاہے اس پر لاد دے تو وہ حقیقت میں غلام ہی ہو گا، اس کے لیے ملک کی آزادی محض بے معنی ہو گی۔ غلامی اپنی حقیقت اور فطرت کے لحاظ سے بہرحال ایک ہی چیز ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ وہ غیر ملک والوں کی غلامی ہے‘ یا اہلِ وطن کی۔ اگرچہ تجربہ سے یہی ثابت ہوا ہے‘ کہ کمیّت و کیفیت کے اعتبار سے اہلِ وطن کی غلامی بہ نسبت غیر ملکیوں کی غلامی کے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ مثلا جو سلوک امریکہ کا سفید فام اپنے حبشی اہلِ وطن کے ساتھ کرتا ہے، یا جو برتاؤ روس کا اسٹالینی اپنے غیر اسٹالینی یا غیر اشتراکی اہلِ وطن سے کر رہا ہے، اس کو کوئی نسبت اس طرزِعمل سے نہیں جو ہندوستان میں انگریزوںنے ہمارے ساتھ اختیار کیا ہے۔ تاہم دونوں قسم کی غلامیوں میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کا سوال ہرگز پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ غلامی بہرحال ایسی چیز ہے‘ کہ اسے دفع کرنے کی کوشش ہی کرنی چاہیے۔ پس جو شخص اہلِ وطن کی غلامی کو غیر ملکیوں کی غلامی پر ترجیح دیتا ہو‘ اور دوسری قسم کی غلامی کو محض پہلی قسم کی غلامی میں بدل لینے کا نام ’’جنگِ آزادی‘‘ رکھے، اور ایسی جنگِ آزادی میں شریک ہونے کو فرض قرار دے، وہ دراصل جنت الحمقاء کا باشندہ ہے۔ کوئی صاحب ِعقل انسان اس کی پیروی نہیں کر سکتا۔ نہ ایک پوری کی پوری قوم اتنی بیوقوف ہو سکتی ہے‘ کہ وہ صرف غیر ملکی اقتدار سے آزاد ہونے کے لیے میدان جنگ میں کود پڑے، اور یہ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھے کہ آزادی کے اصلی جوہر میں بھی اس کا کوئی حصہ ہے‘ یا نہیں۔
ایک وطن کے باشندوںکو مجرد اس واقعہ کی بنا پر کہ وہ ایک وطن کے باشندے ہیں، تمام حیثیات سے ایک سمجھ لینا، اور اس مفروضہ پر ملک کی آزادی کو ان سب کے لیے یکساں آزادی قرار دینا، یا تو جہالت ہے‘ یا پھر خطرناک قسم کی چالاکی، بہت سے لوگ اسی مفروضہ کو سامنے رکھ کر بے تکلف کہہ جاتے ہیں‘ کہ ’’بھائی ! جب ملک آزاد ہو گا‘ تو سب آزاد ہو جائیں گے‘‘ لیکن یہ مفروضہ ہر حال میں ہر جگہ صحیح نہیںہو سکتا۔ جہاں صرف ایک قوم رہتی ہو، مختلف گروہ اور ان گروہوں کے درمیان گروہی امتیازات نہ ہوں، اور سب باشندے اپنے عقائد، جذبات و احساسات (sentiments) رسوم و رواج، قوانینِ معاشرت اور طرز زندگی کے اعتبار سے ایک ہوں، یا کم از کم باہم متقارب ہوں، وہاں تو بلا شبہ کہا جا سکتا ہے‘ کہ محض ملک کا آزاد ہو جانا ہی تمام باشندگانِ ملک کا آزاد ہو جانا ہے کیونکہ وہاں اہلِ ملک کے درمیان الگ الگ گروہوں کا وجود ہی نہیں ہے‘ جس کی بنا پر اس امر کا امکان پیدا ہوتا ہو‘ کہ آزادی ایک گروہ کے پاس اٹک کر رہ جائے‘ اور دوسرے گروہ تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن جس ملک کے باشندوں میں ایک سے زیادہ گروہ موجود ہوں، اور ان کے درمیان نسل یا رنگ، یا زبان، یا عقائد، جذبات اور طرز زندگی کے بین اختلافات موجود ہوں، وہاں اس امر کا امکان ہے‘ کہ آزادی کی دولت کو ایک گروہ اچک لے اور دوسرے گروہ یا گروہوں کو اس سے محروم کر دے۔ ایسی جگہ وہ مفروضہ نہیں چل سکتا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ وہاں ہرگروہ کو یہ پوچھنے کا حق ہے، اور اگر وہ اپنے وجود کو عزیز رکھتا ہے‘ تو اسے پوچھنا چاہیے‘ کہ آزادی حاصل کرنے کا کون سا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے، اور جس آزادی کے لیے جدوجہد کی جارہی ہے وہ کس نوع کی آزادی ہے۔ پھر اگر واقعات سے کسی گروہ پر یہ ثابت ہو جائے‘ کہ حصول آزادی کا وہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے‘ جو اس کے اجتماعی وجود کو نقصان پہنچانے والا ہے، اور ملک کی آئندہ حکومت ایسے اصولوں پر تعمیر ہو رہی ہے‘ جن کی بدولت حکمرانی کے اختیارات سے وہ لازمی طور پر محروم ہو جاتا ہے، تو اس سے ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایسی جنگِ آزادی میں حصہ لے گا۔ ایسی آزادی کو ملک کی آزادی کہنا حقیقت کے خلاف ہے، جس گروہ کے لیے یہ آزادی نہیں‘ بلکہ غلامی ہے،ا ور جس گروہ کے لیے یہ زندگی نہیں‘ بلکہ موت ہے وہ آخر کیوں اس کے حاصل کرنے میں حصہ لے۔
اس مرحلے پر پہنچ کر ہم سے دو مختلف باتیں کہی جاتی ہیں، اور ضرورت ہے‘ کہ ہم ان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ کہا جاتا ہے‘ کہ ملک کی آزادی کا لازمی نتیجہ خوش حالی ہے، اور یہ خوش حالی جب آئے گی‘ تو تمام باشندے اس سے متمتع ہوں گے۔ تعلیم عام ہو گی، تمدّن ترقی کرے گا، صنعت و حرفت اور تجارت کو فروغ ہو گا۔ معیار زندگی بلند ہو گا۔ اور اقوام عالم کے درمیان اہلِ ملک کی عزت بڑھے گی۔ یہ فوائد ظاہر ہے‘ کہ ملک کے تمام باشندوں کو حاصل ہوں گے۔ پھر کیوں نہ ملک کے ہرگروہ کو ان فوائد سے یکساں دل چسپی ہو‘ اور کیوں نہ وہ ان کے حصول کے لیے مل کر جدوجہد کریں؟
یہ بھی کہا جاتا ہے‘ کہ ملک کی خوش حالی اور ترقی کے لیے آزادی ناگزیر ہے، اور آزادی کے حصول میں مختلف گروہوں کا وجود اور ان کے امتیازات مانع ہیں، لہٰذا کوشش کرنی چاہیے‘ کہ ان گروہوں کو اور ان کے امتیازات کو مٹا کر تمام اہلِ ملک کو ایک کر دیا جائے۔ کیونکہ جب تک یہ باقی رہیں گے ملک آزاد نہ ہو سکے گااور جب تک ملک آزاد نہ ہو گا، تمام اہلِ ملک خواہ وہ کسی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں، یکساں بدحالی، افلاس، جہالت، اخلاقی اور ذہنی پستی میں مبتلا رہیں گے، کیا تم ان حالات کو دائماً برقرار رکھنا چاہتے ہو؟
یہ بھی کہا جاتا ہے‘ کہ ایک ملک کے باشندوں میں عقائد، جذبات، طرز زندگی، زبان، ادب اور تہذیب و تمدّن کے اختلاف غیر حقیقی اور مصنوعی ہیں۔ ان کو زندگی کے اہم تر مسائل سے کوئی علاقہ نہیں۔ زندگی کے اہم تر مسائل یہ ہیں‘ کہ لوگوں کو کھانے کے لیے مل رہا ہے‘ یا نہیں؟ ان کے لیے زندگی کی ضروریات پوری کرنے ا ور مزید برآں زندگی کی آسائشوں سے متمتع ہونے کے مواقع موجود ہیں یا نہیں؟ ان کے ملک میں دولت آفرینی کے جوو سائل موجود ہیں ان سے کس قدر فائدہ اٹھایا جا رہا ہے؟ اور جو دولت وہ پیدا کر رہے ہیں وہ کس طرح تقسیم ہو رہی ہے؟ ان اہم تر مسائل کا تعلق تمام باشندگانِ ملک سے یکساں ہے‘ اور ان میں ان سطحی اختلافات کا کچھ دخل نہیں جن کا تم ذکر کرتے ہو۔ لہٰذا یہ اختلاف اگر موجود بھی ہیں‘ تو انہیں نظر انداز کر دینا چاہیے‘ اور تمام باشندگانِ ملک کو ایک قوم فرض کرکے زندگی کے ان مسائل کو حل کرنا چاہیے۔
یہ بھی کہا جاتاہے‘ کہ تہذیب و تمدّن کے بقاء قیام اور عروج و ارتقاء کا انحصار بھی معاشی فلاح اور سیاسی آزادی پر ہے۔ یہ چیز اگر حاصل نہ ہو تو کوئی تہذیب زندہ نہیں رہ سکتی، کجا کہ ترقی کر سکے۔ لہٰذا تہذیب و تمدّن کا مفاد بھی اس امر کا مقتضی ہے‘ کہ ملک کے تمام گروہ مل کر پہلے سیاسی آزادی اور معاشی فلاح کے لیے جدوجہد کریں۔
یہ مختلف باتیں کبھی مختلف زبانوں سے اور کبھی ایک ہی زبان سے سننے میں آتی ہیں۔ لیکن جب ہم ان پر غور کرتے ہیں‘ تو ہمیں محسوس ہوتا ہے‘ کہ اگر یہ ہم کو دھوکا دینے کے لیے نہیں کہی جا رہی ہیں‘ تو ان کے کہنے والے خود دھوکے میں ہیں۔ وہ حقیقت کو طالب علم کی نظر سے نہیں دیکھتے، بلکہ مشنری کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ جو اپنی خواہش نفس کے اتبّاع میں گم ہو جاتا ہے۔
آج انسان اس دور سے آگے نکل چکا ہے‘ جس دور میں وہ محض ایک جانور ہونے کی حیثیت سے بس اپنی جسمانی ضروریات کی تکمیل کا خواہش مند ہوتا تھا، اور یہ امر اس کی نگاہ میں کوئی خاص اہمیت نہ رکھتا تھا‘ کہ یہ ضروریات کس ڈھنگ پر، کس صورت میں پوری ہوتی ہیں۔ اب اس کے لیے اپنی ہزار ہا برس کی طے کی ہوئی مسافت کو الٹے پاؤں دوبارہ طے کرنا اور یکایک اسی دور وحشت و حیوانیت کی طرف پسپا ہو جانا محال ہے۔ا س طویل مدت میں اس کی عقل، اس کے مذاق، اس کے علم ا ور اس کی قوّتِ اجتہاد و اکتساب کے ارتقا سے انسانیت کے مختلف نمونے (models) پیدا ہو چکے ہیں۔ ایک ایک قوم ایک ایک نمونے کو پسند کرکے اس پر اپنی اجتماعی شخصیت تعمیر کر چکی ہے‘ اور اس خاص نمونہ انسانیت کو اپنی قومی ہیئت (national type) بنا چکی ہے‘ جو صدیوں کے نشوونما سے اس کے اندر پختہ ہوا ہے۔ اب ایک قوم کی زندگی دراصل اس کے نیشنل ٹائپ کی زندگی ہے‘ اور اس کے نیشنل ٹائپ کا مر جانا خود اس قوم کا مر جانا ہے۔ اگرچہ ضروریات زندگی کا پورا ہونا، دولت حاصل کرنا اور اسے خرچ کرنا آج بھی ایک قوم کے لیے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی اہمیت آج سے دس ہزار برس پہلے رکھتا تھا۔ لیکن ان تمام معاملات کا دامن ہر قوم کے مخصوص نظریہ زندگی اس کے ضابطہ اخلاقی، اس کے اصول معاشرت و تمدّن، اور اس کے معیار قدرو قیمت کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ ہر قوم اپنی ضروریات کو اپنے ہی نیشنل ٹائپ کے مطابق پورا کرنا چاہتی ہے۔ آپ محض ’’ضروریات زندگی‘‘ کا نام لے کر کسی قوم سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے حصول کے لالچ میں وہ اپنے نیشنل ٹائپ کو تبدیل کر دے۔ کیونکہ اس کی تبدیلی دراصل قوم کی موت ہے۔ کوئی قوم جس کی قومی سیرت مستحکم ہو چکی ہو وہ محض آسائشوں کے لالچ سے اپنے نیشنل ٹائپ کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہو سکتی، اور جو قوم اس پر آمادہ ہو جائے اس کے متعلق یہ یقین کے ساتھ جان لینا چاہیے‘ کہ یا تو اس کا کیریکٹر ابھی بنا نہیں ہے، یا پھر وہ ایک ذلیل اور موقع طلب (opportunist) قوم ہے‘ جس کی سیرت پر کوئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
آزادی اور قومی وجود
اس بنیادی حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے بعد غور کیجئے‘ کہ کوئی قوم آزادی کیوںچاہتی ہے۔ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ممکن ہے۔ اور وہ یہ کہ اپنے نیشنل ٹائپ کی حفاظت اور اس کے نشووارتقاء کی خواہش ہی دراصل آزادی کی طلب کا مبداء ہے۔ جو قوم غلام ہوتی ہے وہ اپنے نیشنل ٹائپ کو صرف یہی نہیں کہ ترقی نہیں دے سکتی بلکہ اس کے برعکس اس کا نیشنل ٹائپ مضمحل ہو جاتا ہے۔ اگر کسی قوم کو اپنا نیشنل ٹائپ عزیز نہ ہو تو اس میں سرے سے آزادی کی خواہش پیدا نہ ہو گی‘ اور جس قوم میں آزادی کے لیے تڑپ پائی جاتی ہے اس کی تڑپ کا کوئی سبب اس کے سوا نہیں کہ وہ اپنے نیشنل ٹائپ کو عزیز رکھتی ہے، اسے فنا نہیں ہونے دینا چاہتی، اور اس کو ترقی دینے کی خواہش مند ہے۔
جب حقیقت یہ ہے‘ تو وہ صرف ایک جاہل اور بے وقوف آدمی ہو گا جو آزادی حاصل کرنے کی خاطر کسی قوم کو اپنا نیشنل ٹائپ بدل دینے کے لیے کہے گا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا حماقت ہو سکتی ہے‘ کہ جس چیز کی خاطر آزادی کی خواہش ایک قوم میں پیدا ہوا کرتی ہے۔ اسی چیز کو مٹانے کا خیال ظاہر کیا جائے‘ اور پھر یہ توقع رکھی جائے‘ کہ آزادی کی پکار اس قوم کے دل و دماغ کو اپیل کرے گی۔ کیا کوئی شخص نقصان اٹھانے کی نیت سے تجارت کر سکتا ہے؟ کیا کوئی شخص مرنے کے لیے غذا کھا سکتا ہے؟ کیا کوئی شخص اس غرض کے لیے پانی کی طرف دوڑ سکتا ہے‘ کہ اس کی پیاس بجھنے کے بجائے اس کا سینہ جل جائے؟ اگر یہ ممکن نہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے‘ کہ ایک قوم اپنے قومی وجود کو ختم کرنے کے لیے آزادی کی خواہش کرے حالانکہ آزادی اس کی مطلوب ہی صرف اس لیے ہو سکتی ہے‘ کہ اپنے قومی وجود کو زندہ رکھے اور ترقی دے۔
بلاشبہ یہ کہنا بالکل صحیح ہے‘ کہ کوئی قوم اپنے نیشنل ٹائپ کی حفاظت اور ترقی کے لیے کچھ نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ آزاد نہ ہو جائے لیکن اس کے ساتھ یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے‘ کہ جس ملک میں متعدّد قومیں مختلف قومی ہیئتوں کے ساتھ رہتی ہوں وہاں مجرد ملک کی آزادی کو ہر ہر قوم کی آزادی نہیں کہا جا سکتا۔ وہاں آپ کو صراحت کے ساتھ یہ بتانا پڑے گا کہ آزاد حکومت کی نوعیت کیا ہو گی۔ اگر آزاد حکومت کے لیے آپ کے پاس اس جمہوریت کے ا صول ہوں جس کے معنی محض اکثریت کی حکومت کے ہیں۔ تو لامحالہ یہ آنے والی آزادی صرف اس قوم کے لیے آزادی ہو گی‘ جو کثیر التعداد واقع ہوئی ہو، قلیل التعداد قوموں کے لیے اس کے معنی بجز اس کے کچھ نہ ہوں گے کہ وہ غیر ملکی اقتدار سے نکل کر خود اپنی ایک ہم وطن قوم کی تابع ہو جائیں۔ ایسی آزادی کو نہ تو قلیل التعداد قومیں اپنے لیے آزادی سمجھ سکتی ہیں‘ اور نہ یہ توقع کر سکتی ہیں‘ کہ اکثریت کی حکومت کے تحت رہ کر انہیں اپنے نیشنل ٹائپ کی حفاظت اور ترقی کا کوئی موقع مل سکے گا۔ آزادی کی جنگ میں ان کے لیے صرف اسی وقت کشش پیدا ہو سکتی ہے‘ جب کہ آزاد حکومت کا ایک ایسا نقشہ ان کے سامنے پیش کیا جائے ‘جس میں ان کے لیے بھی حکومت خود اختیار رکھی گئی ہو۔ اس لیے کہ صرف حکومت خود اختیاری ہی وہ چیز ہے‘ جس سے کوئی قوم اپنے نیشنل ٹائپ کی حفاظت و ترقی کے لیے کچھ کر سکتی ہے، اور نیشنل ٹائپ کی حفاظت و ترقی ہی وہ واحد غرض ہے‘ جس کے لیے کوئی قوم آزادی چاہتی اور آزادی کی خاطر لڑ سکتی ہے۔
رہا یہ قول کہ ملک کی خوشحالی میں تمام باشندگانِ ملک کا یکساں حصہ ہو گا خواہ ملک کا نظامِ حکومت بالکل اکثریت کے ہاتھوں میں ہی کیوں نہ ہو، تو یہ قطعاً غلط ہے۔ جہاں قومی امتیاز موجود ہو وہاں ترجیح ہم جنس لازماً موجود ہوتی ہے۔ اور جہاں ترجیح ہم جنس پائی جاتی ہو وہاں صرف عقائد، جذبات، طرز زندگی، زبان و ادب اور تہذیب و تمدّن ہی کے معاملہ میں ایک قوم کا مفاد دوسری قوم سے مختلف نہیںہوتا بلکہ معاشی، سیاسی اور انتظامی معاملات میں بھی لازما مختلف ہو جاتا ہے۔ وہاں جس طرح ایک قوم اپنی تعلیم، اپنی معاشرت اور اپنی تہذیب کے سوال کو بے خوف و خطر دوسری قوم کے ہاتھ میں نہیں دے سکتی،ا سی طرح وہ اپنی روٹی کے سوال کو بھی اس کے ہاتھ میں دے کر مطمئن نہیںہو سکتی، اور نہ انتظامی و تشریعی ادارت میں اپنی نمائندگی کے سوال کو ا س پر چھوڑ سکتی ہے۔ جس جگہ ایک شخص پانی پینے اور کھانا کھانے کے لیے بھی یہ دیکھتا ہو‘ کہ پانی لانے والا اور کھانا بیچنے والا اس کا ہم قوم ہے‘ یا نہیں، جہاں ایک شخص بازار میں خرید و فروخت کرتے وقت بھی دکاندار کی قومیّت پر نظر رکھتا ہو، جہاں ایک مزدور سے خدمت لیتے ہوئے یا کسی آدمی کو ملازم رکھتے ہوئے بھی دیکھا جاتا ہو‘ کہ اس مزدور یا اس اُمیدوار کا تعلق کس قوم سے ہے، وہاں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کے سارے باشندوں کا معاشی یا سیاسی مفاد یکساں ہے، اور کسی ایک قوم کے ہاتھ میں حکومت کے اختیارات سمٹ جانے سے دوسری قوم کے پیٹ کو کوئی خطرہ نہیں۔
پھر جیسا کہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں، یہ خیال کرنا بھی بالکل غلط ہے‘ کہ دولت آفرینی اور تقسیم دولت اور معیار زندگی کی ترقی اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے مسائل کا کوئی تعلق تہذیب و تمدّن سے نہیں ہے۔ اس باب میں ہر جماعت اپنا الگ الگ مسلک اور الگ نقطۂ نظر رکھتی ہے‘ اور محض آسائش جسمانی کے لالچ سے اس بات پر آمادہ نہیں ہو سکتی کہ اپنے نقطۂ نظر کو دوسرے نقطۂ نظر سے بدل لے۔ آپ اشتراکی جماعت سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے نظریات معیشت و اجتماع کو کسی لالچ کی بنا پر سرمایہ دارانہ نظریات سے بدل لے گی۔ اسی طرح آپ کو ایک مسلمان سے بھی یہ توقع نہ کرنی چاہیے‘ کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے میں اپنے مخصوص نقطۂ نظر کو بدل دے گا اور اپنے آپ کو دوسروں کے حوالہ کر دے گا کہ وہ جس طرح چاہیں اس کے لیے دولت کی پیدائش اور اس کی تقسیم کے سوال کو حل کر دیں، درآنحالیکہ یہ سوال اس کی تہذیب و تمدّن کے نقشے کو بنانے اور بگاڑنے میں فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔
اس بحث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے‘ کہ جو لوگ ’’آزادی‘‘ کا لفظ زبان سے نکال کر یہ توقع رکھتے ہیں‘ کہ ہندوستان کے مسلمان اس نام کو سنتے ہی ان کی طرف دوڑے چلے آئیں گے،ا ور جب ان کی یہ توقع پوری نہیں ہوتی‘ تو مسلمانوں کو بزدلی اور رجعت پسندی‘ اور سامراج پرستی کے طعنے دیتے ہیں، وہ کس خام خیالی میںمبتلا ہیں۔ ہر قوم میں تھوڑے یا بہت افراد ایسے ضرور نکل آتے ہیں‘ جو اپنے تخیلات و اوہام میں گم ہو کر اپنے قومی مفاد کو بھول جاتے ہوں‘ اور ایسے افراد بھی ضرور پائے جا سکتے ہیں‘ جو دن کی روشنی میں بھی نمایاں حقائق کو نہ دیکھ سکتے ہوں۔ مگر ایک پوری کی پوری قوم نہ اندھی ہو سکتی ہے‘ اور نہ بیوقوف۔ وہ کسی آواز پر دوڑ پڑنے سے پہلے یہ ضرور دیکھے گی کہ اس کو کس طرف بلایا جا رہا ہے۔ وہ محض آزادی کی پکار پر فریفتہ نہیں ہو سکتی۔ بلکہ عین اس کی عقل اور فطرت کا اقتضا ہے‘ کہ اس پکار کی حقیقت پر غور کرے اور یہ تحقیق کرے کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے‘ اور پکارنے والے جس آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے۔
آئندہ صفات میں انہی دو سوالات کی تحقیق کی جائے گی۔
خ خ خ

شیئر کریں