از:ابو الاعلیٰ مودودی
کچھ مدت سے ہمارے بعض حاکمانِ عدالت کی تقریروں اور تحریروں میں سُنّت کی صحت پر شکوک کے اظہار اور اس کو اِسلامی قانون کی بنیاد تسلیم کرنے سے انکار کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ حتّٰی کہ بعض عدالتی فیصلوں تک میں یہ خیالات نمایاں ہونے لگے تھے۔ مثال کے طور پر اب سے تین چار سال قبل مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ایک فیصلے میں لکھا گیا تھا:
اصل مشکل سے سابقہ، حدیث کے معاملے میں پیش آتا ہے جو سُنّت یا عمل رسولﷺ کی خبر دیتی ہے۔ اول تو یہ امر واقعہ ہے کہ کسی خاص مسئلے سے متعلق ایک حدیث کی صحت مختلف فیہ ہونے سے کم ہی محفوظ ہوتی ہے‘پھر مزید برآں چند معاملا ت میں تو نبیﷺ کی ثابت شدہ سُنّت سے بھی بعض خلفائے راشدین اور خصوصاً حضرت عمرؓ نے انحراف کیا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں اردو کے ایک عمدہ رسالے میں جمع کی گئی ہیں، جس کو ادارۂ طلوع اِسلام کراچی نے اِسلام میں قانون سازی کے اصول کے نام سے شائع کیا ہے اور میں نے اس سے بہت زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے… یہاں میرے لیے یہ کہنا ضروری نہیں ہے کہ سُنّت کے مبنی بروحی ہونے کی دلیل کچھ مضبوط نہیں ہے۔(پی۔ ایل۔ڈی، نومبر ۱۹۵۷ء، ص ۱۳۔۱۰۱۲)
یہ رجحان بڑھتے بڑھتے اب جسٹس محمد شفیع صاحب کے زیر تبصرہ فیصلے میں ایک قطعی واضح اور انتہائی صورت تک پہنچ گیا ہے اور منکرینِ حدیث کا گروہ اس کا پورا پورا فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ اس لیے ہم ناگزیر سمجھتے ہیں کہ تفصیل کے ساتھ اس فیصلے کا علمی جائزہ لیا جائے اورملک کے حکام عدالت اورقانون دان اصحاب کو اس طرز فکر کی کم زوریوں سے آگاہ کر دیا جائے۔ جس مقدمے میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے، اس کے واقعات سے ہمیں قطعًا کوئی بحث نہیں ہے، اور اس میں جو حکم فاضل جج نے صادر کیا ہے، اس پربھی ہم کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری بحث صرف ان اصولی مسائل تک محدود ہے جو اس فیصلے میں قرآن اور سُنّت اور فقہ کی پوزیشن کے متعلق چھیڑے گئے ہیں۔