(۱۶) ۲۷فروری سے جب کہ ڈائریکٹ ایکشن کاآغاز ہوا۔ ۴ مارچ تک کے عوام کے مظاہروں نے اشتعال کے باوجود کہیں بھی بدامنی ، لوٹ مار، قتل،آتش زنی یاتخریب کا رنگ اختیار نہیں کیا تھا۔ میں اس زمانے میں نہ صرف لاہور کے حالات سے باخبر رہاہوں بلکہ پنجاب کے ہر حصے سے میری جماعت کے کارکن مجھے ٹیلی فون کے ذریعے سے حالات بتاتے رہے ہیں۔ میں وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتاہوں کہ اس مدت میں عوام نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو وہ اس سے پہلے آج کے حکمرانوں کی قیادت میں سرخضر حیات خاں کی وزارت توڑنے کے لیے کرچکے تھے ۔ ان کے نعروں کی زبان، ان کے جلوسوں کاانداز، ان کے سوانگ، بعض شخصیتوں پر ان کے حملے حتیٰ کہ ان کاڈائریکٹ ایکشن اور ان کا دفعہ ۱۴۴توڑنا بجائے خود کتنا ہی قابل اعتراض سہی لیکن آخر ان میں سے وہ کون سی چیز تھی جو پہلی مرتبہ ہی ان سے ظہور میں آئی ہو؟ یہ سب کچھ وہ اس سے پہلے خود ان لوگوں کی رہنمائی میں کرچکے تھے جو اس تازہ ڈائریکٹ ایکشن کے موقعہ پر صوبہ اور مرکزکی وزارتی کرسیوں پر تشریف فرماتھے کوئی وجہ نہ تھی کہ اب یہ حضرات اپنے ہی کیے اور سکھائے ہوئے کاموں کو ایسا سخت گناہ سمجھ لیتے کہ ان کے خلاف وہ کچھ کرنے پر اُتر آتے جو سر خضر حیات خاں نے نہ کیاتھا۔