Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
ایک منکر حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب
مسئلہ اجتہاد کے بارے میں چند شبہات
اجتہاد اور اُس کے تقاضے
مسئلہ اجتہاد میں الفاظ اور رُوح کی حیثیت
قانون سازی، شوریٰ اور اجماع
نظامِ اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
سنت ِرسول بحیثیت ِماخذ قانون
اسلام میں ضرورت و مصلحت کا لحاظ اور اس کے اصول و قواعد
دین میں حکمت ِ عملی کا مقام
غیبت کی حقیقت اور اس کے احکام
غیبت کے مسئلے میں ایک دو ٹوک بات
غیبت کے مسئلے میں بحث کا ایک اور رُخ
دو اہم مبحث:
اسلام اور عدل اجتماعی
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
عائلی قوانین کے کمیشن کا سوالنامہ اور اُس کا جواب
اہلِ کتاب کے ذبیحہ کی حِلّت و حُرمت
انسان کے بنیادی حقوق
مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک حاکمیت
شہادتِ حسین ؑ کا حقیقی مقصد ۱؎
اقوامِ مغرب کا عبرت ناک انجام
دنیائے اِسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار

تفہیمات (حصہ سوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ایک منکر حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب

(مندرجہ بالا مقالے پر بین الاقوامی مجلس مذاکرہ کے اجلاس میں ایک منکر حدیث نے اٹھ کر چند اعتراضات پیش کیے تھے جن کا حسب ذیل جواب اسی مجلس مذاکرہ میں مصنف کی طرف سے دیا گیا)
اسلام میں قانون سازی اور اجتہاد کے موضوع پر میرے مقالے کے سلسلے میں جو اعتراضات کیے گئے ہیں میں یہاں ان کا جواب زیادہ سے زیادہ اختصار کے ساتھ دینے کی کوشش کروں گا۔
پہلا اعتراض اس پوزیشن پر ہے جو قرآن کے ساتھ سنّت کو دی گئی ہے۔ اس کے جواب میں چند باتیں میں ترتیب وار عرض کروں گا تاکہ مسئلہ پوری طرح آپ کے سامنے واضح ہو جائے۔
(۱) یہ ایک ناقابلِ انکار تاریخی حقیقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف قرآن پہنچا دینے پر اکتفا نہیں کیا تھا، بلکہ ایک ہمہ گیر تحریک کی رہنمائی بھی کی تھی جس کے نتیجے میں ایک مسلم سوسائٹی پیدا ہوئی، ایک نیا نظام تہذیب و تمدن وجود میں آیا اور ایک ریاست قائم ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پہنچانے کے سوا یہ دوسرے کام جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے، یہ آخر کس حیثیت سے تھے؟ آیا یہ نبی کی حیثیت سے تھے جس میں آپ اسی طرح خدا کی مرضی کی نمایندگی کرتے تھے جس طرح کہ قرآن؟ یا آپ کی پیغمبرانہ حیثیت قرآن سنانے کے بعد ختم ہو جاتی تھی اور اس کے بعد آپ عام مسلمانوں کی طرح محض ایک مسلمان رہ جاتے تھے جس کا قول و فعل اپنے اندر بجائے خود کوئی قانونی سند و حجت نہیں رکھتا؟ پہلی بات تسلیم کی جائے تو سنّت کو قرآن کے ساتھ قانونی سند و حجت ماننے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ البتہ دوسری صورت میں اسے قانون قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔
(۲) جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف نامہ بر نہیں تھے۔ بلکہ خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر، حاکم اور معلّم بھی تھے جن کی پیروی و اطاعت مسلمانوں پر لازم تھی اور جن کی زندگی کو تمام اہلِ ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا گیا تھا۔ جہاں تک عقل کا تعلق ہے وہ یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ ایک نبی صرف خدا کا کلام پڑھ کر سنا دینے کی حد تک تو نبی ہو اور اس کے بعد وہ محض ایک عام آدمی رہ جائے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ آغازِ اسلام سے آج تک بالاتفاق ہر زمانے میں اور تمام دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ واجب الاتباع اور ان کے امرو نہی کو واجب الاطاعت مانتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ کوئی غیر مسلم عالم بھی اس امر واقعی سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ آنحضرت کی یہی حیثیت مانی ہے اور اِسی بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سنّت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ اب میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص سنّت کی اس قانونی حیثیت کو کیسے چیلنج کر سکتا ہے جب تک وہ صاف صاف یہ نہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف تلاوتِ قرآن کی حد تک نبی تھے اور یہ کام کر دینے کے ساتھ ان کی حیثیت نبوت ختم ہو جاتی تھی۔ پھر اگر وہ ایسا دعویٰ کرے بھی تو اسے بتانا ہو گا کہ یہ مرتبہ وہ آنحضرت کو بطور خود دے رہا ہے یا قرآن نے حضور کو یہی مرتبہ دیا ہے؟ پہلی صورت میں اس کے قول کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں دوسری صورت میں اسے قرآن سے اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرنا ہو گا۔
(۳) سنّت کو بجائے خود ماخذ قانون تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ میں اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ آج پونے چودہ سو سال گزر جانے کے بعد پہلی مرتبہ ہم کو اس مسئلے سے سابقہ نہیں پیش آ گیا ہے کہ ڈیڑھ ہزار برس قبل جو نبوت مبعوث ہوئی تھی اس نے کیا سنّت چھوڑی تھی۔ دو تاریخی حقیقتیں ناقابلِ انکار ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کی تعلیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر جو معاشرہ اسلام کے آغاز میں پہلے دن قائم ہوا تھا وہ اس وقت سے آج تک مسلسل زندہ ہے۔ اس کی زندگی میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے۔ اور اس کے تمام ادارے اس ساری مدت میں پیہم کام کرتے رہے ہیں۔ آج تمام دنیا کے مسلمانوں میں عقائد اور طرزِ فکر، اخلاق اور اقدار، عبادات اور معاملات، نظریۂ حیات اور طریق حیات کے اعتبار سے جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے جس میں اختلاف کی بہ نسبت ہم آہنگی کا عنصر بہت زیادہ موجود ہے جو ان کو تمام روئے زمین پر منتشر ہونے کے باوجود ایک امت بنائے رکھنے کی سب سے بڑی بنیادی وجہ ہے، یہی اس امر کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ اس معاشرے کو کسی ایک ہی سنّت پر قائم کیا گیا تھا اور وہ سنّت ان طویل صدیوں کے دوران میں مسلسل جاری رہی ہے۔ یہ کوئی گم شدہ چیز نہیں ہے جسے تلاش کرنے کے لیے ہمیں اندھیرے میں ٹٹولنا پڑ رہا ہو۔ دوسری تاریخی حقیقت، جو اتنی ہی روشن ہے، یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے ہر زمانے میں مسلمان یہ معلوم کرنے کی پیہم کوشش کرتے رہے ہیں کہ سنّتِ ثابتہ کیا ہے اور کیا نئی چیز ان کے نظامِ حیات میں کسی جعلی طریقے سے داخل ہو رہی ہے۔ چونکہ ان کے لیے سنّت قانون کی حیثیت رکھتی تھی۔ اسی پر ان کی عدالتوں میں فیصلے ہونے تھے اور ان کے گھروں سے لے کر حکومتوں تک کے معاملات چلنے تھے، اس لیے وہ اس کی تحقیق میں بے پروا اور لا ابالی نہیں ہو سکتے تھے۔ اس تحقیق کے ذرائع بھی اور اس کے نتائج بھی ہم کو اسلام کی پہلی خلافت کے زمانے سے لے کر آج تک نسلاً بعد نسلٍ میراث میں ملے ہیں اور بلا انقطاع ہر نسل کا کیا ہوا کام محفوظ ہے۔ ان دو حقیقتوں کو اگر کوئی اچھی طرح سمجھ لے اور سنّت کو معلوم کرنے کے ذرائع کا باقاعدہ علمی مطالعہ کرے تو اسے کبھی یہ شبہ لاحق نہیں ہو سکتا کہ یہ کوئی لاینحل معما ہے جس سے وہ دوچار ہو گیا ہے۔
(۴) بلاشبہ سنّت کی تحقیق اور اس کے تعیّن میں بہت سے اختلافات ہوئے ہیں اور آیندہ بھی ہو سکتے ہیں لیکن ایسے ہی اختلافات قرآن کے بہت سے احکام اور ارشادات کے معنی متعیّن کرنے میں بھی ہوئے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ ایسے اختلافات اگر قرآن کو چھوڑ دینے کے لیے دلیل نہیں بن سکتے تو سنّت کو چھوڑ دینے کے لیے انھیں کیسے دلیل بنایا جا سکتا ہے۔ یہ اصول پہلے بھی مانا گیا ہے اور آج بھی اسے ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ جو شخص بھی کسی چیز کے حکم قرآن یا حکم سنّت ہونے کا دعویٰ کرے وہ اپنے قول کی دلیل دے۔ اس کا قول اگر وزنی ہو گا تو امت کے اہلِ علم سے یا کم از کم ان کے کسی بڑے گروہ سے اپنا سکہ منوا لے گا، اور جو بات دلیل کے اعتبار سے بے وزن ہو گی وہ بہرحال نہ چل سکے گی۔ یہی اصول ہے جس کی بنا پر دنیا کے مختلف حصّوں میں کروڑوں مسلمان کسی ایک مذہب فقہی پر مجتمع ہوئے ہیں اور ان کی بڑی بڑی آبادیوں نے احکامِ قرآنی کی کسی تفسیر اور سننِ ثابتہ کے کسی مجموعے پر اپنے اجتماعی نظام کو قائم کیا ہے۔
دوسرا اعتراض میرے مقالے پر یہ کیا گیا ہے کہ میرے کلام میں تناقض ہے، یعنی میرا یہ قول کہ قرآن و سنّت کے واضح اور قطعی احکام میں تبدیلی کا اختیار کسی کو نہیں ہے، معترض کے نزدیک میرے اس قول سے متناقض ہے کہ استثنائی حالات و واقعات میں ان احکام سے ہٹ کر کام کرنے کی گنجائش اور اس کے مواقع اجتہاد سے متعیّن کیے جا سکتے ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اس میں کیا تناقض محسوس کیا گیا ہے۔ اضطرار اور مجبوری کی حالت میں عام قاعدے سے استثنا دنیا کے ہر قانون میں ہوتا ہے۔ قرآن میں بھی ایسی رخصتوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور ان مثالوں سے فقہا نے وہ اصول متعیّن کیے ہیں جن کو رخصت کی حد اور اس کے مواقع متعیّن کرنے میں ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ مثلاً
الضرورات تبیح المحظورات اور المشقۃ تجلب التیسیر
تیسرا اعتراض ان سب لوگوں پر کیا گیا ہے جنھوں نے یہاں اپنے مقالات میں اجتہاد کی کچھ شرائط بیان کی ہیں۔ چونکہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں اس لیے اس کا جواب میرے ذمے بھی ہے۔ میں عرض کروں گا کہ براہِ کرم ایک دفعہ پھر ان شرطوں پر ایک نگاہ ڈال لیجیے جو میں نے بیان کی ہیں اور پھر بتایئے کہ آپ ان میں سے کس شرط کو ساقط کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ شرط کہ اجتہاد کرنے والوں میں شریعت کی پیروی کا مخلصانہ ارادہ پایا جاتا ہو اور وہ اس کے حدود کو توڑنے کے خواہش مند نہ ہوں؟ یا یہ شرط کہ وہ قرآن و سنّت کی زبان، یعنی عربی سے واقف ہوں؟ یا یہ کہ انھوں نے قرآن و سنّت کا کم از کم اس حد تک گہرا مطالعہ کیا ہو کہ وہ شریعت کے نظام کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوں؟ یا یہ کہ پچھلے مجتہدین کے کیے ہوئے کام پر بھی ان کی نظر ہو؟ یا یہ کہ وہ دنیا کے معاملات اور مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں؟ یا یہ کہ وہ بدکردار اور اسلامی معیارِ اخلاق سے گرے ہوئے نہ ہوں؟ ان میں سے جس شرط کو بھی آپ غیر ضروری سمجھتے ہوں اس کی نشان دہی کر دیں۔ یہ کہنا کہ ساری اسلامی دنیا میں دس بارہ آدمیوں سے زیادہ ایسے نہیں مل سکتے جو ان شرائط پر پورے اترتے ہوں، میرے نزدیک دنیا بھر کے مسلمانوں کے متعلق بہت ہی بری رائے ہے۔ غالباً ابھی تک ہمارے مخالفوں نے بھی ہم کو اتنا گرا ہوا نہیں سمجھا ہے کہ چالیس پچاس کروڑ مسلمانوں میں ان صفات کے اشخاص کی تعداد دس بارہ سے زیادہ نہ ہو۔ تاہم اگر آپ اجتہاد کا دروازہ ہر کس و ناکس کے لیے کھولنا چاہیں تو شوق سے کھول دیجیے۔ لیکن مجھے یہ بتایئے کہ جو اجتہاد بدکردار، بے علم اور مشتبہ نیت و اخلاص کے لوگ کریں گے اسے مسلمان پبلک کے حلق سے آپ کس طرح اتروائیں گے؟
(ترجمان القرآن۔ جنوری ۱۹۵۸ء)
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں