اس کے بعد پیرا گراف ۲۹ میں فاضل جج فرماتے ہیں:
مزید برآں کیا یہ قابل یقین ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے وہ بات فرمائی ہو گی جو حدیث بخاری کے صفحہ ۸۵۲ پر روایت نمبر ۷۴/۶۰۲ میں عبداللّٰہ بن قیس سے مروی ہے کہ مسلمان جنت میں ان عورتوں سے مباشرت کریں گے جو ایک خیمے کے مختلف گوشوں میں بیٹھی ہوں گی۔
ہم حیران تھے کہ یہ ’’حدیثِ بخاری‘‘ آخر کون سی کتاب ہے جس کے صفحہ ۸۵۲ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ آخر شبہ گزرا کہ شاید اس سے مراد تجرید البخاری کا اردو ترجمہ ہو جو ملک دین محمد اینڈ سنز نے شائع کیا ہے۔ اسے نکال کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ واقعی حوالہ اسی کا ہے۔ اب ذرا اس ستم کو ملاحظہ کیجیے کہ فاضل جج علم حدیث پر ایک عدالتی فیصلے میں ماہرانہ اظہار رائے فرما رہے ہیں اور حوالہ ایک ایسے غلط سلط ترجمے کا دے رہے ہیں جس کے مترجم کا نام تک کتاب میں ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ پھر اس پر مزید ستم یہ کہ اصل حدیث کے الفاظ پڑھنے کے بجائے ترجمے کے الفاظ پڑھ کر رائے قائم فرما رہے ہیں اور یہ تک محسوس نہیں فرماتے کہ ترجمے میں کیا غلطی ہے۔ حدیث کے اصل الفاظ اور ان کا صحیح ترجمہ یہ ہے:
اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ خَیْمَۃٌ مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ مُجَوَّفَۃً عَرْضُھَا سِتُّوْنَ مِیْلاً وَفِیْ کُلِّ زَاوِیَۃٍ مِّنْھَا اَھْلٌ مَایَرَوْنَ الْاٰخَرِیْنَ۔ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُوْنَ۔
(البخاری حدیث نمبر ۴۸۷۹)
جنت میں ایک خیمہ ہے جو کھوکھلے موتی سے بنا ہوا ہے، اس کا عرض ۶۰ میل ہے۔ اس کے ہر گوشے میں رہنے والے دوسرے گوشوں میں رہنے والوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ مومن ان پر گشت کریں گے۔‘‘ (یعنی وقتاً فوقتاً ہر ایک گوشے والوں کے پاس جاتے رہیں گے)۔
خط کشیدہ فقرے میں یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ کا ترجمہ مترجم نے ’’ان سے مباشرت کریں گے‘‘ کر دیا ہے اور فاضل جج نے اسی پر اپنی رائے کا مدار رکھ دیا ہے، حالانکہ ’’طاف علیہ‘‘کے معنی وقتاً فوقتاً کسی کے پاس جاتے رہنے کے ہیں نہ کہ مباشرت کرنے کے۔ قرآن مجید میں جنت ہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَo الواقعہ 17:56 ’’ان پر ایسے لڑکے گشت کرتے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہنے والے ہیں۔‘‘ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لڑکے ان سے مباشرت کریں گے؟