برادرانِ اسلام! پچھلے جمعے کے خطبے میں، میں نے آپ کو بتایا تھا کہ قرآن کی رُو سے انسان کی گمراہی کے تین سبب ہیں:
o ایک یہ کہ وہ خدا کے قانون کو چھوڑ کر اپنے نفس کی خواہشات کا غلام بن جائے۔
o دوسرے یہ کہ خدائی قانون کے مقابلے میں اپنے خاندان کے رسم ورواج اور باپ دادا کے طریقے کو ترجیح دے۔
o تیسرے یہ کہ خدا اور اس کے رسول a نے جو طریقہ بتایا ہے اس کو بالائے طاق رکھ کر انسانوں کی پیروی کرنے لگے، چاہے وہ انسان خود اس کی اپنی قوم کے بڑے لوگ ہوں، یا غیر قوموں کے لوگ۔
مسلمان کی اصلی تعریف
مسلمان کی اصلی تعریف یہ ہے کہ وہ ان تینوں بیماریوں سے پاک ہو۔ مسلمان کہتے ہی اُس کو ہیں جو خدا کے سوا کسی کا بندہ اور رسول a کے سوا کسی کا پیرو نہ ہو۔ مسلمان وہ ہے جو سچے دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ خدا اور اس کے رسولؐ کی تعلیم سراسر حق ہے، اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ باطل ہے اور انسان کے لیے دین ودنیا کی بھلائی جو کچھ بھی ہے صرف خدا اور اس کے رسولؐ کی تعلیم میں ہے۔ اس بات پرکامل یقین جس شخص کو ہو گا وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں صرف یہ دیکھے گا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا کیا حکم ہے، اور جب اسے حکم معلوم ہوجائے گا تو وہ سیدھی طرح سے اس کے آگے سر جھکا دے گا۔ پھر چاہے اس کا دل کتنا ہی تلملائے اور خاندان کے لوگ کتنی ہی باتیں بنائیں، اور دنیا والے کتنی ہی مخالفت کریں وہ ان میں سے کسی کی پروا نہ کرے گا، کیوں کہ ہر ایک کو اس کا صاف جواب یہی ہو گا کہ میں خدا کا بندہ ہوں، تمھارا بندہ نہیں ہوں، اور میں رسولؐ پر ایمان لایا ہوں تم پر ایمان نہیں لایا ہوں۔
نفاق کی علامتیں
۱۔ نفس کی بندگی
اس کے برخلاف اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا اور رسول a کا ارشاد یہ ہے تو ہوا کرے، میرا دل تو اس کو نہیں مانتا، مجھے تو اس میں نقصان نظر آتا ہے، اس لیے میں خدا اور رسولؐ کی بات کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلوں گا، تو ایسے شخص کا دل ایمان سے خالی ہو گا۔ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے کہ زبان سے تو کہتا ہے کہ میں خدا کا بندہ اور رسولؐ کا پیرو ہوں، مگر حقیقت میں اپنے نفس کا بندہ اور اپنی رائے کا پَیرو بنا ہوا ہے۔
۲۔ رسم و رواج کی پابندی
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا اوررسولؐ کا حکم کچھ بھی ہو، مگر فلاں بات تو باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے، اس کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے، یا فلاں قاعدہ تو میرے خاندان یا برادری میں مقرر ہے، اسے کیوں کر توڑا جا سکتا ہے، تو ایسے شخص کا شمار بھی منافقوں میں ہو گا، خواہ نمازیں پڑھتے پڑھتے اس کی پیشانی پر کتنا ہی بڑا گٹا پڑ گیا ہو، اور ظاہر میں اس نے کتنی ہی متشرّع صورت بنا رکھی ہو۔ اس لیے کہ دین کی اصل حقیقت اس کے دل میں اتری ہی نہیں۔ دین رکوع اور سجدے اور روزے اور حج کا نام نہیں ہے، اور نہ دین انسان کی صورت اور اس کے لباس میں ہوتا ہے، بلکہ اصل میں دین نام ہے خدا اور رسولؐ کی اطاعت کا۔ جو شخص اپنے معاملات میں خدا اور رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتا ہے، اس کا دل حقیقت میں دین سے خالی ہے۔ اس کی نماز اور اس کا روزہ اور اس کی متشرّع صورت ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
۳۔ دوسری قوموں کی نقّالی
اسی طرح اگر کوئی شخص خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی ہدایت سے بے پروا ہو کر کہتا ہے کہ فلاں بات اس لیے اختیار کی جائے کہ وہ انگریزوں میں رائج ہے، اور فلاں بات اس لیے قبول کی جائے کہ فلاں قوم اس کی وجہ سے ترقی کر رہی ہے، اور فلاں بات اس لیے مانی جائے کہ فلاں بڑا آدمی ایسا کہتا ہے، تو ایسے شخص کو بھی اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ یہ باتیں ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مسلمان ہو اور مسلمان رہنا چاہتے ہو تو ہر اس بات کو اٹھا کر دیوار پر دے مارو جو خدا اور رسولؐ کی بات کے خلاف ہو۔ اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو اسلام کا دعویٰ تمھیں زیب نہیں دیتا۔ زبان سے کہنا کہ ہم خدا اور رسولؐ کو مانتے ہیں، مگر اپنی زندگی کے معاملات میں ہر وقت دوسروں کی بات کے مقابلے میں خدا اور رسولؐ کی بات کو رَدّ کرتے رہنا نہ ایمان ہے نہ اسلام، بلکہ اس کا نام منافقت ہے۔ قرآن مجید کے اٹھارویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف الفاظ میں فرما دیا ہے:
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ۰ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۰ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَo وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مُّعْرِضُوْنَo وَاِنْ يَّكُنْ لَّہُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْہِ مُذْعِنِيْنَo اَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَرَسُوْلُہٗ۰ۭ بَلْ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo ع اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَخْشَ اللہَ وَيَتَّقْہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ o
(النور24: 52-46)
یعنی ہم نے کھول کھول کر حق اور باطل کا فرق بتانے والی آیتیں اتار دی ہیں۔ اللہ جس کو چاہتا ہے ان آیتوں کے ذریعے سے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی۔ پھر اس کے بعد ان میں سے بعض لوگ اطاعت سے منہ موڑ جاتے ہیں، ایسے لوگ ایمان دار نہیں ہیں۔ اور جب ان کو اللہ اور رسولؐ کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ رسولؐ ان کے معاملات میں فیصلہ کرے، تو ان میں سے کچھ لوگ منہ موڑ جاتے ہیں، البتہ جب بات ان کے مطلب کی ہو تو اسے مان لیتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا کیا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا ان کو یہ ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ ان کی حق تلفی کرے گا؟ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو یہ لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں۔ حقیقت میں جو ایمان دار ہیں ان کا طریقہ تو یہ ہے کہ جب انھیں اللہ اوراس کے رسولؐ کی طرف بلایا جائے،تاکہ رسولؐ ان کے معاملات کا فیصلہ کرے، تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اور اللہ سے ڈرتا رہے گا اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کرے گا، بس وہی کامیاب ہو گا۔
ان آیات میں ایمان کی جو تعریف بیان کی گئی ہے، اس پر غور کیجیے۔ اصلی ایمان یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کی کتاب اوراس کے رسولؐ کی ہدایت کے سپرد کر دو۔ جو حکم وہاں سے ملے اس کے آگے سر جھکا دو، اور اس کے مقابلے میں کسی کی نہ سنو، نہ اپنے دل کی، نہ خاندان والوں کی اور نہ دنیا والوں کی۔ یہ کیفیت جس میں پیدا ہو جائے وہی مومن اور مسلم ہے، اور جو اس سے خالی ہو، اس کی حیثیت منافق سے زیادہ نہیں ہے۔
اللہ کی اطاعت کی چند مثالیں
O ترکِ شراب
آپ نے سنا ہو گا کہ عرب میں شراب خوری کا کتنا زور تھا۔ عورت اور مرد، جوان اور بوڑھے شراب کے متوالے تھے۔ ان کو دراصل اس چیز سے عشق تھا۔ اس کی تعریفوںکے گیت گاتے تھے اور اس پرجان دیتے تھے۔ یہ بھی آپ کو معلوم ہو گا کہ شراب کی لت لگ جانے کے بعد اس کا چھوٹنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ آدمی جان دینا قبول کر لیتا ہے مگر شراب چھوڑنا قبول نہیں کر سکتا۔ اگر شرابی کو شراب نہ ملے تو اس کی کیفیت بیمار سے بدتر ہو جاتی ہے۔ لیکن آپ نے کبھی سنا ہے کہ جب قرآن شریف میں اس کی حرمت کا حکم آیا تو کیا ہوا؟ وہی عرب جو شراب پر جان دیتے تھے، اس حکم کو سنتے ہی انھوں نے اپنے ہاتھ سے شراب کے مٹکے توڑ ڈالے۔ مدینہ کی گلیوں میں شراب اس طرح بہہ رہی تھی جیسے بارش کا پانی بہتا ہے۔ ایک مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے شراب پی رہے تھے جس وقت انھوں نے رسول اللہa کے منادی کی آواز سنی کہ شراب حرام کر دی گئی تو جس شخص کا ہاتھ جہاں تھا، وہیں کا وہیں رہ گیا۔ جس کے منہ سے پیالہ لگا ہوا تھا، اس نے فوراً اس کو ہٹا لیا، اور پھرایک قطرہ حلق میں نہ جانے دیا ____ یہ ہے ایمان کی شان۔ اس کو کہتے ہیں خدا اور رسولؐ کی اطاعت۔
O اقرارِ جرم
آپ کو معلوم ہے کہ اسلام میں زنا کی سزا کتنی سخت رکھی گئی ہے؟ ننگی پیٹھ پر سو کوڑے، جن کا خیال کرنے سے آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، اور اگر شادی شدہ آدمی ہو تو اس کے لیے سنگساری کی سزا ہے، یعنی اس کو پتھروں سے اتنا مارنا کہ وہ مر جائے۔ ایسی سخت سزا کا نام ہی سن کر آدمی کانپ اٹھتا ہے، مگر آپ نے یہ بھی سنا کہ جن کے دل میں ایمان تھا ان کی کیا کیفیت تھی؟ ایک شخص سے زنا کا فعل سرزد ہو گیا۔ کوئی گواہ نہ تھا۔ کوئی عدالت تک پکڑکر لے جانے والا نہ تھا۔ کوئی پولیس کو اطلاع دینے والا نہ تھا۔ صرف دل میں ایمان تھا جس نے اس شخص سے کہا کہ جب تو نے خدا کے قانون کے خلاف اپنے نفس کی خواہش پوری کی ہے تو اب جو سزا خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہے اس کو بھگتنے کے لیے تیار ہو جا۔ چنانچہ وہ شخص خود رسول اللہ a کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ یارسولؐ اللہ! میں نے زنا کیا ہے، مجھے سزا دیجیے۔ آپؐ منہ پھیر لیتے ہیں تو پھر دوسری طرف آ کر یہی بات کہتا ہے۔ آپؐ پھر منہ پھیر لیتے ہیں تو وہ پھر سامنے آ کر سزا کی درخواست کرتا ہے کہ جو گناہ میں نے کیا ہے اس کی سزا مجھے دی جائے ____ یہ ہے ایمان ____ جس کے دل میں ایمان موجود ہے اس کے لیے ننگی پیٹھ پر سو کوڑے کھانا بلکہ سنگسار تک کر دیا جانا آسان ہے، مگر نافرمان بن کر خداکے سامنے حاضر ہونا مشکل۔
O قطعِ علائق
آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ انسان کے لیے دنیا میں اپنے رشتہ داروں سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں ہوتا۔ خصوصاً باپ، بھائی، بیٹے تو اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان پر سے سب کچھ قربان کر دینا آدمی گوارا کر لیتا ہے، مگر آپ ذرا بدر اور اُحد کی لڑائیوں پر غور کیجیے کہ ان میں کون کس کے خلاف لڑنے گیا تھا؟ باپ مسلمانوں کی فوج میں ہے تو بیٹا کافروںکی فوج میں، یا بیٹا اِس طرف ہے تو باپ اُس طرف۔ ایک بھائی اِدھر ہے تو دوسرا بھائی اُدھر۔ قریب سے قریب رشتہ دار ایک دوسرے کے مقابلے میں آئے ہیں اور اس طرح لڑے ہیں کہ گویا یہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہی نہیں، اور یہ جوش ان میں کچھ روپے پیسے یا زمین کے لیے نہیں بھڑکا تھا، نہ کوئی ذاتی عداوت تھی، بلکہ صرف اس وجہ سے وہ اپنے خون اوراپنے گوشت پوست کے خلاف لڑ گئے کہ وہ خدا اور رسولؐ پر باپ اور بیٹے اوربھائی اور سارے خاندان کو قربان کر دینے کی طاقت رکھتے تھے۔
O پرانے رسم ورواج سے توبہ
آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ عرب میں جتنے پرانے رسم ورواج تھے، اسلام نے قریب قریب ان سب ہی کو توڑ ڈالا تھا۔ سب سے بڑی چیز تو بت پرستی تھی جس کا رواج سیکڑوں برس سے چلا آرہا تھا۔ اسلام نے کہا کہ ان بتوں کو چھوڑ دو۔ شراب، زنا، جوأ، چوری اور راہ زنی عرب میں عام طور پر رائج تھی۔ اسلام نے کہا کہ ان سب کو ترک کرو۔ عورتیں عرب میں کھلی پھرتی تھیں۔ اسلام نے حکم دیا کہ پردہ کرو۔ عورتوں کو وراثت میں کوئی حصہ نہ دیا جاتا تھا۔ اسلام نے کہا کہ ان کا بھی وراثت میں حصہ ہے۔ متبنّٰی{ FR 1602 } کو وہی حیثیت دی جاتی تھی جو صلبی اولاد کی ہوتی ہے۔ اسلام نے کہا کہ وہ صلبی اولاد کی طرح نہیں ہے بلکہ متبنّٰی اگر اپنی بیوی کو چھوڑ دے تو اس سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔ غرض کون سی پرانی رسم ایسی تھی جس کو توڑنے کا حکم اسلام نے نہ دیا ہو، مگر آپ کو معلوم ہے کہ جو لوگ خدا اور رسولؐ پر ایمان لائے تھے ان کا کیا طرزِ عمل تھا؟
صدیوں سے جن بتوں کو وہ اور ان کے باپ دادا سجدہ کرتے اور نذریں چڑھایا کرتے تھے، ان کو ان ایمان داروں نے اپنے ہاتھ سے توڑا۔ سیکڑوں برس سے جو خاندانی رسمیں چلی آتی تھیں ان سب کو انھوں نے مٹا کررکھ دیا۔ جن چیزوں کو وہ مقدس سمجھتے تھے خدا کا حکم پا کر انھیں پائوں تلے روند ڈالا۔ جن چیزوں کو وہ مکروہ سمجھتے تھے خدا کا حکم آتے ہی ان کو جائز سمجھنے لگے۔ جو چیزیں صدیوں سے پاک سمجھی جاتی تھیں وہ ایک دم ناپاک ہو گئیں، اور جو صدیوں سے ناپاک خیال کی جاتی تھیں وہ یکایک پاک ہو گئیں۔ کفر کے جن طریقوں میں لذت اور فائدے کے سامان تھے، خدا کا حکم پاتے ہی ان کو چھوڑ دیا گیا، اور اسلام کے جن احکام کی پابندی انسان پر شاق گزرتی ہے ان سب کو خوشی خوشی قبول کر لیا گیا۔ اس کا نام ہے ایمان اور اس کو کہتے ہیں اسلام۔ اگر عرب کے لوگ اس وقت کہتے کہ فلاں بات کو ہم اس لیے نہیں مانتے کہ ہمارا اس میں نقصان ہے، اورفلاں بات کو ہم اس لیے نہیں چھوڑتے کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے، اور فلاں کام کو ہم ضرور کریں گے کیونکہ باپ دادا سے یہی ہوتا چلا آیا ہے، اور فلاں باتیں رومیوں کی ہمیں پسند ہیں اور فلاں ایرانیوں کی ہم کو مرغوب ہیں، غرض اگر عرب کے لوگ اسی طرح اسلام کی ایک ایک بات کو رَدّ کر دیتے، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج دنیا میں کوئی مسلمان نہ ہوتا۔
خدا کی خوشنودی کا راستہ
بھائیو! قرآن میں ارشاد ہوا :
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ (آل عمران 3:92)
یعنی نیکی کا مرتبہ تم کو نہیں مل سکتا جب تک کہ تم وہ سب چیزیں خدا کے لیے قربان نہ کر دو جو تم کو عزیز ہیں۔
بس یہی آیت اسلام اور ایمان کی جان ہے۔ اسلام کی اصل شان یہی ہے کہ جوچیزیں تم کو عزیز ہیں ان کو خدا کی خاطر قربان کر دو۔ زندگی کے سارے معاملات میں تم دیکھتے ہو کہ خدا کا حکم ایک طرف بلاتا ہے اور نفس کی خواہشات دوسری طرف بلاتی ہیں۔ خدا ایک کام کا حکم دیتا ہے، نفس کہتا ہے کہ اس میں تو تکلیف ہے یا نقصان۔ خدا ایک بات سے منع کرتا ہے، نفس کہتا ہے کہ یہ تو بڑی مزے دار چیز ہے یا بڑے فائدے کی چیز ہے۔ ایک طرف خدا کی خوشنودی ہوتی ہے اور دوسری طرف ایک دنیا کی دنیا کھڑی ہوتی ہے، غرض زندگی میں ہر ہر قدم پر انسان کو دو راستے ملتے ہیں۔ ایک راستہ اسلام کا ہے اور دوسرا کفر ونفاق کا۔ جس نے دنیا کی ہر چیز کو ٹھکرا کر خدا کے حکم کے آگے سر جھکا دیا، اس نے اسلام کا راستہ اختیار کیا، اور جس نے خدا کے حکم کو چھوڑ کر اپنے دل کی یا دنیا کی خوشی پوری کی اس نے کفر یا نفاق کا راستہ اختیار کیا۔
آج کا مسلمان
آج لوگوں کا حال یہ ہے کہ اسلام کی جو بات آسان ہے اُسے تو بڑی خوشی کے ساتھ قبول کرتے ہیں، مگر جہاں کفر اور اسلام کا اصلی مقابلہ ہوتا ہے وہیں سے رخ بدل دیتے ہیں۔ بڑے بڑے مُدعیِ اسلام لوگوں میں بھی یہ کمزوری موجود ہے۔ وہ اسلام اسلام بہت پکاریں گے، اس کی تعریف کرتے کرتے ان کی زبان خشک ہو جائے گی، اس کے لیے کچھ نمائشی کام بھی کر دیں گے، مگر ان سے کہیے کہ یہ اسلام جس کی آپ اس قدر تعریفیں فرما رہے ہیں، آئیے ذرا اس کے قانون کو ہم آپ خود اپنے اوپر جاری کریں تو وہ فوراً کہیں گے کہ اس میں فلاں مشکل ہے اور فلاں دقّت ہے، اور فی الحال تو اس کو بس رہنے ہی دیجیے۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام ایک خوبصورت کھلونا ہے، اس کو بس طاق پر رکھیے اور دُور سے بیٹھ کر اس کی تعریفیں کیے جائیے،مگر اسے خود اپنی ذات پر اور اپنے گھر والوں اور عزیزوں پر اور اپنے کاروبار اور معاملات پر ایک قانون کی حیثیت سے جاری کرنے کا نام تک نہ لیجیے۔ یہ ہمارے آج کل کے دین داروں کا حال ہے۔ اب دنیا داروں کا تو ذکر ہی فضول ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ نہ اب نمازوں میں وہ اثر ہے جو کبھی تھا، نہ روزوں میں ہے، نہ قرآن خوانی میں اور نہ شریعت کی ظاہری پابندیوں میں۔ اس لیے کہ جب روح ہی موجود نہیں تو نرا بے جان جسم کیا کرامت دکھائے گا؟
٭…٭…٭