Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
سلامتی کا راستہ (یہ خطبہ مئی ۱۹۴۰ء میں ریاست کپور تھلہ میں ہندوئوں،سکھوں اور مسلمانوں کے ایک مشترکہ اجتماع کے سامنے پیش کیا گیا تھا)
توحید
اِنسان کی تباہی کا اصلی سبب
ہماری صحیح حیثیت
ظلم کی وجہ
بے انصافی کیوں ہے؟
فلاح کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟
اَمن کس طرح قائم ہو سکتا ہے؟
ایک شُبہ

سلامتی کا راستہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اِنسان کی تباہی کا اصلی سبب

صاحبو! یہ بنیادی حقیقتیں ہیں جن پر اس دنیا کا پورا نظام چل رہا ہے۔ آپ اس دنیا سے الگ نہیں ہیں بلکہ اس کے اندر اس کے ایک جُز کی حیثیت سے رہتے ہیں، لہٰذا آپ کی زندگی کے لیے بھی یہ حقیقتیں اُسی طرح بنیادی ہیں جس طرح کُل جہان کے لیے ہیں۔
آج یہ سوال آپ میں سے ہر شخص کے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک پریشان کُن گتھی بنا ہوا ہے کہ آخر ہم انسانوں کی زندگی سے امن چین کیوں رخصت ہو گیا؟کیوں آئے دن مصیبتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں؟ کیوں ہماری زندگی کی کُل بگڑ گئی ہے؟ قومیں قوموں سے ٹکرا رہی ہیں، ملک ملک میں کھینچا تانی ہو رہی ہے، آدمی آدمی کے لیے بھیڑیا بن گیا ہے، لاکھوں انسان لڑائیوں میں برباد ہو رہے ہیں، کروڑوں اور اربوں کے کاروبار غارت ہو رہے ہیں، بستیوں کی بستیاں اُجڑ رہی ہیں، طاقت ور کم زوروں کو کھائے جاتے ہیں، مال دار غریبوں کو لوٹ لیتے ہیں، حکومت میں ظلم ہے، عدالت میں بے انصافی ہے، دولت میں بدمستی ہے، اقتدار میں غرور ہے، دوستی میں بے وفائی ہے، امانت میں خیانت ہے، اخلاق میں راستی نہیں رہی، انسان پر سے انسان کا اعتماد اُٹھ گیا ہے، مذہب کے جامے میں لا مذہبی ہو رہی ہے، آدم کے بچّے لا تعداد گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہرگروہ دوسرے گروہ کو دغا، ظلم، بے ایمانی، ہر ممکن طریقہ سے نقصان پہنچانا کارِ ثواب سمجھ رہا ہے۔ یہ ساری خرابیاں آخر کس وجہ سے ہیں؟ خدا کی خدائی میں اور جس طرف بھی ہم دیکھتے ہیں امن ہی امن نظر آتا ہے۔ ستاروں میں امن ہے، ہوا میں امن ہے، پانی میں امن ہے، درختوں اور جانوروں میں امن ہے، تمام مخلوقات کا انتظام پورے امن کے ساتھ چل رہا ہے، کہیں فساد، بد نظمی کا نشان نہیں پایا جاتا مگر ایک انسان ہی کی زندگی کیوں اس نعمت سے محروم ہوگئی؟
یہ ایک بڑا سوال ہے جسے حل کرنے میں لوگوں کو سخت پریشانی پیش آرہی ہے، مگر میں پورے اطمینان کے ساتھ اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ:
’’آدمی نے اپنی زندگی کو حقیقت اور واقعہ کے خلاف بنا رکھا ہے اس لیے وُہ تکلیف اُٹھا رہا ہے اور جب تک وُہ پھراسے حقیقت کے مطابق نہ بنائے گا کبھی چین نہ پاسکے گا۔‘‘
آپ چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ بیٹھیں اور اسے کھول کر بے تکلّف اس طرح باہر نکل آئیں جیسے اپنے مکان کے صحن میں قدم رکھ رہے ہیں تو آپ کی اس غلط فہمی سے نہ ریل کا دروازہ گھر کا دروازہ بن جائے گا اور نہ وُہ میدان جہاں آپ گریں گے، گھرکاصحن ثابت ہوگا۔ آپ کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت ذرا بھی نہ بدلے گی۔ تیز دوڑتی ہوئی ریل کے دروازے سے جب آپ باہر تشریف لائیں گے تو اس کا جو نتیجہ ظاہر ہونا ہے، وُہ ظاہر ہوکر ہی رہے گا، خواہ ٹانگ اور سر پھٹنے کے بعد بھی آپ یہ تسلیم نہ کریں کہ آپ نے جو کچھ سمجھا تھا غلط سمجھا تھا۔
بالکل اسی طرح اگر آپ یہ سمجھ بیٹھیں کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، یا آپ خود اپنے خدا بن بیٹھیں، یا خدا کے سوا کسی اور کی خدائی مان لیں، تو آپ کے ایسا سمجھنے یا مان لینے سے حقیقت ہرگز نہ بدلے گی۔ خدا خدا ہی رہے گا۔ اس کی زبردست سلطنت جس میں آپ محض رعیّت کی حیثیت سے رہتے ہیں، پورے اختیارات کے ساتھ اُسی کے قبضہ میں رہے گی۔ البتّہ آپ اپنی غلط فہمی کی وجہ سے جو طرز زندگی اختیار کریں گے اس کا نہایت برا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا، خواہ آپ تکلیفیں اُٹھانے کے بعد بھی اپنی اس غلط زندگی کو بجائے خود صحیح ہی سمجھتے رہیں۔
پہلے میں جو کچھ بیان کر چکا ہوں اسے ذرا اپنی یاد میں پھر تازہ کر لیجیے۔ خداوند عالم کسی کے بنائے سے خدا وند عالم نہیں بنا ہے۔ وُہ اس کا محتاج نہیں ہے کہ آپ اس کی خدائی مانیں تو وُہ خدا ہوگا۔ آپ خواہ مانیں یا نہ مانیں وُہ تو خود خدا ہے۔ اس کی خدائی خود اپنے زور پر قائم ہے۔ اس نے آپ کو اور اس دُنیا کو خود بنایا ہے۔ یہ زمین، یہ چاند اور سورج اور یہ ساری کائنات اسی کے حکم کی تابع ہے۔ اس کائنات میں جتنی قوتیں کام کر رہی ہیں سب اسی کے زیر حکم ہیں۔ وُہ ساری چیزیں جن کے بل پر آپ زندہ ہیں، اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ خود آپ کا اپنا وجود اس کے اختیار میں ہے۔ اس واقعہ کو آپ کسی طرح بدل نہیں سکتے۔ آپ اسے نہ مانیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ آپ اس سے آنکھیں بند کر لیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ آپ اس کے سوا کچھ اور سمجھ بیٹھیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ ان سب صورتوں میں واقعہ کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ البتہ فرق یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ اس واقعہ کو تسلیم کر کے اپنی وہی حیثیت قبول کر لیں جو اس واقعہ کے اندر دراصل آپ کی ہے تو آپ کی زندگی دُرُست ہو گی۔ آپ کو چین مِلے گا، اطمینان نصیب ہو گا، اور آپ کی زندگی کی ساری کُل ٹھیک چلے گی۔ اور اگر آپ نے واقعہ کے خلاف کوئی اور حیثیت اختیار کی تو انجام وہی ہو گا جو چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ کر قدم باہر نکالنے کا ہوتا ہے۔ چوٹ آپ خود کھائیں گے، ٹانگ آپ کی ٹوٹے گی، سر آپ کا پھٹے گا، تکلیف آپ کو پہنچے گی، واقعہ جیسا تھا ویسا ہی رہے گا۔

شیئر کریں