Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے قرآن
(۱) ترجمان القرآن کی تنقید
(۲) مصنّف کا جواب
(۳) ’’ترجمان القرآن‘‘ کا جواب الجواب
(۴) ایک دوسرے اہلِ قلم کی طرف سے مصنّف کے نظریہ کی تائید
(۵) ترجمان القرآن کا آخری جواب{ FR 5521 }
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے حدیث
مزارعت کا مسئلہ
اِصلاح کے حدود اور طریقے

مسئلہ ملکیتِ زمین

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اِصلاح کے حدود اور طریقے

کوئی شک نہیں کہ زمین کا موجودہ بندوبست نہایت ناقص اور غیرمنصفانہ ہے۔ بلاشبہ زمین داری اور جاگیرداری اس قدر خرابیوں سے لبریز ہوچکی ہے کہ ہماری پوری معیشت اور معاشرت اس کے زہرسے متاثر ہورہی ہے۔ اصلاح کی ضرورت یقینا ہے اور بجائے خود اس معاملہ میں ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس بگاڑ کو دُور ہونا چاہیے لیکن جو لوگ اصلاح کا نام لیتے ہیں انھیں باہر کے بگاڑ کی فکر کرنے سے پہلے اپنے اندر کے بگاڑ کی فکر کرنی چاہیے، کیوں کہ ایک ناصاف اور اُلجھے ہوئے ذہن کو لے کر اگر وہ باہر کے بگاڑ کی فکر کرنے سے پہلے اپنے اندر کے بگاڑ کی فکر کرنی چاہیے، کیوں کہ ایک ناصاف اور اُلجھے ہوئے ذہن کو لے کر اگر وہ باہر اصلاح کی قینچی چلانا شروع کریںگے تو پچھلی خرابیوں کو دُور کرنے کے بجائے نئی خرابیوں کا ایک اور گورکھ دھندا پیدا کردیں گے۔
سب سے پہلے تو انھیں یہ طے کرنا چاہیے کہ ان کا کوئی دین ہے یا نہیں، اور ہے تو وہ اسلام ہے یا کچھ اور؟ اگر ان کا کوئی دین نہ ہو، یا ہو مگر وہ اسلام کے سوا کچھ اور ہو، تو انھیں پورا حق ہے کہ اصلاح کے لیے اپنا کوئی طبع زاد نظریہ پیش کریں، یا کہیں اور سے کوئی نظریہ اخذ کریں اور اسے رائج کرنے کی کوشش شروع کر دیں۔ مگر یہ سب کچھ بہرحال انھیں اپنے ہی نام سے کرنا چاہیے، یا اپنے اس پیشوا کے نام سے جس کی وہ پیروی کر رہے ہوں۔
یہ حق انھیں کسی طرح بھی نہیں پہنچتا کہ اپنی من گھڑت یا دوسروں کی ایجاد کردہ تجویزوں کو زبردستی کھینچ تان کر اسلام کے سر منڈھیں اور اس کے نام سے مسلمانوں کو دھوکا دینے کی کوشش کریں۔ اور اگر وہ اپنا کوئی دین رکھتے ہوں اور وہ اسلام ہی ہو ، لیکن وہ عملاً اس کی پیروی نہ کرنا چاہتے ہوں، تب بھی انھیں معصیت کا اختیار تو ضرور حاصل ہے، مگر کم از کم معقولیت کے حدود میں تو اس کی گنجائش نہیں کہ اسلام سے ہٹ کر اور اسے نظرانداز کر کے جو تجویزیں وہ خود گھڑیں یا کہیں اور سے لائیں انھیں خواہ مخواہ عین اسلام قرار دیں۔
پھر اگر وہ یہی طے کریں کہ فی الحقیقت ان کا ایک دین ہے اور وہ اسلام ہی ہے اور انھیں اس کی پیروی بھی کرنی ہے تو اسلام کے نام پر کوئی اصلاح شروع کرنے سے پہلے انھیں چند ابتدائی باتیں ضرور جان لینی چاہییں۔ انھیں جاننا چاہیے کہ اسلام نے محض عدل و انصاف کے الفاظ ہی ہمیں نہیں دیے ہیں بلکہ ان کے مفہومات، تصورات اور عملی نقشے بھی ساتھ کے ساتھ دے دیے ہیں، لہٰذا اگر ہم اسلامی انصاف قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف انصاف کا لفظ ہی اسلام کی لغت سے نہ لینا ہوگا بلکہ اس کا تصور اور اس کا عملی نقشہ بھی اسلام ہی کے قانون سے لینا پڑے گا۔ ان کو یہ بھی جانناچاہیے کہ اسلام کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہے کہ جن لوگوں نے اس کے نظام، اُصول اور قوانین کو سمجھنے میں اپنی عمر کا کوئی ذرا سا حصہ بھی صرف نہ کیا ہو وہ اِدھر اُدھر سے چند آیات اور چند احادیث جمع کر کے چند گھنٹوں کے اندر بڑے بڑے دینی مسائل کے مجتہدانہ فیصلے کرڈالیں اور اُلٹا ان لوگوں کو احمق بنانے کی کوشش کریں جنھوں نے اپنی عمریں اس دین کے نظام اور احکام کو سمجھنے میں کھپا دی ہیں۔ یا چند نواب زادے اور چند وکیل اور بیرسٹر صاحبان بیٹھ کر سراسر دنیوی اغراض اور مصلحتوں کی بنیاد پر ایک اصلاحی اسکیم تصنیف کریں اور پھر اسلام کے نام سے اس کو محض پیش کر دینے ہی پر اکتفا نہ کریں بلکہ دھڑلے کے ساتھ یہ بھی فرما دیں کہ جو مولوی اور مُلّا اس کے مطابق فتویٰ دے بس وہی دین کو جانتا ہے۔ یہ محض جہالت ہی نہیں، جہل مرکب ہے۔ اس طرح کے مصلحین کو جاننا چاہیے کہ یہ رویہ کسی معقول آدمی کو زیب نہیں دیتا۔ انھیں جاننا چاہیے کہ اسلام ایک باقاعدہ نظام ہے جو اپنا ایک مستقل فلسفۂ زندگی، اپنے جامع اور ہمہ گیر اصول اور اپنے مخصوص ضوابط اور قوانین رکھتا ہے اور کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کا علم حاصل کیے بغیر جو کچھ چاہے اپنے دل سے گھڑ کر یا دوسری جگہ سے لاکر اس کے نظام میں کھپا دے، یا ایک سرسری سی واقفیت کے بل بوتے پر مجتہد مطلق بن بیٹھے اور اپنے ذہن کی خام پیداوار کو قطعی اور حتمی فیصلوں کی صورت میں برآمد کرنا شروع کردے۔ اُنھیں جاننا چاہیے کہ موجودہ خرابیوں کی اصلاح اور ایک نئے صالح نظام کی تاسیس اگر ہم خود اپنی صواب دید سے کریں تو اسے اسلام کی طرف سے منسوب کرنا غلط ہے، اور اگریہ کام ہمیں اسلام کے طریقے پر کرنا ہو تو لامحالہ ہم ہی کو اصلاح و تاسیس اُن حدود کے اندر کرنا ہوگی جو اسلام نے مقرر کی ہیں اور اُن اصولوں کے مطابق کرنا ہوگی، جو اس نے ہمیں دیے ہیں۔
ان پہلوئوں سے اگر لوگ اپنے ذہن کو صاف کرلیں اور ہرشخص اور گروہ اپنے حدودِ کار کو پہچان کر اپنی کارفرمائی اور کارگزاری کو اپنی اہلیت کی حد تک محدود رکھے تو بہت سی وہ اُلجھنیں دُور ہوجائیں جن کی وجہ سے کام بننے کی بجائے اُلٹا بگڑ رہا ہے۔
اِصلاح کے حدودِ اربعہ
اس کے بعد جو لوگ فی الحقیقت اسلامی اصلاح چاہتے ہیں اور من مانی کارروائیاں نہیں کرنا چاہتے ان کی سہولت کے لیے ہم ان صفحات میں اختصار کے ساتھ یہ واضح کریں گے کہ اسلامی قانون نے وہ کون سے حدود کھینچ رکھے ہیں جن کے اندر ہماری اصلاحی تدبیروں کو محدود رہنا چاہیے، اُن حدود کے اندر کیا کچھ کرنے کی گنجائش ہے اور کیا کچھ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
۱- قومی ملکیت کی نفی
سب سے پہلی چیز جو تمام اصلاح طلب عناصر کو صاف صاف سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنانے کا تخیل بنیادی طور پر اسلام کے نقطۂ نظر کی ضد ہے۔ لہٰذا اگر ہمیں اسلامی اصول پر زمین کے بندوبست کی اصلاح کرنی ہو تو ایسی تمام تجویزوں کو پہلے ہی قدم پر لپیٹ کر رکھ دینا چاہیے جن کی بنیاد میں قومی ملکیت کا نظریہ اصول یا نصب العین کی حیثیت سے موجود ہو۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اسلام زبردستی مالکانِ زمین کی ملکیتیں چھین لینے کی اجازت نہیں دیتا اور بات صرف اتنی بھی نہیں ہے کہ وہ ایسے قوانین بنانے کی اجازت نہیں دیتا جن کے ذریعہ سے کسی شخص یا گروہ کو اپنی ملکیت حکومت کے ہاتھ بیچنے پر مجبور کیا جاسکے، بلکہ درحقیقت اسلامی نظریۂ تمدن و اجتماع سرے سے اس تخیل ہی کا مخالف ہے کہ زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار حکومت کی ملکیت ہوں اور پوری سوسائٹی اس مختصر سے حکمران گروہ کی غلام بن کر رہ جائے جو اِن ذرائع پر متصرف ہو۔ جن ہاتھوں میں فوج، پولیس، عدالت اور قانون سازی کی طاقتیں ہیں اُنھی ہاتھوں میں اگر سوداگری، کارخانہ داری اور زمین داری بھی سمٹ کر جمع ہوجائے تو اس سے ایک ایسا نظامِ زندگی پیدا ہوتا ہے جس سے بڑھ کر انسانیت کُش نظام آج تک شیطان ایجاد نہیں کرسکتا ہے اس لیے یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اگر غاصبانہ طریقوں سے زمینوں پر قبضہ نہ کیا جائے بلکہ پورے پورے معاوضے دے کر حکومت تمام زمینوں کو ان کے مالکوں سے برضاو رغبت خرید لے تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس میں کوئی قباحت نہیں، جزئیاتِ شرع کے لحاظ سے چاہے اس میں قباحت نہ ہو، مگر کلیاتِ شرع کے لحاظ سے یہ تخیل ہی غلط ہے کہ عدلِ اجتماعی کی خاطر زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار کو انفرادی ملکیتوں سے نکال کر قومی ملکیت بنا دیا جائے۔ یہ انصاف کا اشتراکی تصور ہے نہ کہ اسلامی تصور۔ اور اس تصور کی بنیاد پر ایک اشتراکی معاشرہ پیدا ہوتا ہے نہ کہ اسلامی معاشرہ۔ اسلامی معاشرہ کے لیے تو یہ نہایت ضروری ہے کہ اس کے اگر سب نہیں تو اکثر افراد اپنی معیشت میں آزاد ہوں اور اس غرض کے لیے ناگزیر ہے کہ ذرائع پیداوار افراد ہی کے ہاتھوں میں رہیں۔
۲- تقسیم دولت میں مساوات کی نفی
دوسری چیز جو ہمارے اصلاح طلب حضرات کے ذہن نشین ہونی چاہیے یہ ہے کہ اسلام دولت کی مساویانہ تقسیم کا قائل نہیں ہے بلکہ منصفانہ تقسیم کا قائل ہے اور اس منصفانہ تقسیم کے لیے بھی وہ انصاف کا اپنا ہی ایک مخصوص تصور رکھتا ہے۔ جہاں تک مساویانہ تقسیم کا تعلق ہے وہ محض ایک خیالی جنّت ہے جس کا متحقق ہونا نظامِ فطرت میں کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ فطرت کے قوانین ہی کچھ اس طرح کے ہیں کہ اگر کسی وقت مصنوعی طور پر دولت کو سب انسانوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کر بھی دیا جائے تو اُسی آن سے یہ مساوات عدمِ مساوات میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی یہاں تک کہ تھوڑی مدت گزرنے کے بعد اس مصنوعی مساوات کا کہیںنام و نشان تک باقی نہ رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ جو لوگ مساویانہ تقسیم کا نام لے کر اُٹھے تھے انھیں بھی آخرکار اس خیال سے باز آجانا پڑا۔ اسلام اس طرح کی خام خیالیوں سے بہت بالا و برتر ہے۔ وہ تقسیم دولت میں مساوات کی بجائے انصاف قائم کرنا چاہتا ہے اور اس انصاف کی ایک واضح اور مکمل صورت اس نے اپنے قوانین میں، اپنی اَخلاقی ہدایات میں، اور اپنے معاشرے کی تشکیل میں قائم کر دی ہے۔ لہٰذا اگر ہم اسلامی طرز پر اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے ہی قدم پر ایسی تمام تجویزوں کو رد کردینا چاہیے جن کا مقصود کسی قسم کی مصنوعی مساوات کا قیام ہو، اس کی بجائے ہماری اصلاحی تدبیروں کے لیے صحیح سمت یہ ہے کہ ہم انصاف کے اسلامی نقشے کو سمجھیں اور اپنے نظامِ معیشت و معاشرت میں اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں۔
۳- جائز حقوقِ ملکیت کی حُرمت
تیسرا اہم نکتہ جس سے ہمارے اصلاح طلب بھائیوں کو غافل نہ رہنا چاہیے یہ ہے کہ اسلام کمیونزم کی طرح کا کوئی بگ ٹٹ بے لگام فلسفۂ زندگی نہیں ہے کہ چند آدمی بیٹھ کر اپنی جگہ اجتماعی فلاح و بہبود کا ایک خاص نظریہ قائم کریں اور پر اندھا دُھند طریقے سے ہر طرح کی جائز و ناجائز تدبیروں سے زبردستی اسے دوسروں پر مسلط کرنا شروع کر دیں۔ وہ نہ کسی طبقے کے اغراض و مفاد کا وکیل ہے نہ کسی دوسرے طبقے کے غصے اور جھنجھلاہٹ کا ترجمان۔ اس کی بنیاد خدا ترسی، عدل اور حق شناسی پر قائم ہے اور انھی بنیادوں پر وہ انسانی زندگی کا نظام اُستوار کرنا چاہتا ہے۔ اس کے نظام میں اس طرح کی باتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ آپ اصلاح کے نام سے جس کے حقوق پر چاہیں دست درازی کربیٹھیں، جس سے جو کچھ چاہیں چھین لیں اور جسے جو کچھ چاہیں دلوا دیں۔ ایک غیرذمہ دار آدمی جو کسی خدا کا قائل نہ ہو اور جسے کسی کو حساب نہ دینا ہو، بے تکلف یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہم تمام زمین داریوں اور جاگیرداریوں کو مٹا دیںگے اور یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہم ان سب کو جوں کا توں قائم رکھیں گے۔ لیکن ایک مسلمان جو خدا ترسی کے کھونٹے سے بندھا ہوا ہے اور حدوداللہ کا پابند ہے ، ان میں سے کوئی بات بھی نہیں کہہ سکتا۔ اسے تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ خدا کی شریعت کی رُو سے کون جائز طور پر کسی چیز کا مالک ہے اور کس کی ملکیت جائز نہیں ہے۔ کون خدا اور رسول کے دیے ہوئے حقوق سے صحیح طور پر متمتع ہورہا ہے اور کون اپنے جائز حقوق کی حد سے تجاوز کرگیا ہے۔ پھر جائز و ناجائز کی پوری تمیز ملحوظ رکھتے ہوئے وہ تمام جائز شرعی ملکیتوں کو قائم رکھے گا اور صرف ان ملکیتوں کو ختم کرے گا جو ناجائز نوعیت کی ہیں۔
۴- من مانی قیود کا عدمِ جواز
آخری چیز جو مسلمان مصلحین کی نگاہ میں رہنی ضروری ہے یہ ہے کہ اسلام کے حدود میں رہتے ہوئے ہم کسی نوع کی جائز ملکیتوں پر اصولاً نہ تو تعداد یا مقدار کے لحاظ سے کوئی پابندی عائد کرسکتے ہیں اور نہ ایسی من مانی قیود لگا سکتے ہیں جو شریعت کے دیے ہوئے جائز حقوق کو عملاً سلب کرلینے والی ہوں۔ اسلام جس چیز کا آدمی کو پابند کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پاس جو کچھ مال آئے جائز راستے سے آئے، جائز طریقے پر استعمال ہو، جائز راستوں میں جائے اور خدا اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد کیے گئے ہیں وہ اس میں سے ادا کردیے جائیں۔ اس کے بعد جس طرح وہ ہم سے یہ نہیں کہتا کہ تم زیادہ سے زیادہ اتنا روپیہ، اتنے مکان، اتنا تجارتی کاروبار، اتنا صنعتی کاروبار، اتنے مویشی، اتنی موٹریں، اتنی کشتیاں اور اتنی فلاں چیز اور اتنی فلاں چیز رکھ سکتے ہو، اسی طرح وہ ہم سے یہ بھی نہیں کہتا کہ تم زیادہ سے زیادہ اتنے ایکڑ زمین کے مالک ہوسکتے ہو۔ پھر جس طرح وہ ہم سے یہ نہیں کہتا کہ تم زیادہ سے زیادہ اتنے ایکڑ زمین کے مالک ہوسکتے ہو۔ پھر جس طرح وہ ہم سے یہ نہیں کہتا کہ تم صرف اُسی تجارت یا صنعت یا دوسرے کاروبار کے مالک ہوسکتے ہو جسے تم براہِ راست خود کرو، اور جس طرح اس نے دنیا کے کسی دورے معاملہ میں ہم پر یہ قید نہیں لگائی ہے کہ تم کسی ایسے کام پر حقوقِ ملکیت نہیں رکھ سکتے جسے تم اُجرت پر یا شرکت کے طریقے پر دوسروں کے ذریعے سے کر رہے ہو۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ زمین کا مالک بس وہی ہوسکتا ہے جو اس میں خود کاشت کرے اور یہ کہ اُجرت یا شرکت پر کاشت کرانے والوں کو سرے سے زمین پر حقوقِ ملکیت حاصل ہی نہیں ہیں۔ اس قسم کی قانون سازیاں خودمختار لوگ تو کرسکتے ہیں، مگر جو خدا اور رسولؐ کے مطیع فرمان ہیں وہ ایسی باتیں سوچ بھی نہیں سکتے۔ زیادہ سے زیادہ اگر کسی خاص ضرورت کی بنا پر کچھ کیا جاسکتا ہے تو وہ ایک عارضی پابندی ہے جسے ہم آگے بیان کر رہے ہیں، مگر وہ اسلامی قانون میں کسی مستقل اُصولی ترمیم کا موجب نہیں ہوسکتی۔
تدابیر اِصلاح
یہ ہیں وہ سرحدیں جنھیں پار کرنے کے ہم مجاز نہیں ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اُصولِ اسلام کے مطابق ہم کس قسم کی اصلاحی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں جن سے زمین کے انتظام کی موجودہ خرابیاں دُور ہوں اور وہ انصاف قائم ہوسکے جو اسلامی معیار کے لحاظ سے مطلوب ہے۔
۱- زمین داری و جاگیرداری کا معاملہ
ہمارے ملک میں یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ بعض جگہ بہت بڑے بڑے رقبے جو ہزاروں سے گزر کر لاکھوں ایکڑ تک بھی وسیع ہیں، کچھ خاندانوں کے پاس جاگیر یا زمین داری کے طور پر مدتوں سے چلے آرہے ہیں۔ اُن میں سے بعض وہ ہیں جو انگریزی حکومت نے ملک پر قابض ہونے کے بعد غداریوں کے صلے میں اصل حق داروں سے چھین کر دیے تھے۔ بعض انگریزی دَور سے بھی پہلے مختلف زمانوں میں جا و بے جا طریقوں سے موجودہ مالکوں کے اسلاف کو عطا کیے گئے تھے۔ بعض جزوی یا کُلی طور پر خریدے بھی گئے تھے اور بعض ایسے بھی تھے کہ سردارانِ قبائل نے گذشتہ صدیوں میں کسی وقت ان پر قبضہ کرلیا تھا۔ ان سب کے متعلق آج یہ تحقیق کرنا سخت مشکل ہے کہ کس کی ملکیت کس طرح شروع ہوئی، اور آیا وہ شرعاً جائز نوعیت کی تھی یا ناجائز نوعیت کی، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اتنے بڑے بڑے رقبوں کی ملکیت سے، جن سب کا جائز ہونا بھی متحقق نہیں ہے، ہمارے نظامِ معیشت میں سخت ناہمواری پیدا ہوگئی ہے۔ اس حالت میں شرعاً یہ درست ہوگا کہ ایک عارضی تدبیر کے طور پر ملکیت کی ایک حد مقرر کر دی جائے، اور اس حد سے زائد جو رقبے لوگوں کے پاس ہوں انھیں ایک منصفانہ شرح سے خرید کر آگے غیرمالک کاشت کاروں کے ہاتھ منصفانہ شرح پر فروخت کر دیا جائے۔ لیکن یہ حدبندی نہ تو دائمی ہوسکتی ہے کیوں کہ اسے شریعت کے بہت سے قواعد کو بدلے بغیر مستقل بنانا ممکن نہیں ہے، اور نہ اسے دائمی قانون بنادینے کی کوئی ضرورت ہے ، کیوں کہ آیندہ کے لیے اگر اسلام ملک کا قانون ہو اور اس کے مطابق عمل درآمد ہونے لگے تو سرے سے وہ خرابیاں ہی پیدا نہیں ہوسکتیں جن کے لیے ایسی حدبندی کی کوئی ضرورت ہو۔
۲- قانونی زراعت پیشگی کا خاتمہ
ثانیاً ایسے تمام قوانین کا خاتمہ ہونا چاہیے جن کی بدولت قانونی طور پر ایک مستقل ’’زراعت پیشہ طبقہ‘‘ پیدا کردیا گیا ہے،دیہاتی معاشرت میں معاشی اور معاشرتی حیثیت سے اس کے امتیازی حقوق قائم کر دیے گئے ہیں، اور ’’غیر زراعت پیشہ‘‘ طبقوں کے لیے زراعت پیشگی کے دائرے میں قدم رکھنا حرام کر دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ غیراسلامی ہے، غیرمعقول ہے، اور اُن بے شمار بے انصافیوں کا سرچشمہ ہے، جو ’’نظامِ جاگیرداری‘‘ کی خصوصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ زرعی جایدادوں کی خریدوفروخت پر سے تمام پابندیاں اُٹھ جانی چاہییں۔ دوسری سب املاک کی طرح، اور خود شہری زمینوں کی طرح دیہاتی زمینیں بھی کھلے بندوں قابلِ بیع و شرا ہونی چاہییں۔ شُفعہ کے قوانین نے جو قطعی غیر اسلامی اور انتہادرجہ غیرمعقول اور سخت مخرب اَخلاق صورت اختیار کرلی ہے اسے منسوخ ہونا چاہیے۔ زراعت کا پیشہ تمام دوسرے پیشوں کی طرح ہر بندئہ خدا کے لیے کھلا رہنا چاہیے۔ اور گائوں کی زندگی میں زمین دار کو ازروئے قانون ایسی کوئی حیثیت حاصل نہ ہونی چاہیے جس کی بدولت دوسرے سب اس کی رعیت اور اس کے دبیل بن کر رہنے پر مجبور ہوں۔
۳-زرعی قوانین کی تدوین جدید
ثالثاً ایک ایسا زرعی قانون بننا چاہیے جس کے ذریعہ سے مالکانِ زمین اور غیرمالک کاشت کاروں کے باہمی تعلق کو صحیح اور منصفانہ بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ مزارعت (بٹائی) ہو تو اسے بالکل سیدھی سادی شرکت کے اصول پر قائم ہونا چاہیے اور ازرُوئے قانون یہ طے ہوجانا چاہیے کہ مزارعت کی کن کن صورتوں میں مالک اور مزارع کے درمیان زیادہ سے زیادہ اور کم از کم کس کس نسبت سے حصہ تقسیم ہوسکتا ہے۔ نقد کرایہ ہو یا مزدوری پر کاشت کرائی جائے تو اس میں بھی مالک اور مستاجر کے درمیان، اور مالک اور مزدور کے درمیان حقوق و فرائض کا تعین ہو جانا چاہیے۔{ FR 5845 } یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ مالکانِ زمین کاشت کاروں سے اپنے حصے یا لگان کے علاوہ کوئی مال یا غلّہ یا خدمات لینے کے مجاز نہ ہوں گے۔ ناجائز طور پر اس طرح کی خدمات یا اشیا یا زبردستی کے جمائے ہوئے رسمی حقوق وصول کرنے کو جرم قابلِ دست اندازی پولیس ہونا چاہیے۔ بے دخلی اور فسخِ معاملہ کے متعلق بھی قواعد مقرر ہونے چاہییں کہ وہ کن کن صورتوں میں ہوسکتی ہیں اور کن کن صورتوں میں نہیں ہوسکتیں۔ نیز زمین کو بے کار ڈال رکھنے پر بھی شریعت کے احکام اور اسپرٹ کے مطابق پابندیاں عائد ہونی چاہییں۔ جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، جہاں تک مَوات اور حکومت کی عطا کردہ زمینوں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں تو خود احکامِ شریعت ہی میں یہ تصریح ہے کہ تین سال سے زیادہ مدت تک اگر آدمی انھیں بے کار ڈال رکھے تو اس کے حقوق سوخت ہوجاتے ہیں۔ رہیں زرخرید زمینیں تو انھیں اُفتادہ چھوڑ دینے سے اگرچہ ملکیت ساقط نہیں ہوسکتی، لیکن اس پر ایسا کوئی تعزیری محصول ضرور لگایا جاسکتا ہے جس سے مالکانِ زمین کا یہ میلان کم ہوسکے کہ وہ کاشت کاروں سے من مانی شرطیں تسلیم کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کاشت کار نہیں مانتے تو اپنی زمین کو بے کار رکھ چھوڑنا زیادہ پسند کرتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ کسی بندئہ خدا کو اس پر کام کرنے کا موقع دیں۔
۴- شرعی طریقے پر تقسیمِ میراث
رابعاً شریعت کے قانونِ میراث کو زرعی جایدادوں کے معاملے میں پوری قوت کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ موجودہ نسل ہی میں جو لوگ شرعاً حق دار ہیں اگر ان کے اندر میراث کی تقسیم کو لازم کر دیا جائے تو بہت سی وہ بڑی بڑی جایدادیں جو پرانے جاہلی رواج کی وجہ سے یک جا سمٹی ہوئی ہیں، مستحقین میں بٹ جائیں گی اور دولت کے پھیلائو کا سلسلہ چل پڑے گا۔ اس صورت میں جو اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ زمین اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم ہوجائے گی جو معاشی حیثیت سے قابلِ عمل نہ رہیں گے۔ یہ درحقیقت صحیح نہیں ہے ۔ آپ زمین کی خریدوفروخت سے بے جا رکاوٹیں ہٹا دیجیے۔ مزارعت کے لیے عمدہ اور واضح طریقے مقرر کر دیے اور ’’مشترک کاشت‘‘ (کوآپریٹو فارمنگ) کے طریقوں کو رواج دیجیے۔ اس کے بعد چاہے قانونِ میراث کی بدولت، زمین تقسیم در تقسیم ہوکر ایک ایک گز کے ٹکڑوں ہی میں کیوں نہ بٹ جائے ایسی صورتِ حال کبھی پیدا نہ ہونے پائے گی جس میں یہ حصے ناقابلِ عمل ہوکر رہ جائیں۔ جن لوگوں کے پاس اس طرح کے چھوٹے ٹکڑے رہ جائیںگے وہ بآسانی اپنا حصہ بیچ سکیںگے، یا دوسروں کے حصے خرید سکیں گے، یا مناسب شرائط پر کاشت کے لیے دے سکیں گے، یا مشترک کاشت میں شریک ہوجائیں گے۔
۵- عشر کی تحصیل و تقسیم کا نظم
خامساً ، شریعت کے احکام کے مطابق اس امر کا انتظام ہونا چاہیے کہ زرعی پیداوار کا عشر اور زمین داروں کے مواشی کی زکوٰۃ باقاعدہ وصول ہو اور اسے شرعی مصارف میں صرف کیا جائے۔ اس کے مفصل احکام ان شاء اللہ ہم اپنے رسالہ زکوٰۃ میں عن قریب بیان کریں گے ۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ اسلامی معیار کے مطابق انصاف قائم کرنے، اور قوم کے مختلف طبقات میں عداوت و نزاع کی بجائے اُلفت و موافقت پیدا کرنے کے لیے یہ ایک ضروری تدبیر ہے جس کے فوائد کسی دوسری تدبیر سے حاصل نہیں کیا جاسکتے۔
یہ ہے وہ اصل رُخ جس کی طرف ہماری اصلاحی کوششوں کو مڑنا چاہیے۔ میں نے اس جگہ تمام ممکن تدابیر کا استقصا نہیں کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ صاحب ِ علم اور تجربہ کار اصحاب اس پر مزید تجویزوں کا اضافہ کریں۔ میرا مدعا یہاں صرف یہ دکھانا تھا کہ اصلاحِ احوال کی مساعی کا صحیح رُخ وہ نہیں ہے جس کی طرف قلم اور قدم چل پڑے ہیں، بلکہ یہ ہے جس کی طرف اسلام ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہِ ط
٭٭٭

شیئر کریں