اب ہم سب سے پہلے ان مسائل کو لیں گے جن کے متعلق امام کے خیالات ان کے اپنے قلم سے ثبت کیے ہوئے موجود ہیں ۔ وہ کوئی صاحب تصنیف آدمی نہ تھے ، اس لیے ان کے کام کے متعلق زیادہ تر دوسرے معتبر ذرائع کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن شیعہ ، خوارج ، مرجیہ اور معتزلہ کے اٹھائے ہو ئے چند مسائل ایسے ہیں جن پر انھوں نے اپنی عادت کے خلاف خود قلم اٹھایا اور اہل السنت والجماعت ( یعنی مسلم معاشرے کے سواد ِ اعظم ) کا عقیدہ ومسلک نہایت مختصر مگر واضح الفاظ میں مرتب کردیا ہے ۔ فطرتا ہمیں ان کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے اولیت کا مرتبہ اسی چیز کو دینا چاہیے جو ان کی اپنی تحریر کی صورت میں ہمیں ملتی ہے ۔ اس سے پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور بنی امیہ کے آغاز سلطنت میں مسلمانوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے تھے ان سے چار بڑے فرقے وجود میں آگئے تھے جنھوں نے بعض ایسے مسائل پر انتہائی آراء کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ ان کو مذہبی عقیدہ قرار دے دیا جو مسلم سوسائٹی کی ترکیب ، اسلامی ریاست کی ہیئت ، اسلامی قانون کے مآخذ ، اور امت کے سابقہ اجتماعی فیصلوں کی مستند حیثیت پر اثر انداز ہوتے تھے ۔ ان مسائل کے متعلق سوادِ اعظم کا مسلک اگرچہ متعین تھا، کیونکہ عام مسلمان اس پر چل رہے تھے ، اور بڑے بڑے فقہاء وقتا فوقتا اپنے اقوال وافعال سے بھی اس کا اظہار کرتے تھے ، لیکن امام ابوحنیفہ ؒ کے وقت تک کسی نے اس کو دو ٹوک طریقے سے ایک واضح تحریر کی صورت میں مرتب نہیں کیا تھا۔