یہ آپ کی اُمّت کا عین مقصدِ وجود ہے جسے آپ نے پورا نہ کیا تو گویا اپنی زندگی ہی اکارت گنوا دی۔ یہ آپ پر خدا کا عائد کیا ہوا فرض ہے کیوں کہ خدا کا حکم یہ ہے کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ المائدہ5:8
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! خدا کی خاطر اٹھنے والے اور ٹھیک ٹھیک راستی کی گواہی دینے والے بنو۔
اور یہ نرا حکم ہی نہیں، بلکہ تاکیدی حکم ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللہِ البقرہ2:140
اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو، اور وہ اسے چھپائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس فرض کو انجام نہ دینے کا نتیجہ کیا ہے۔ آپ سے پہلے اِس گواہی کے کٹہرے میں، یہودی کھڑے کیے گئے تھے، مگر انھوں نے کچھ توحق کو چھپایا اور کچھ حق کے خلاف گواہی دی اور فی الجملہ حق کے نہیں، بلکہ باطل کے گواہ بن کر رہ گئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے انھیں د ھتکار دیا اور اُن پر وہ پھٹکار پڑی کہ:
وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ۰ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ۰ۭ البقرہ2:61
ذلت و خواری اور پستی و بد حالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے عذاب میں گِھر گئے۔