سوال
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ ( یوسف:۳ ) القَصَصِ یہاں مصدر کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے۔ مصدر عربی کے معروف قاعدے کے مطابق نکرہ آنا چاہیے۔ اَحْسَنُ الْقَصَصِ، اَحْسَنُ الْحَدِیْثِ کی نوعیت کی ترکیب ہے اور قَصَصٌ یہاں بمعنی مَقْصُوْصٌ استعمال ہوا ہے۔ لفظ کا یہ استعمال عربیت کے مطابق ہے۔ قَصَّ یَقُصُّ، مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے اور قرآن میں یہ ہر جگہ مفعول ہی کے طور پر استعمال ہوا ہے، بنا بریں صحیح ترجمہ ہوگا:’’ہم تمھیں بہترین سرگزشت سناتے ہیں ۔‘‘ لسان العرب میں أَیْ نُبَیِّنُ لَکَ اَحْسَنَ الْبَیَانِ({ FR 2095 }) کا فقرہ بھی اسی ترجمے کی تائید کرتا ہے۔ اس لیے کہ ’’بیان‘‘ کا لفظ یہاں اسم کے طور پر استعمال ہوا ہے، مصدر کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔
جواب
تفہیم القرآن میں اس آیت کی ترجمانی ان الفاظ میں کی گئی ہے: ہم بہترین پیرایے میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں ۔‘‘ اگر اس آیت کا لفظی ترجمہ کیا جاتا تو عبارت یہ ہوتی ’’ہم تم سے بیان کرتے ہیں بہترین پیرایے میں بیان کرنا۔‘‘ لیکن یہ اردو زبان کے لیے ایک نامانوس اسلوب ہوتا، اس لیے ہم نے ’’قصہ بیان کرنے‘‘ اور ’’بہترین پیرایے میں بیان کرنے‘‘ کے مفہومات کو اردو زبان کے محاورے کے مطابق ادا کیا ہے۔ اب قبل اس کے کہ اس پر قواعد زبان کے لحاظ سے بحث کی جائے، یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اکابر اہل علم نے اس آیت کا کیا ترجمہ کیا ہے:
شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ: ’’ماقصہ خوانیم برتو بہترین قصہ خواندن۔‘‘
شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’ہم بیان کرتے ہیں اوپر تیرے بہت اچھی طرح بیان کرنا۔‘‘
شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’ہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس بہترین بیان۔‘‘
مولانا اشرف علی صاحبؒ: ’’ہم آپ سے ایک بڑا عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں ۔‘‘
پہلے دونوں بزرگوں نے ٹھیک وہی کام کیا ہے جو آپ کے نزدیک غلط ہے، یعنی انھوں نے القصص کو مصدر کے معنی میں لے کر ’’قصہ خواندن‘‘ اور ’’بیان کرنا‘‘ اس کا ترجمہ کیا ہے۔ البتہ دوسرے بزرگوں نے اسے اسم قرار دے کر اس کا ترجمہ ’’بیان‘‘ اور ’’قصہ‘‘ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عربی زبان میں دونوں تعبیرات کی گنجائش ہے۔ شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ کے بارے میں مشکل ہی سے کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ و ہ عربی کے معروف قاعدوں سے ناواقف تھے۔
اب قواعد زبان کے لحاظ سے دیکھیے۔ زمخشری کہتے ہیں کہ القصص مصدر بھی ہوسکتا ہے اِقتصاص (قصہ بیان کرنے) کے معنی میں اور فعل بمعنی مفعول بھی ہوسکتا ہے، جیسے الخبر سے مراد وہ بات ہے جس کی خبر دی گئی ہو اور جائز ہے کہ مفعول کو مصدر کے نام سے موسوم کیا جائے جیسے مخلوق کا نام خلق۔ اب اگر القصص کو مصدر کے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْاِقْتِصَاصِ({ FR 1961 })’’ہم بیان کرتے ہیں تم سے بہترین بیان کرنا۔‘‘ اور اگر القصص سے مقصوص (بیان کی ہوئی چیز) مراد ہو تو اس کے معنی ہوں گے نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ مَایُقَصُّ مِنَ الْاَحَادِیْثِ({ FR 2096 }) ’’ہم بیان کرتے ہیں تم سے وہ چیز جو بہترین ہے ان باتوں میں سے جو بیان کی جاتی ہیں ۔‘‘
یہی بات امام رازیؒ نے بھی کہی ہے اور اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ اگر قصص کو اِقتصاص کے معنی میں مصدر مانا جائے تو لفظ احسن جس خوبی کے لیے استعمال ہوا ہے وہ حسن بیان کی طرف راجع ہوگی نہ کہ قصے کی طرف، یعنی اس کا مطلب ہوگا بہترین طریقے سے بیان کرنا، نہ کہ بہترین قصہ اور اگر قَصَص کو مَقْصوص (بیان کردہ بات) کے معنی میں لیا جائے تو یہ خوبی اس قصے کی ہوگی جو بیان کیا گیا ہے۔
علامہ آلوسی نے قصص کو مصدر اور اقتصاص کا ہم معنی قرار دیتے ہوئے ایک نکتے کا اور اضافہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس جملے میں اَحْسَنَ الْقَصَصِ، نَقُصُّ ُّ کا مفعول نہیں ہے بلکہ اُس کا مفعول محذوف ہے اور وہ ہے اس صورت کا مضمون۔({ FR 2097 }) اسی بنا پر ہم نے اس محذوفِ مقدَّر کو ’’واقعات اور حقائق‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۷۶ء)